Tok Tok Didum Dum Na Khseedum - Article No. 1628

Tok Tok Didum Dum Na Khseedum

ٹُک ٹُک دیدم، دم نہ کشیدم - تحریر نمبر 1628

ہاتھی نے جو شاید پہلے ہی سے غصے میں بھرا بیٹھا تھا اپنی سونڈ میں شیر کو لپیٹ کر اس زور سے زمین پر پٹخاکہ بے چارہ شیر اپنی کمر سہلاتا رہ گیا اور پھر کہنے لگا

جمعہ 15 دسمبر 2017

اطہر اقبال:
جنگل کاشیر اپنے شیر ہونے پر بڑا فخر محسوس کرتا تھا۔ جانوروں کو روک روک کر پوچھتا”بتاؤ جنگل کا بادشاہ کون ہے؟“ سب جانور یہی جواب دیتے ’عالی جناب آپ ہی ہیں“ شیر یہ سن کر خوب خوش ہوتا۔

(جاری ہے)

ایک دن شیر کی شامت آئی جو اس نے ہاتھی کو روک کر پوچھ لیا”بتاؤ جنگل کا بادشاہ کون ہے؟“ ہاتھی نے جو شاید پہلے ہی سے غصے میں بھرا بیٹھا تھا اپنی سونڈ میں شیر کو لپیٹ کر اس زور سے زمین پر پٹخاکہ بے چارہ شیر اپنی کمر سہلاتا رہ گیا اور پھر کہنے لگا“ ہاتھی بھائی اگر آپ کو معلوم نہ تھا تو نہ بتاتے مگر اس مذاق کی کیا ضرورت تھی“۔

ہاتھی نے ایک بار پھر چاہا کہ شیر کا اٹھا کر پٹخ دے مگر شیر دم دبا کر وہاں سے بھاگا اور دور کھڑا ہوکر حیرت سے ہاتھی کو تکنے لگا اور سوچنے لگا کہ جس طرح ہاتھی نے اسے اٹھا کر پھینکا اس طرح تو اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا جس بات پر شیر ہی کو کیا کسی کو بھی اعتراض ہوسکتا تھا مگر وہ کام شیر کے سامنے ہوگیا۔ ہاتھی نے شیر کو اس زور سے پٹخا تھا کہ بیچارے شیر کی ساری بہادری دھری کی دھری رہ گئی اور شیر اس وقت اس کہاوت کی صورت بنا کھڑا تھا یعنی ”ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم“۔

Browse More Urdu Literature Articles