Ruhoon Ka Jazeera - Article No. 2178

Ruhoon Ka Jazeera

روحوں کا جزیرہ - تحریر نمبر 2178

مدت ہوئی شمالی امریکہ میں ریڈانڈین کے ایک قبیلہ میں ایک ایسی حسین لڑکی تھی جو اپنے حسن میں ثانی نہیں رکھتی تھی۔

جمعہ 1 نومبر 2019

امریکہ
مدت ہوئی شمالی امریکہ میں ریڈانڈین کے ایک قبیلہ میں ایک ایسی حسین لڑکی تھی جو اپنے حسن میں ثانی نہیں رکھتی تھی۔ قبیلے کے کئی بہادر اس سے شادی کے خواہش مند تھے۔ لیکن وہ صرف ایک نوجوان کی طرف متوجہ تھی ۔ یہ خوش نصیب نوجوان اس قبیلے کا نوجوان تھا جو شند سال پہلے اسے پسند کرچکا تھا ۔ان کی شادی کا فیصلہ بھی ہوچکا تھا۔

یہ تقریب منانے کیلئے شاہانہ جشن کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ ہر شخص شادی کے دن کا منتظر تھا اور یہ دونوں آنے والی مسرت کے خیال میں مگن تھے۔ لیکن عین شادی کی دعوت سے ایک رات پہلے اچانک لڑکی بیمارہوگئی اور اپنی سہیلیوں سے ایک لفظ کہے بنا جو اس کے گرد بیٹھی آنسو بہار ہی تھیں۔وہ خاموشی سے اس دنیا سے چل بسی۔
اس کے محبوب کا دل ٹوٹ گیا۔

(جاری ہے)

وہ دن رات اس کے خیال میں ڈوبارہتا۔

اس نے اپنا تیر کمان ایک طرف رکھ دیا۔ وہ شکار کھیلنے جاتا اور نہ ہی لڑنے۔ بلکہ صبح سے شام تک جہاں لڑکی دفن کی گئی تھی۔ بیٹھا اپنی دفن شدہ مسرت کے متعلق سوچتا رہتا۔ آخر کار کئی روز کے بعد تاریکی میں اس نے روشنی کی ایک کرن دیکھی۔اسے یاد آیا کہ قبیلے کے بزرگ کہا کرتے تھے کہ روحوں کے جزیرے کو ایک راستہ جاتا ہے۔اگر اسے تلاش کیا جائے تو وہ راستہ مل سکتا ہے۔
دوسرے روز بہت سویرے اٹھا اور اس نے اپنے تھیلے میں کچھ خوراک رکھی اور ایک فالتو کھال اپنے کندھے پر ڈالی۔کیونکہ اسے معلوم نہ تھا کہ سفر کتنا طویل ہوگا اور اسے کتنی مدت گھر سے دور رہنا پڑے گا اور اسے کن علاقوں میں گزرنا پڑے گا۔البتہ اسے یہ یقین تھا کہ واقعہ روحوں کے جزیرے کی طرف کوئی راستہ جاتاہے،تو وہ اسے پالے گا۔ سفر پر جانے سے پہلے اسے ایک پریشانی کا سامناکرنا پڑا ۔
وہ یہ فیصلہ نہیں کرسکتا تھا وہ کس سمت روانہ ہواور ورنہ اسے کوئی ایسی وجہ معلوم ہوئی تھی کہ وہ ایک سمت کو دوسری پر ترجیح دے۔ وہ اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ اسے اچانک خیال آیا کہ ایک بزرگ کو یہ کہتے سنا تھا کہ روحوں کا جزیرہ جنوب کی سمت ہے۔ اب وہ ایک نئی امیداور نئے حوصلے سے جنوب کی سمت روانہ ہوا۔
کئی میلوں کی مسافت طے کرنے کے بعد بھی اسے اپنے گردو پیش کوئی تبدیلی نظرنہ آئی۔
جنگل ، پہاڑ اور دریا اسے ایسے ہی نظر آرہے تھے۔ جیسے وہ اپنے علاقے میں دیکھنے کا عادی تھا۔البتہ ایک چیز کا فرق اس نے ضرور محسوس کیا کہ جب وہ اپنے سفر پر نکلا تھا تو اس وقت درختوں اور پہاڑوں پر برف کی موٹی تہ جمی ہوئی تھی لیکن جوں جوں وہ جنوب کی طرف بڑھتا جارہا تھا، برف کم ہوتی جارہی تھی حتی کہ وہ ایسے مقام پر پہنچ گیا۔ جہاں برف کا نام ونشان نہ تھا۔
درختوں اور پودوں پر غنچے چٹخنے لگے اور پھر اس کے پاؤں میں پھول ہی پھول بکھر گئے۔ اس کے سر پر بادلوں کی بجائے شفاف نیلا آسمان تھا اور ہر طرف پر ندے چہچہا رہے تھے اور تب اسے یقین ہوگیا کہ وہ صحیح راستے پر گامزن ہے۔
اپنی کھوئی ہوئی محبوبہ کو دیکھنے کے خیال ہی سے اس کا دل خوشی سے کانپ اٹھااور وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھتا گیا۔
کبھی اس کا راستہ تاریک جنگل سے گزرتا اور کبھی دشوار پہاڑیوں سے․․․․․․ بہت دوران پہاڑیوں کی چوٹی پرایک جھونپڑی نظر آئی ایک ضعیف شخص کھال کی ایک پوشش پہنے اور ایک ہاتھ میں عصالیے جھونپڑی کے دروازے پر کھڑا تھاجب نوجوان اس کے پاس پہنچا اور اپنامد عائے سفر بین کرنے لگا۔ تو بوڑھا بول اٹھا۔
میں تمہارا ہی انتظار کررہا تھا۔ مجھے معلوم ہے جہاں سے تم آرہے ہو اور جس کی تلاش میں تم یہاں پہنچے ہو ۔
وہ ابھی ابھی یہاں سے گئی ہے۔ تم میری اس جھونپڑی میں کچھ سستا لو ۔جیسا کہ وہ بھی یہاں آرام کرکے گئی ہے ۔ تمہارے سوالات کے جوابات دوں گا اور تمہیں بتاؤں گا کہ اب تمہیں کس طرف جانا چاہیے۔
یہ سن کر نوجوان سردار جھونپڑی میں داخل ہوا۔ لیکن اس کا دل اپنی محبوبہ سے ملنے کے لیے اتنا بے چین تھا کہ وہ آرام نہ کرسکا اورجلد ہی اٹھ کھڑا ہوا۔
ساتھ ہی بوڑھا بھی اٹھ کر دروازے پر جا کھڑا ہوا۔
دیکھو ! بوڑھابولا۔ اس پھیلے ہوئے پانی پر نظر دوڑاؤ پانی سے پرے زمین کا وہ ایک خطہ ہے ۔ یہی روحوں کا جزیرہ ہے لیکن وہاں کوئی شخص داخل نہیں ہوسکتا۔ وہاں داخلے کی شرط یہ ہے کہ وہ اپنا جسم یہاں چھوڑ جائے۔ تمہیں جزیرے میں جانا ہے تو اپناجسم یہاں چھوڑ جاؤ۔ اور اپنا تیزکمان، اپنی کھال اور اپنا کتا بھی ۔
یہاں یہ چیزیں محفوظ رہیں گی۔
یہ کہہ کر وہ مڑااور نوجوان سردار نے فوراً اپنے آپ کو ہوا کی طرح لطیف محسوس کیا، اور جب وہ جزیرے کی طرف بڑھا تو اس کے پاؤں زمین کو چھوتے نہ تھے۔ بلکہ وہ پرواز کررہا تھا۔ جوں جوں وہ آگے بڑھتا تو فضا عطر بیز ہوتی گئی اور پھول کچھ زیادہ ہی خوبصورت ہوتے گئے۔ جانور ڈرنے کی بجائے پیار سے اپنی تھوتھنیاں اس سے رگڑنے لگے۔
پرندے اس کے گرد چہچہانے لگے اور مچھلیاں پانی سے سرنکال کر اسے گزرتے ہوئے دیکھنے لگیں ۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ یہ دیکھ کر بڑا حیران ہوا کہ چٹانیں اور درخت اس کے راستے میں حائل نہ ہوتے تھے۔ بلکہ وہ ان میں سے بڑی آسانی سے گزررہا تھا۔ درحقیقت یہ چٹانیں اور درخت اصل نہ تھے۔ بلکہ یہ ان کی روحیں تھیں۔ کیونکہ یہ روحوں کی سرزمین تھی۔
اس طرح وہ فضا میں پرواز کرتا ہوا کہ ایک وسیع جھیل کے کنارے پہنچ گیا۔
اس جھیل کے وسط میں ایک خوبصورت جزیرہ تھا اور جھیل کے کنارے پر چمکیلے پتھر کی ایک کشتی کھڑی تھی اور اس میں چمکتے ہوئی دو پتوار تھے۔
نوجوان اچھل کر کشتی میں بیٹھ گیا اور پتواروں کو مضبوطی سے تھام کر کشتی کھیلنے لگا۔ کنارے سے تھوڑی دور پہنچ کر وہ دیکھتا ہے کہ بالکل اسی کی کشتی کی مانند ایک کشتی بڑھی آرہی ہے اور اس میں اس کی محبوبہ بیٹھی ہے۔
جس کی خاطر اس نے اتنا طویل اور کٹھن سفرطے کیا تھا۔ لیکن وہ ایک دوسرے کے پاس پہنچ نہیں سکتے تھے۔ان کی کشتیوں کے درمیان بڑی بڑی لہرووں کا طوفان حائل تھاا ور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ زبردست لہریں کشتیوں کو غرق کردیں گی لیکن ایسا نہیں ہوا ایک دم نوجوان اور لڑکی خوف سے کانپتے ہوئے پیچھے ہٹے۔ کیونکہ شفاف پانی میں بہت نیچے لہروں کی مدد جزرمیں کئی مرد اور عورتیں ہاتھ پاؤں ماررہے تھے۔
لیکن ان میں چند ہی خوش نصیب ایسے تھے جو پار اترسکے۔ صرف اس دہشت ناک منظر سے وہ بہت خوف زدہ ہوئے۔ تاہم انہیں کسی قسم کاکوئی گزندنہ پہنچا کیونکہ ان کی زندگیاں بدی سے پاک تھیں۔
زندگی کے مالک نے کہا تھا کہ انہیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچے گا۔ آخر یہ بھی ”جزیرہ مسرت “میں پہنچ گئے اور وہ پھولوں کی خوش نما کیاریوں کے درمیان اور تیز روندیوں کے کنارے سیر کرتے رہے ۔
انہیں بھوک اور پیاس کا قطعاً احساس نہ رہا۔ اور نہ ہی سردی گرمی کا․․․․․ ہوا ان کی خوراک تھی اور سورج کی روشنی ان کا لباس۔ وہ نعشوں کو بالکل بھول گئے کیونکہ جزیرے میں کوئی قبر نہ تھی۔ نوجوان سردار کے خیالات جنگوں اور جانوروں کے شکار کی طرف نہ گئے۔ وہ دونوں بڑی خوشی سے ہمیشہ ہمیشہ اسی طرح ہاتھوں میں ہاتھ دیے جزیرہ مستر میں پھرتے رہتے۔
اگر ہوا کی سرسراہٹ میں زندگی کے مالک ، کی آواز سنائی نہ دیتی جہاں سے آئے ہو، وہاں پر واپس چلے جاؤ۔ تمہارے کرنے کیلئے میرے پاس بہت کام ہیں۔اور قبیلے کے لوگوں کو تمہاری ضرورت ہے ․․․․․․ کئی سال تک تم اپنے قبیلے پر حکمرانی کروگے․․․․․ دروازے پر میرا ایلچی تمہارا منتظر ہے۔ تم اس سے اپنا جسم واپس لے لو۔ وہی تمہیں بتائے گا تمہیں کیا کرنا چاہیے۔ اس کا مشورہ غور سے سنو۔ اور صبر تحمل سے انتظار کرو․․․․․․ اور آنے والے وقت میں تم اس سے ضرور مل سکو گے جسے اب کبھی چھوڑنا پڑے گا۔ لڑکی کو اس جگہ قبول کرلیا گیا ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نوجوان اور حسین رہے گی۔ جیسا کہ وہ اس وقت تھی جب میں نے اسے برف کی سرزمین سے بلایا تھا۔

Browse More Urdu Literature Articles