Almi Shohrat Yafta Adeeba,qurat Ul Ain Haider - Article No. 1881

Almi Shohrat Yafta Adeeba,qurat Ul Ain Haider

عالمی شہرت یافتہ ادیبہ،قرةالعین حیدر - تحریر نمبر 1881

قرةالعین حیدر ایک بے حد مشکل پسند اور منفرد قلم کار تھیں ۔ ان کے افسانوں کے موضوعات ، کردار، ماحول، واقعات، اسلوب، آرٹ اور طرزِ بیان سب کچھ منفرد ہیں

Akhtar Sardar Chaudhry اختر سردارچودھری جمعہ 18 جنوری 2019

عالمی شہرت یافتہ ادیبہ، قرةالعین حیدر 20 جنوری 1927 ء میں اتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہوئی،قرةالعین حیدر المعروف عینی آپا کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ان کے والد سجاد حیدر یلدرم اردو کے پہلے افسانہ نگار شمار کیے جاتے ہیں۔ قرةالعین حیدر نے ابتدائی و ثانوی تعلیم دہرہ دون، لاہور اور لکھنوٴ میں حاصل کی جبکہ انٹر بھی لکھنوٴ کے ایک کالج سے کیا ۔
بی اے دہلی کے ایک کالج سے اور پھر ایم اے کے لئے انہوں نے لکھنوٴ یونیورسیٹی میں داخلہ لیا ۔جس ماحول میں قرةالعین حیدر نے آنکھیں کھولیں ، گھر کا پورا ماحول تعلیم یافتہ ادبی اور کسی حد تک مغربیت کے زیر اثر تھا ۔کم عمر ی میں انہو ں نے کہانیاں لکھنے کی شروعات کیں، پہلی کہانی ، بی چوہیا کی کہانی، تھی قرةالعین حیدر نے ،ایلس ان ونڈر لینڈکا ترجمہ کیا یہ غالباً 1939 ء کی بات ہوگی۔

(جاری ہے)

اس وقت قرةالعین حیدر کی عمرتیرہ یا چودہ سال تھی۔ ایک افسانہ بعنوان ،ارادے ، اپنے نام سے بھیجا جس کی اشاعت پر مبلغ بیس روپے کا انعام ملا۔ قرةالعین حیدر کے ابتدائی افسانوں میں،دیودار کے درخت، اور ،جہاں کارواں ٹھہرا تھا،اچھے افسانے ہیں ، ان میں رومانیت کی بھر پور فضا موجودہے ۔افسانے ،اودھ کی شام، میں ہندو ، مسلم اور انگریز کے اختلاط سے وجود میں آنے والے معاشرے کی عکاسی ہے ۔
قرةالعین حیدر سے ایک صاحب نے 1957ء میں کہا کہ تم منٹو کی طرح کہانی نہیں لکھ سکتیں۔قرةالعین حیدر نے چیلنج قبول کیا اور ،پت جھڑ کی آواز ،لکھی۔ قرةالعین حیدر ایک بے حد مشکل پسند اور منفرد قلم کار تھیں ۔ ان کے افسانوں کے موضوعات ، کردار، ماحول، واقعات، اسلوب، آرٹ اور طرزِ بیان سب کچھ منفرد ہیں، مختلف ہیں ۔قرةالعین حیدر کو اردو ادب کی ،ورجینا وولف،کہا جاتا ہے ۔
انہوں نے پہلی بار اردو ادب میں ،سٹریم آف کونشیئسنس، تکنیک کا استعمال کیا تھا۔ اس تکنیک کے تحت کہانی ایک ہی وقت میں مختلف سمت میں چلتی ہے ۔قرةالعین حیدر کے افسانوں کی بنیاد اور مرکزی کردار جاپان کا ہے، کبھی ایران کا اصل میں جہاں جہاں کی سیر قرةالعین حیدر نے کی جو جو مشاہدات کیے ان کو اپنے افسانوں میں ڈھال دیا ،مثلاََ مشرقی پاکستان( بنگلہ دیش) کے ماحول میں انہوں نے ایک ناولٹ بھی لکھا ،چائے کے باغ، جس میں مزدوروں کے مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے ۔
قرةالعین حیدر نے چار افسانوی مجموعے ، پانچ ناولٹ، آٹھ ناول، گیارہ رپورتاڑ کے علاوہ بے شمار کتابیں لکھیں۔تقریباً گیارہ مختلف زبانوں کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا۔ چار کتابوں کا اردو سے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ ان کے مشہور ناولوں میں، آگ کا دریا،آخرشب کے ہم سفر، میرے بھی صنم خانے ، چاندنی بیگم اور ، کارِ جہاں دراز، شامل ہیں۔
ان کے دو ناولوں ،آگ کا دریا، اور،آخر شب کے ہم سفر، کو اردو ادب کا شاہکار مانا جاتا ہے ۔حالانکہ ،آگ کا دریا،کے جواب میں ،سنگم، اور،اداس نسلیں،لکھے گئے، لیکن پڑھنے والے فرق جانتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب ،کارِ جہاں دراز،میں لکھتی ہیں یہ بات تعجب خیز معلوم ہوتی ہے کہ اداس نسلیں کے متعدد ابواب میں ، میرے بھی صنم خانے ،سفینہ غم دل،آگ کا دریااور شیشے کا گھر کے چند افسانوں کے اسٹائل کا گہرا چربہ اتارا گیا ہے ۔
خفیف سے ردوبدل کے ساتھ پورے پورے جملے اور پیراگراف تک وہی ہیں۔ لیکن آج تک سوائے پاکستانی طنز نگار محمد خالد اختر کے کسی ایک پاکستانی یا ہندوستانی نقاد کی نظر اس طرف نہیں گئی، نہ کسی نے اشارتاً بھی اس کا ذکر کیا۔ ان کی دوسری شاہکار کتاب، آخر شب کے ہم سفر، کے لئے1989 ء میں انہیں ہندوستان کے سب سے باوقار ادبی اعزاز گیان پیٹھ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ،جبکہ بھارتی حکومت نے انہیں1985 ء میں پدم شری اور 2005 ء میں پدم بھوشن جیسے اعزازات بھی دیے ۔
مشکل پسند، منفرد اردوکی سب سے بڑی قلم کارہ قرةالعین حیدر کا اسی برس کی عمر میں 21 اگست 2007 ء کو دہلی میں طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔جامع ملیہ اسلامیہ دہلی کے قبرستان میں مدفن ہیں۔ قرةالعین حیدر کے چند انٹرویوز سے چنے گئے چند فقرات جن سے قرةالعین حیدر کو جاننے میں مدد ملتی ہے نظر قارئین ہیں۔”میرے نزدیک ادب برائے زندگی کا نظریہ بہتر ہے ۔
کرشن چندر میرا پسندیدہ فن کار ہے ۔اپنا افسانہ جلاوطن مجھے پسند ہے۔ہمارے ادیبوں کے سامنے کوئی واضح مقصد نہیں۔کچھ ناقدوں کو زعم ہے کہ وہ ادب میں کنگ میکر ہیں۔میں بنیادی طور پر رومانٹک ہوں۔ہندوستان میں اردو سیاست کا شکار ہوگئی۔ہمارے اکثر ناقدین لکیر کے فقیر ہیں۔بیشتر نقادوں کو فکشن کی سمجھ نہیں۔عام آدمی میرا موضوع کبھی نہیں رہا۔تاریخ ایک بنیادی حقیقت ہے ۔“

Browse More Urdu Literature Articles