Ana Ki Jang Main Akser Judai Jeet Jati Hai - Article No. 2173

Ana Ki Jang Main Akser Judai Jeet Jati Hai

انا کی جنگ میں اکثر جدائی جیت جاتی ہے - تحریر نمبر 2173

ہم ٹھہرے اناؤں کے اسیر، انا پرست، انا کے خوگر اور اناؤں کے حصار میں زندگی بسر کرنے والے خود سر و خود غرض لوگ، سو مہرووفا کے گوہر ہوں یا رشتوں کے تقدس و احترام کے جوہر، ہم یہ سب کچھ اپنی انا پر تج دینے میں ذرا تامل نہیں کرتے

Hayat abdullah حیات عبداللہ پیر 28 اکتوبر 2019

ہم ٹھہرے اناؤں کے اسیر، انا پرست، انا کے خوگر اور اناؤں کے حصار میں زندگی بسر کرنے والے خود سر و خود غرض لوگ، سو مہرووفا کے گوہر ہوں یا رشتوں کے تقدس و احترام کے جوہر، ہم یہ سب کچھ اپنی انا پر تج دینے میں ذرا تامل نہیں کرتے۔دیکھ لیجیے معاشرے میں سب سے مضبوط قد کاٹھ اور تن و توش انا ہی کا تو ہے۔زیست کے آخری لمحات میں ہمارے بدن کی اینٹیں چٹخنے لگیں تب بھی ہم انا کے خول سے باہر نہیں نکلتے۔
انا کے مقابل ہر رشتہ ہیچ اور محبتوں سے منسلک ہر جذبہ کم تر ہی تو ہو چکا ہے۔انا کوئی مادی چیز نہیں ہے۔یہ ایک احساس، تخیّل اور جذبے کا نام ہے۔یہ بہ ظاہر دکھائی نہیں دیتی مگر جب کسی انسان کے دل ودماغ پر، انا کا کلف لگ جائے تو پھر یہ واضح اور واشگاف طور پر دکھائی دیتی ہے۔

(جاری ہے)

اس جذبے کو جب ہم پال پوس کر پہلوان بنا ڈالتے ہیں تو پھر یہ رشتوں ناتوں، محبتوں اور چاہتوں کو پچھاڑ ڈالتا ہے۔


انا عربی زبان کا لفظ ہے۔یہ ضمیر واحد متکلم ہے۔اس کے معانی ”میں، شعور، پندار اور خودی“ ہیں۔مگر افسوس ان معانی میں یہ لفظ استعمال ہوتا ہی نہیں۔لوگوں کو اس کا درست استعمال آتا ہی نہیں۔دوستوں میں جب تلخ نوائی ہو جائے، رشتے داروں میں جب تناؤ جھگڑے کا روپ اختیار کر لے یا خاوند اور بیوی جیسے محبت آفریں رشتے میں چپقلش کی جھاڑیاں اگ آئیں تو پھر صلح میں پہل نہ کرنے کو انا کا نام دیا جاتا ہے۔
دونوں فریق ہی یہ سوچتے ہیں کہ میں پہل کیوں کروں؟
اگر بھائیوں میں دنگا فساد ہو جائے تو بڑے بھائی کا موقف ہوتا ہے کہ میں بڑا ہوں، صلح کرنے میں پہل چھوٹے بھائی کو کرنی چاہیے۔چھوٹے بھائی کے دل میں بھی منفی خیالات کے جھکّڑ چلتے ہیں کہ غلطی بڑے بھائی کی ہے سو اُسے معافی مانگنی چاہیے۔دونوں ہی اپنے اپنے موقف پر ڈٹ جاتے ہیں۔شوہر کو اپنے مرد ہونے کا بڑا زعم اور گھمنڈ ہوتا ہے۔
وہ سوچتا ہے کہ میں مرد ہوں سو پہل بیوی کو کرنی چاہیے۔عورت کے دل میں بھی ایسے خیالات کا جوار بھاٹا ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے کہ میں اپنے والدین، بہن اور بھائیوں کو چھوڑ کر اِس کے گھر آئی ہوں، اس لیے خاوند کا فرض ہے کہ وہ مجھ سے معافی مانگے۔خاوند کبھی اس پہلو پر نہیں سوچتا کہ یہ صنفِ نازک ہے، اِس کے خیالات کانچ کی مانند اور احساسات آبگینوں جیسے ہیں۔
وہ کبھی اتنی ہمت کا مظاہرہ نہیں کرتا کہ۔
چلو میں پہل کر لیتا ہوں تجدیدِ تعلق میں
انا کے کھیل میں ہم نے ہے کھائی مات، کہ دینا
صنفِ نازک بھی کبھی اس مثبت رخ پر نہیں سوچتی کہ اللہ نے سورہ ء بقرہ کی آیت 228 میں ارشاد فرمایا ہے کہ”مَردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فضیلت ہے“سو اسی آیت پر ہی عمل کر کے اپنے جیون ساتھی سے معافی مانگ کر اُسے منا لے۔
یہ حقیقت ہے کہ اکثر معاملات میں فریقین صلح پر آمادہ ہوتے ہیں مگر”انا“ راہیں مسدود کرتی ہے۔شیطان وسوسہ ڈالتا ہے کہ اگر تُو نے پہل کر لی تو فریقِ ثانی اپنی غلطیوں پر مزید پختہ ہو جائے گا۔خیالات دماغ میں ابلنے لگتے ہیں کہ اگر مخالف کو غلطیوں کا سبق سکھانا ہے تو اُسے خود چل کر میرے پاس آنا چاہیے۔جب کہ دوسری جانب بھی معاملہ ایسا ہی ہوتا ہے۔

قرب کے نہ وفا کے ہوتے ہیں
جھگڑے سارے انا کے ہوتے ہیں
اور پھر اسی انتظار میں برسوں بیت جاتے ہیں۔یہی انا کسی دیمک کی طرح محبت بھرے رشتوں کو مسموم کر ڈالتی ہے۔رفتہ رفتہ محبتیں، خلوص میں بدلنے لگتی ہیں۔پھر خلوص بھی ماند پڑنے لگتا ہے اور پھر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ محبت، عداوت میں بدل چکی ہوتی ہے۔
لوگ اپنی عقل پر پڑے دبیز پردوں کو انا کا نام کیوں دینے لگے ہیں؟ پہلے کسی بڑے کی بات مان لی جاتی تھی مگر اب سب ہی اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگے ہیں، چھوٹا تو کوئی رہا ہی نہیں۔
تعلیم یافتہ اور مہذب لوگ بھی اپنی فکر اور سوچ کی بوسیدگی کو انا کے نام سے کیوں موسوم کرنے لگے ہیں؟ اگر یہی انا ہے تو یاد رکھیے کہ یہ تو وفاؤں میں دراڑیں ڈال دیتی ہے۔یہ تو چمکتے دمکتے رشتوں کو اکارت کر ڈالتی ہے۔ہم کتنے ہی انمول رشتوں کو اپنی انا کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔کیوں ہم نے اپنی ذات کے گرد خود ساختہ انا کے حصار کھینچ رکھے ہیں؟ کیوں ہم اپنی منفی اور محدود سوچ میں مقیّد ہو کر رہ گئے ہیں خدارا! شفق رنگ محبتوں کو بے رنگ کرنے والے جذبے کو انا کا نام مت دیجیے۔
رسیلے رشتوں کو پھیکے کر ڈالنے والی سنگ دلی کو انا کا لقب تو نہ دیجیے۔مضبوط اور توانا جذبوں کو کھوکھلا کر دینے والی سوچ کو انا کے نام سے تو مت نوازیے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگ احسان فراموشی کی وبا میں مبتلا ہیں۔ممکن ہے آپ نے کسی کے مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے بڑی ہی عمدہ پلاننگ کی ہو اور کچھ عرصے بعد اسی نے آپ کو طنزاً”پلانر اور گیمر“ کے لقب سے نواز دیا ہو۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے لوگوں کے دل جوڑنے کے لیے ہر طرح کے جتن کیے ہوں اور وہی لوگ آپ کو رشتے توڑنے والا کہنے لگیں۔ہاں! یہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے کسی کو معززومکرم بنانے کے لیے ان گنت قربانیاں دی ہوں اور وہی شخص آپ کو ذلیل و رسوا کرنے پر اتر آئے۔میں یہ نہیں کہتا کہ آپ ایسے لوگوں کے قدموں میں گر جائیں۔البتہ ان کے متعلق اپنی زبان ضرور خاموش کر لیں تا کہ آپ کی نیکیاں ضائع نہ ہوں۔
ایسے احسان فراموش لوگوں سے قدرت خود انتقام لے لے گی۔میں تو محبتوں کی دنیا کی بات کرنے چلا ہوں۔
آئیے ہم اپنے اردگرد دیکھیں کہ کتنی محبتیں آپ کی پہل کرنے کی منتظر ہیں، کتنی چاہتیں ہیں جو صرف آپ کے ہاتھ بڑھانے سے بہار افروز ہوسکتی ہیں۔یقیناً نوّے فی صد سے زائد لوگ محض آپ کی معذرت سے آپ کے اپنے بن سکتے ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بھی یہی ہے کہ”کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی سے تین راتوں سے زیادہ ناراض رہے کہ دونوں راستے میں اگر ملیں تو یہ بھی اعراض کر لے اور وہ بھی اعراض کر لے۔
ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے “ (بخاری جلد 1)
ایک اور حدیث ہے کہ”.مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے اوراُس سے ناراض رہے۔جس شخص نے تین دن سے زیادہ یہ تعلقات چھوڑے اور اس حال میں مر گیا تو آگ میں داخل ہو گا“ (ابوداؤد) جب کہ یہاں تو حالت یہ ہیکہ برسوں بیت جاتے ہیں، چپقلش اور رنجشیں سینوں میں پلتی عنادوبغض کا روپ دھار لیتی ہیں اور کبھی ہمارے من میں یہ خواہش پیدا نہیں ہوتی کہ نبی صل اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر عمل کر کے پہل کر لیں۔
سالوں بیت جاتے ہیں، انا بھیانک شکل میں دُوریاں بڑھاتی رہتی ہے۔ حتی کہ تعلقات بالکل ختم ہو کر رہ جاتے ہیں۔
ابو خراش اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے اپنے بھائی سے ایک سال ناراضی رکھی، یہ اُس کا خون بہانے کے مترادف ہے۔(الادب المفرد) ہم نمازیں پڑھتے ہیں۔نیکیاں کیے جاتے ہیں اور مومن ہونے کے دعوے دار بھی ہیں جب کہ نبی مکرم صلی اللّہ علیہ وسلّم کا فرمان ہے کہ لوگوں کے نامہ ء اعمال ہر ہفتے دو مرتبہ پیر اور جمعرات کے دن اللہ کے ہاں پیش کیے جاتے ہیں تو ہر مومن بندے کو بخش دیا جاتا ہے سوائے اس شخص کے جس کے درمیان اور اُس کے بھائی کے درمیان دشمنی اور ناراضی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کو چھوڑو یہاں تک کہ یہ صلح کر لیں۔
(مسلم 1988)
نبی مکرم صلی اللّہ علیہ وسلّم نے اس شخص کو بھی جنت کی ضمانت دی ہے جو حق پر ہوتے ہوئے بھی ناراضی کو ختم کرنے میں پہل کرتا ہے۔جو حق پر ہوتے ہوئے بھی رنجشوں کو بھلا کر جھگڑے سے باز رہتا ہے۔
اپنی عزت ضرور کیجیے، اپنے مقام اور مرتبے کو بھی ضرور پہچانیے۔بے شک اپنے آپ کو گردِ راہ نہ بننے دیجیے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بے توقیر سوچوں اور بے مایہ خیالات کے اس مجموعے، جس کا نام انا رکھ دیا گیا ہے، کے خول سے بھی باہر تشریف لے آئیے۔
یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رکھیے کہ اس نام نہاد انا کے مہیب سناٹوں اور گرم تپتے صحراؤں میں آبلہ پائی کرنے سے چاہتیں کبھی نہیں ملا کرتیں۔اِس کھوکھلی انا کے کے دشت میں بھٹکنے سے رفعتیں کبھی قدموں کو نہیں چھوا کرتیں۔ایسا کرنے سے تو لوگ ہمیشہ کے لیے دُور ہو جایا کرتے ہیں۔اگر آپ کے سینے میں حساس دل دھڑکتا ہے تو کبھی خلوت نشیں ہو کر اُس عظمت کو محسوس کیجیے جو اس انا کو کچل ڈالنے سے ملتی ہے۔
آپ غور کیجیے اس کرداروعمل کی رفعت پر جو ایسے باطل خیالات کو روند ڈالنے سے حاصل ہوتی ہے۔اگر آپ نبی صل اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو اس جھوٹی انا کے جوہڑ سے باہر نکل کر نبی مکرم صلی اللّہ علیہ وسلّم کی محبت کے سمندر میں غوطہ زن ہو جائیے اور اگر آپ سے کوئی روٹھا ہے تو اسے فوراً منا لیجیے۔انا کو اپنے اوپر غالب کریں گے تو پھر محبت شکست کھا جائے گی اور جدائی جیت جائے۔
انا کی جنگ میں اکثر جدائی جیت جاتی ہے
وفا کی لاج پر اُس کو منا لیتے تو اچھا تھا

Browse More Urdu Literature Articles