Aik Darvesh Aik Soofi - Sagar Siddiqui - Article No. 2473
ایک درویش -- ایک صوفی۔۔۔۔۔۔ساغر صدیقی - تحریر نمبر 2473
ساغر کے شناساؤں کے مطابق وہ جب ہندوستان سے ہجرت کر کے لاہور آئے تو ایک خوش باش نوجوان تھے لیکن ہجرت کے بعد ان کی حالت یکسر بدل گئی
لقمان اسد ہفتہ 12 دسمبر 2020
(جاری ہے)
بے روزگاری اور غربت کے ہاتھوں تنگ آ کر ساغر اپنا آبائی شہر انبالہ چھوڑ کر امرتسر آ گئے اور یہاں ایک دوکان پر ملازمت اختیار کر لی۔
ساغر جس دوکان پر ملازم تھے یہ دکان دار لکڑی کے کنگھے بنا کر فروخت کر تا تھا لہذا یہ کام ساغر نے بھی سیکھ لیا ۔ساغر دن بھر لکڑی کے کنگھے بناتے اور رات کو اسی دوکان کے کسی گوشے میں سو جاتے۔ ساغر صدیقی نے 14برس کی عمر میں شعر کہنا شروع کر دیے تھے ۔ابتداء میں انہوں نے قلمی نام "ناصر مجازی"منتخب کیا۔لیکن جلد وہ "ساغر صدیقی "کے قلمی نام سے معروف ہو گئے۔ساغر کی مقبولیت اور شہرت کی ابتداء کا سبب امرتسر میں ہونے والا ایک مشاعرہ تھا ۔اس مشاعرہ میں لاہور کے بھی کئی معروف شعراء موجود تھے ۔مشاعرہ کے منتظمین میں سے کسی ایک کو یہ بات معلوم تھی کہ یہ نوجوان شاعری سے دلچسپی رکھتا اور اچھے شعر کہتا ہے تو اس نے ساغر کا نام مشاعرہ پڑھنے والے شعراء کی فہرست میں شامل کرا دیا ۔ساغر کی آواز میں گویا جادوئی سوز تھا ۔وہ ترنم کے ساتھ کلام پڑھنے میں کوئی جواب نہیں رکھتے تھے ۔ اس مشاعرہ میں ساغر کوجتنی داد ملی وہ مشاعرہ میں موجود کسی بڑے سے بڑے شاعر کے حصے میں نہ آسکی اور یہ مشاعرہ نوجوان شاعر ساغر صدیقی نے لوٹ لیا۔اس مشاعرہ کے بعد ادبی حلقوں میں ساغر کی اہمیت بہت بڑھ گئی اور وہ امرتسر اور لاہور کے مشاعروں میں تواتر کے ساتھ مدعو کیے جانے لگے ۔ ساغر نے شاعری میں اصلاح کیلئے لطیف انور گورداس پوری کا انتخاب کیااور ان سے ہی رموزِ شاعری سے متعلق آگاہی حاصل کرتے رہے ۔قیامِ پاکستان کے بعد ساغر صدیقی امرتسر کو چھوڑ کر لاہور آ گئے۔یہاں ساغر کی سرپرستی انور کمال پاشا (ابنِ حکیم احمد شجاع)کرنے لگے جو پاکستان میں فلم انڈسٹری کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں ۔انور کمال پاشا نے ساغر صدیقی سے اپنی کئی فلموں کیلئے گیت لکھوائے جو بے حد مقبول ہوئے ۔اس کے علاوہ ساغر صدیقی لاہور ہی سے شائع ہونے والے کئی ادبی رسالوں سے منسلک ہو گئے اور ان کیلئے اپنا کلام لکھنے لگے۔ساغر صدیقی روزنامہ "نوائے وقت "کے مستقل لکھاری تھے وہ جس ماہ فوت ہوئے اسی ماہ نوائے وقت میں ان کی یہ نعت شائع ہوئی:سایہ اسے دیتا ہے دامان محمدکا
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
ہم کبھی شعر کہا کرتے تھے
مشعلیں لے کے تمہارے غم کی
ہم اندھیروں میں چلا کرتے تھے
اب کہاں ایسی طبیعت والے
چوٹ کھا کر جو دُعا کرتے تھے
بکھری بکھری ہوئی زلفوں والے
قافلے روک لیا کرتے تھے
آج گلشن میں شگوفے ساغر
شکوئہ بادِ صبا کرتے تھے
شمع توحید جلانے کیلئے آپ آئے
ایک پیغام جو ہر دل میں اجالا کر دے
ساری دنیا کو سنانے کیلئے آپ آئے
ایک مدت سے بھٹکے ہوئے انسانوں کو
ایک مرکز پہ بلانے کیلئے آپ آئے
چشمِ بیدار کو اسرارِ خدائی بخشے
سونے والوں کو جگانے کیلئے آپ آئے
ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں
میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا ،یاد نہیں
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا،یاد نہیں
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
ہم تخئیل کے مجدد ،ہم تصور کے امام
غم بہار ،زہرِ آرزو (1964)،لوحِ جنوں (1971)جبکہ سبز گنبد اور شبِ آگہی (1972) میں شائع ہوئے۔
ساغر صدیقی کے بے شمار فلمی گیت ایسے ہیں جو بہت مقبول ہوئے اور نصرت فتح علی خان کی گائی ہوئی اس غزل کو بھی بہت شہرت حاصل ہے
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا
اتنی دقیق شے کو کوئی کیسے سمجھ سکے
یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا
چھلکے ہوئے تھے جام،پریشاں تھی زلفِ یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
میں آدمی ہوں کوئی فرشتہ نہیں حضور
میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا
کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہی کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
ساغر وہ کہ رہے تھے کہ پی لیجئیے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا
Browse More Urdu Literature Articles
کتنے یگ بیت گئے
Kitne Yug Beet Gaye
پروین شاکر کی حادثاتی موت کی نامکمل تحقیقات
Parveen Shakir Ki Hadsati Maut Ki Namukammal Tehqiqat
جلتی ہوا کا گیت
Jalti Hawa Ka Geet
ماں اور پروین شاکر
Maan Aur Parveen Shakir
پروین شاکر کا رثائی شعور
Parveen Shakir Ka Rasai Shaoor
ریت
Rait
لا حاصل از خود
La Hasil Az Khud
فقیرن
Faqeeran
داستان عزم
Dastaan E Azm
محمد فاروق عزمی کا پرعزم اور پر تاثیر قلمی سفر
Mohammad Farooq Azmi Ka PurAzam Aur PurTaseer Qalmi Safar
حلیمہ خان کا تقسیم 1947 کے شہداء کو سلام
'Walking The Divide: A Tale Of A Journey Home'
جہیز
Jaheez