Bachpan K Din Bhi Kiya - Qist 1 - Article No. 2382

Bachpan K Din Bhi Kiya - Qist 1

بچپن کے دن بھی کیا دن تھے۔ قسط نمبر1 - تحریر نمبر 2382

کامران جسے پیار میں سب کامی کہتے تھے میرا لنگوٹیا دوست تھا. اسکی پیدائش پاکستان آزاد ھونے کے چند ماہ ھوئی تھی. اسکا خاندان پڑھا لکھا تھا

Arif Chishti عارف چشتی پیر 29 جون 2020

کامران جسے پیار میں سب کامی کہتے تھے میرا لنگوٹیا دوست تھا. اسکی پیدائش پاکستان آزاد ھونے کے چند ماہ ھوئی تھی. اسکا خاندان پڑھا لکھا تھا انکی برادری کے دیگر خاندان امرتسر، گورداسپور اور مشرقی پنجاب کے دیگر علاقوں سے ھجرت کرکے لاھور، گجرانوالا، گجرات، ڈسکہ، سیالکوٹ، پتوکی، حافظ آباد اور کراچی منتقل ھو چکے تھے. اس سے دوستی تیسری کلاس میں داخلہ کے بعد ھوئی تھی.

وہ کافی ذھین اور ھونہار طالبعلم تھا. صرف اسکے والد آزادی سے پہلے لاھور کسی سرکاری محکمے میں ھیڈکلرک تھے. اسکی پھوپھیاں بھی لڑکیوں کے سرکاری سکول میں تعلیم حاصل کررھی تھی. قرآن مجید کی تعلیم اس نے اپنی والدہ سے حاصل کی تھی.
سکول داخلہ کے شروع شروع میں، میں بہت روتا تھا ادھر دادی اماں چھوڑ کر آتی تھیں، ادھر دوسرے راستے سے میں گھر روتا دھوتا واپس آ جاتا تھا اور والد صاحب سے پٹائی ھوتی تھی.
لیکن جب کامران سے دوستی ھوگئی پڑھائی میں دل لگ گیا تھا. ھمارا گھر، سکول اور اسکے گھر کے راستے میں تھا اسلئے وہ گلے میں ٹاٹ کا بستہ ڈالے، ایک ھاتھ میں تختی اور دوسرے میں نیلی سیاھی کی دوات پکڑے میرے ھاں آجاتا اور ھم دونوں مل کر سکول جاتے تھے. سب سے پہلے گراؤنڈ میں اسمبلی ھوتی تھی ایک سینیئر طالب علم تلاوت کرتا تھا بعد میں، نظم "لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری" کورس کی شکل میں طربیہ انداز میں پڑھی جاتی تھی اور پھر قطار اندر قطار تمام کلاسوں کے طلبہ اپنی اپنی کلاسوں میں چلے جاتے تھے.
ریسس میں ھم گھر سے جو پیسے ملتے تھے اسکی گڑ کی مچھلیاں، اخبار کی پڑیوں میں رکھا میٹھا چورن یا شیشے کی نلکیوں میں پیک میٹھی رنگین سونف آپس میں مل بانٹ کر کھا لیا کرتے تھے. دوستی پکی ھوتی جا رھی تھی. پہلے پانچ ھونہار اور ذھین محنتی طلبہ میں ھم دونوں بھی شامل تھے کیونکہ سکول کے بعد ھم دونوں کے والدین سکول سے دیئے گئیے کام مکمل کرواتے تھے اور زبانی سبق بھی یاد کرواتے تھے.
لکھائی میں خوش خطی کے لئے الگ پریکٹس کرنا پڑتی تھی. کامران پہاڑوں (ٹیبلز) کا ماسٹر تھا. ایک سے دس تک ٹیبلز میں ھم دونوں کافی ازبر ھوچکے تھے، لیکن اس سے کوئی بھی ٹیبل پوچھتے فورآ بتا دیتا تھا. مجھے کچھ دیر سوچنا پڑتا تھا. میں میتھ(حساب) میں بہت ذھین تھا اور میرے سوالوں کے جوابات بالکل درست ھوتے تھے اور سب سے پہلے جواب بھی میں ھی دیتا تھا.
ھم نے تیسری کلاس کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کر لیا تھا . اپنے استاد صادق صاحب کے گلے ھار بھی ڈالے تھے. سرکاری سکول ھونے کی وجہ سے نہ ھی فیس اور نہ ھی چندہ لیا جاتا تھا سارا انتظام کنٹونمنٹ بورڈ کرتا تھا .درجہ چہارم (چوتھی کلاس) میں ایک آنہ ماھانہ چندہ لاگو ھوگیا تھا. اس کلاس کے استاد جناب کھوکھر صاحب بہت محنت کرواتے تھے. چار پانچ طالب علم اوباش تھے اور استاد کی غیر موجودگی میں بہت شور مچاتے تھے اور مختلف قسم کی شرارتیں اور بیہودہ ڈائیلاگ بولتے تھے.
انکے شور کی وجہ سے سب کو مار پڑتی تھی. اب ٹاٹ کی بجائے کلاس کمرہ میں کرسیوں پر بیٹھ کر ھوتی تھی، اسلئے ساری کلاس کو پندرہ منٹ کے لئے سزا کے طور پر کھڑا کر دیا جاتا تھا. اوباش طلبہ کو مرغا بھی بنا دیا جاتا تھا، مگر ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا. اس کلاس میں بھی، میں اور کامران پہلے پانچ ذھین محنتی طلبہ میں شمار ھوتے تھے. سب سے اگلی قطار کی سیٹوں پر بیٹھتے تھے.
اس لئے سزا سے استثنا بھی مل جاتی تھی. لیکن کھوکھر صاحب پڑھائی میں غفلت پر بہت دھنائی کرتے تھے. ھر تیسرے مہینے ٹیسٹ کی پروگریس رپورٹ والدین کو بھجواتے تھے تاکہ والدین متنبہ رھیں.
اب کامران کا آنا جانا اور میرا آنا جانا، میل ملاپ ایک دوسرے کے گھروں تک بھی کافی ھو گیا. ایک ذھین دوست ظفر بھی ھمارا دوست بن چکا تھا وہ بھی میتھ کا کیڑا تھا اور انتہائی خاموش طبعہ اور زیرک سوچ کا حامل تھا.
سکول کی مغربی طرف ریلوے لائینوں سے پار ملحقہ آبادی میں رھتا تھا. کامران کے گھر کے قریب ایک بہت بڑا پلاٹ تھا جسے غلام احمد پارک المعروف فروٹ منڈی کہا جاتا تھا. جب بھی میں والد صاحب اور چھوٹے بھائیوں کے ساتھ خربوزے، تربوز، آم، مالٹے، سنگترے، کیلے اور سیب لینے جاتا تو کامران کو ساتھ لے لیتا تھا. خربوزے دو پیسے سیر یا ایک آنہ دھڑی(ڈھائی سیر) ملتے تھے.
بیس سیر سے کم نہیں خریدتے تھے، جو ھم دو بڑے تھیلوں میں ڈال کر لاتے تھے کامران بھی تعاون کرتا تھا. دودھ آٹھ آنے سیر، دنبے چھترے کا(چھوٹا) گوشت ڈھائی روپے سیر اور گائے کا(بڑا) گوشت دس آنے سیر ملتا تھا. چنے کی دال آٹھ آنے سیر تھی جو ھم اقبال پرچون والے سے لاتے تھے. اسی طرح آپ سبزیوں، دیگر دالوں اور بیکری کی اشیاء کا اندازہ لگا لیں. سبزی لینے جاتے تو مولی، ٹماٹر، پتوں والے پیاز، سبز مرچیں مفت ملا کرتی تھیں.
گاجریں ھم خود ھی اٹھا کر کھا لیا کرتے تھے. یہ 1956 کا دور تھا. یقین کریں اسی دور میں ایک افواہ اڑی کہ پیتل کے ایک پیسہ کا سکہ جو 1955 میں جاری ھوا تھا اس میں سونے کی کی کچھ مقدار غلطی سے شامل ھوگیی تھی. اس سال کے سارے سکے مارکیٹ سے غائب ھو گئے تھے. ھم سب دوست جب بھی پیسہ ملتا خرچ کرنے سے پہلے اسکا سال پڑھتے. مجھے اچانک ایک سکہ مل گیا. میں دیگر دوستوں کے ھمراہ افضل گولڈ سمتھ کے مالک کے پاس گیا اس نے وہ سکہ ایک پتھر پر رگڑا اور پانچ روپے میرے حوالے کر دیئے.
محلے میں دھوم پڑ گئی. اب تو ھر کوئی اس چکر میں پڑ گیا. چار روپے والد صاحب نے لے کر میرے لکڑی کے غلہ میں ڈال دیئے اور ایک روپیہ مجھے دے دیا. بس اب تو میرے اور کامران کے مزے ھو گئیے. اب تو چینی کی بنی میٹھی مچھلیاں اور تتلیاں اور پھر نمکین چنے خوب کھانے شروع کر دئیے تھے.
کامران کو سکول یونیفارم کے علاوہ رنگین پھولوں والی شرٹ اور نیکر پہننے کا بہت شوق تھا.
لامحالہ میں بھی پیچھے نہ رھتا تھا. اس طرح یہ جوڑی پروان چڑھتی رھی. دونوں ٹھگنے قد کے تھے اور رنگ بھی خوبصورت تھا. کامران زیادہ خوبصورت تھا.میری ناز برادریاں دادی اماں، چچا اور پھوپھیاں اٹھاتی تھی اور بہت دیکھ بھال کرتی تھیں. کامران کے تین بھائی تھے یہ چھوٹا تھا. اسلئے وہ بہت چہیتا تھا.
سکول کے مغرب میں شہتوت اور امرودوں کے، جنوب میں دیسی بیروں کے، جنوب مشرقی چار دیواری میں کچنار کے درجنوں درخت تھے.
مغربی حصے کو باربڈ وائیر سے محفوظ کیا گیا تھا. ادھر ایک بڑی گراونڈ تھی جس میں طلباء ریسس کے وقت مختلف کھیل کھیلتے تھے ادھر ھی اسمبلی ھوتی تھی اور ڈرل پریڈ پریکٹس بھی یہاں ھوتی تھی. مشرقی حصے کو مضبوط دیوار سے محفوظ گیا تھا اور مین گیٹ بھی اسی دیوار میں لگایا گیا اور ایک چھوٹا کمرہ بھی بنایا گیا تھا جہاں طلبہ سے ملنے والے والدین اقربہ آکر چوکیدار سے رابطہ کرتے تھے.
ڈرل ٹیم میں ھم دونوں منتخب ھوگیے تھے. جب بھی کوئی بیرونی ممالک سے پاکستان دورہ پر آتا ھم ھارس شو میں ڈرل کا مظاہرہ کرتے تھے. یونیفارم سکول کی طرف سے ملتی تھیں. کامران درخت پر نہیں چڑھ سکتا تھا وہ زمین پر گرے پھل ھی اکٹھے کرتا تھا میں درختوں پر چڑھ جاتا تھا. اور ٹہنیاں ھلا ھلا شہتوت، امرود اور بیر نیچے گراتا تھا. یہ کاروائی ریسس میں ھوتی تھی.چوتھی کلاس میں ھم تینوں دوست اچھے نمبروں سے پاس ھوگیے اور پانچویں جماعت میں جناب سب سے محترم ویل ڈسپلنڈ استاد عابد صاحب کلاس اے میں ھمارا انتخاب ھو گیا.
یہ غالباً 1957-58 کی بات ھے.
اردو، میتھ، سائنس کے مضامین اب بہت مشکل معلوم ھونے لگے تھے. اردو کے الفاظ انتہائی ثقیل تھے رٹے ھی نہ جاتے تھے. میتھ میں زیادہ تر زمین کی پیمائش اور ایک سے بیس تک ٹیبلز زبانی یاد کرنا تھے. ٹیبلز سے میری جان جاتی تھی کامران اور ظفر بآسانی یاد کر لیا کرتے تھے. میں زمینوں کے حساب کتاب میں ان سے آگے تھا کیونکہ میرے والد صاحب الجبرا اور حساب کے ماسٹر تھے اور مار مار ذھن نشین کرواتے ورنہ چھڑی سے پٹائی ھوتی تھی.
میں سائینس میں بھی لائق تھا اور بڑی بڑی شیٹوں پر رنگ برنگے پنسل ورک سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آکسیجن بنانے کی و دیگر ڈرائینگز سکول میں جمع کرواتا تھا جو ھماری کلاس روم کی دیواروں کی زینت بنتی تھیں.
کامران اور ظفر مٹی کے بنے کھلونے یا پھل پینٹ کر لاتے تھے، جو بہت ھی خوبصورت ھوتے تھے. ھر ششماھی پر ھماری حوصلہ افزائی کے لئے مختلف انعامات دئیے جاتے. اسی سال پاکستان کو "اسلامی جمہوریہ پاکستان" قرار دیا گیا. سکول کی فرنٹ مین چھت پر اساتذہ سے مل کر میزوں پر کیل لگا کر رات کو سرسوں کے چراغ جلائیے گیے. دور سے صاف پڑھا جا رھا تھا "اسلامی جمہوریہ پاکستان" آجکل جو چشن منانے کے لیے لائٹنگ کی جاتی ھے اسکا تصور ھی نہ تھا.ھماری محنت رنگ لائی اور ھم تینوں بورڈ کے وظیفہ کے امتحان کے لیے منتخب کر لیے گئے.
اب تو دیر تک پڑھائی کرنا پڑھتی تھی. لیکن استاد محترم جناب عابد صاحب ھم پر بہت محنت کر رھے تھے. انہیں دنوں WHO کی طرف سے خشک دودھ بڑے بڑے ڈرموں میں گرم کر کے طلبہ کو پلایا جانے لگا اور ساتھ ایک ڈبہ گھر لے جانے کو ملنا شروع ھوگیا تھا. عام زندگی میں بناسپتی گھی عوام کو فری تقسیم کرنے کے سٹال لگ گیے تھے. پہلے پہل تو لوگوں نے نالیوں میں بہانا شروع کر دیا تھا کیونکہ دیسی گھی استعمال کرنے والوں کو اس میں گندھی بدبو محسوس ھوتی تھی.
لیکن بعض گھرانے چوری چھپے استعمال کر لیتے تھے. بعد میں خشک دودھ اور بناسپتی گھی پاکستانی قوم کی جڑوں میں بیٹھ گیا اور طرح طرح کی بیماریاں پھیلنا شروع ھو گئیں.ھم تینوں دوست بورڈ کے امتحان اور بعد میں سکول کے امتحان میں اچھے نمبروں سے کامیاب ھو گئے. اور چھٹی کلاس میں داخلہ کی تیاریاں شروع کر دیں. (جاری ہے)�

(جاری ہے)

Browse More Urdu Literature Articles