Bachpan K Din Bhi Kiya - Qist 5 - Article No. 2391

Bachpan K Din Bhi Kiya - Qist 5

بچپن کے دن بھی کیا دن تھے ۔ قسط نمبر 5 - تحریر نمبر 2391

سکول کی سالانہ گیمز کا انعقاد بڑے اھتمام سے ھوتا تھا. نویں، دسویں جماعتوں کے طلبہ فٹ بال، والی بال ھاکی اور کرکٹ میں حصہ لیتے تھے. میں نے منہ میں چمچ ڈال کر اس میں آلوچہ رکھ کر ریس میں حصہ لیا.

Arif Chishti عارف چشتی ہفتہ 11 جولائی 2020

سکول کی سالانہ گیمز کا انعقاد بڑے اھتمام سے ھوتا تھا. نویں، دسویں جماعتوں کے طلبہ فٹ بال، والی بال ھاکی اور کرکٹ میں حصہ لیتے تھے. میں نے منہ میں چمچ ڈال کر اس میں آلوچہ رکھ کر ریس میں حصہ لیا. یہ ریس بہت ہی احتیاط سے ھوتی تھی، ایک تو بھاگنا ھوتا ھے پھر دھیان یہ ھوتا ھے کہ آلوچہ چمچ میں سے گر نہ جائے، میری اس ریس میں تیسری پوزیشن آئی آدھے سے زیادہ طالبہ تو ویسے آلوچہ گرنے سے ریس سے باھر ھو گئے تھے.
سو گز ریس میں، میں دوسرے نمبر پر رھا تھا. دو طلبہ کی ایک ایک ٹانگ باندھ والی ریس میں ناکامی ھوئی، کیونکہ اس کی میں نے پریکٹس ہی نہیں کی تھی. بوری کمر تک بوری بند بھاگنے کی گیم میں حصہ ہی نہ لیا تھا، کیونکہ میرا قد اس وقت بہت چھوٹا تھا.

(جاری ہے)

دیگر گیمز دیکھ کر بہت خوشی ھوتی تھی اور نعرے لگا کر کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھاتے تھے. تین دن تک گیمز جاری رھتی تھی پھر پڑھائی شروع ھو جاتی تھی.
گھر میں جب بھی کوئی بیمار ھو جاتا تو چچا صاحب کے دوست ڈاکٹر غلام محمد چشتی، جنکا کلینک جامعہ مسجد دھلی روڈ سے ملحق تھا، سے لاتے تھے.

بس ایک شیشی میں کچھ کڑوا کدیلس مکسچر اور کچھ گولیاں پیس کر دو دن کی پڑیاں تین وقت کھانے کے بعد افاقہ ھو جاتا تھا. انکے کلینک پر رش بہت ھوتا تھا. اگر چار دن تک افاقہ نہ ھوتا تو پھر انجکشن لگا دیتے. بچوں کی بیماریوں کے سپیشلسٹ تھے اور انکی ادویات ھم اپنے عزیزوں کو دیگر علاقوں میں بھی بھیجتے تھے. وہ ھمارے بہت عظیم محسن تھے. عموماً علاقے کے لوگ ھمیں انکا عزیز سمجھتے تھے.
کیونکہ انکی فیملی کے ھماری فیملی کے ساتھ کافی گہرے گھریلو روابط ھو گیے تھے. انکا بڑا بیٹا ضیاء میرا ھم عصر تھا اور چھوٹا بیٹا میرے چھوٹے بھائی کا کلاس فیلو تھا.
اسکے علاوہ والد صاحب کو سرکاری طور پر آرمی کے سویلین ھسپتال میں بھی میڈیکل کی سہولت میسر تھی جو ضلع کچہری لاھور کینٹ سے کچھ فاصلے پر واقع تھا. ان دنوں سلفا ڈرگز سے زیادہ علاج ھوتا تھا، سلفا ڈائیزین، سلفا گوناڈین اور مختلف مکسچرز اور مرکری کروم ہی زیادہ دی جاتی تھیں اور صحتیابی ھو جاتی تھی.
گھر سے مریض کو لے جانے میں بہت دقت ھوتی تھی کندھوں یا سائیکل کے کیرئیر پر اٹھا کر مریض کو لے جانا پڑتا تھا اور پھر وقت کی پابندی کو ملحوظ خاطر رکھنا بھی بہت ضروری ھوتا تھا. جلدی امراض کے لئے ایک پیسٹ دیتے تھے جس سے افاقہ ھو جاتا تھا. ویسے اسپرو ٹبلیٹ متعارف ھو رہی تھی اسلئے کئی لوگوں نے اس کا استعمال از خود کرنا شروع کر دیا تھا. پھنسی پھوڑوں کے علاج اور لڑکوں کے ختنے کروانے کے لئے جراح مشتاق کی خدمات لی جاتی تھیں.
حیضہ و دیگر موسمی و وبائی امراض سے بچاؤ کے پنبیری اور نیڈل والی انجکشنز کینٹ بورڈ کی میڈیکل ٹیمیں لگاتی تھیں. محمود احمد گھمن ایڈووکیٹ صاحب کے بیٹوں شوکت جو میرا کلاس فیلو اور طلعت جو چھوٹا تھا، کے گھر عموماً لڈو یا کیرم بورڈ کھیلنے جاتا تھا. بہت ہی تعلیم یافتہ اور شریف فیملی تھی. انکا منشی طفیل پانچ وقت کا نمازی تھا اور مسجد کی انتظامیہ کا ممبر ھونے کے ناطے والد صاحب سے کافی تعاون کرتا تھا.
جب ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کا الیکشن کروایا تو محمود گھمن صاحب کو بی ڈی ممبر کے طور پر جتوانے میں کافی کردار ادا کیا تھا، اسلئے وہ مجھے اپنے بچوں کی طرح سلوک کرتے تھے. بعد میں شوکت اور طلعت آرمی میں سلیکٹ ھو گئے تھے.
دو کرداروں کا لازمی ذکر ضروریھے. ایک سردار تندور والا اور دوسری چنے بھوننے والی بھٹی کی ماسی مہراں. دونوں ہی گلی سے ملحق گھاس منڈی میں کام کرتے تھے.
گوندھے آٹے کی کنالی و چنگیر، سردار کے تندور پر لائن رکھ کر مٹی کے بنے لٹووں سے کھیلنے میں مصروف ھو جاتے تھے، شرطیں لگا کر جیتتے بھی تھے اور ھارتے بھی تھے. لٹو ایک اور دو پیسے میں مل جاتا تھا. لکڑی کے لٹو بھی ھوتے تھے لیکن بہت کم بچے خریدتے تھے. جیسے ہی سردار کی آواز آتی آٹے کا ایک پیڑا اسے دیکر گن گن کر روٹیاں لگواتے تھے. پھر کنالی اور چنگیر سر پر رکھ کر گھر کی راہ لیتے تھے.
کبھی کبھی مسی روٹیاں، آٹے پر بیسن کا مصالحہ دار تیار کردہ پیسٹ لگا کر روٹی تندور میں لگواتے تھے پھر دیسی گھی لگا پوری فیملی کے ساتھ مل کر کھاتے تھے، بعد میں دودھ کی لسی پیتے تھے. جب دوسرے بہن بھائی بڑے ھویے تو اس ڈیوٹی کے بوجھ میں بھی کمی آگئی ورنہ دادی اماں خود یہ ڈیوٹی ادا کرتی تھیں.ھمارے گھر کے بائیں ھاتھ میں واقع گھر میں ایک نئی اردو سپیکنگ فیملی کرایہ دار آگئی تھی.
انکے مرد اس وقت ماسٹر ڈگری ھولڈرز تھے، ایک انگلش کے پروفیسر اور ایک محکمہ موسمیات میں اعلٰی عہدے پر فائز تھے. خواتین کی سربراہ نانی نصیبن تھیں. اسکی ایک شادی شدہ اور تین کنواری بیٹیاں تھیں. تین بیٹے تھے ایک کسی عزیز کو دے دیا تھا. شادی شدہ بیٹی میری والدہ کی عمر تھی، اسلئے جلد ہی دوستی ھو گئی اور ان کے اکلوتے سب سے بڑے بیٹے فضل سے میری بھی دوستی ھوگئی تھی.
اسکا بایاں بازو پولیو وجہ سے بہت پتلا ھو چکا وہ صرف دائیں بازوں سے ہی سب کام کرتا تھا. انکا گھر چار منزلہ تھا اسلئے پتنگ بازی وہیں کرتے تھے، منڈھیر پانچ پانچ فٹ اونچے تھے اسلئے کسی کو کوئی اعتراض نہ ھوتا تھا. جب بھی کسی کام کے لیے جاتے تھے ایک دوسرے کو آواز دیکر بلا لیتے تھے. کئی لوگ اس غلط فہمی کا تھے کہ ھم دونوں بھائی ھیں، لیکن چشتی خاندان سے علاقے کی اکثریت وافق تھی، اسلئے یہ ہی باور کرتے تھے کہ دونوں ھمراز لنگوٹیے ھیں، اس میں شک بھی نہیں.
لیکن ایک بدقسمتی رہی کہ وہ اکلوتا لاڈلہ ھونے کی وجہ سے تعلیم میں دلچسپی نہیں لیتا تھا.
اس دور کا ایک تاریک پہلو یہ تھا کہ آمدن کم ھونے اور بچوں کی افزائش کی وجہ سے گھریلو میاں بیویوں کے جھگڑے عام تھے. خاوند اپنی بیویوں کو جسمانی مار سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے. دائیں گھر کے ھمسایوں میں ایک صاحب اتنے غصیلے تھے وہ بیوی کو اتنا مارتے تھے کی مار پیٹ کے نشان سے جسم میں زخم ھو جاتے تھے.
پچھواڑے میں لال دین کا بھی یہی حال تھا، سب سے زیادہ مار کٹائی کی آوازیں اسکے گھر سے آتی تھیں. دادی اماں بیچاری صلح صفائی ہی کرواتی رھتی تھیں لیکن بےسود، اسکے سارے ہی بیٹے اس مار پٹائی سے پریشان ھو کر ذھنی مریض اور اکھڑ بن چکے تھے، لیکن تعلیم میں اپنے طور پر بہت دلچسپی لیکر آگے بڑھ رھے تھے. اسکے ساتھ اومنی بس سروس کا ڈرائیور بھی نیک سیرت بیوی کو بہت مارتا تھا.
آٹھ سے ایک درجن تک تو بچے میں نے خود مشاہدہ کیے تھے. سامنے بلڈنگ والی بانو کے سولہ بچے پیدا ھویے تھے. اسکے ھاں ھر دفعہ جڑواں بچے پیدا ھوتے تھے لیکن ایک بچہ ہی زندہ بچتا تھا. پچھواڑے میں چراغ اور عنایتاں کے ھاں ساس بہو کے جھگڑے ہی ختم نہ ھوتے تھے. نندیں بھی منفی رول ادا کرتی تھیں. بڑے چمچے، لکڑی کے بیلنے اور ڈوئیون کا آزادانہ استعمال ھوتا تھا، سر پھٹ جاتے تھے، غش پڑ جاتے تھے، مرھم پٹی ھوتی تھی.
شام کو مردوں کی بیٹھک ھوتی یا تو صلح ھو جاتی یا پھر مار پیٹ شروع ھو جاتی. یہ روزانہ کا معمور تھا اسلئے محلے دار دلچسپی نہیں لیتے تھے. ایک اور بہت دلچسپ خاندان تھا جسکو ھم شرارتی پڑھے لکھے دوستوں نے انڈیا کی فلم کے گانے ' میں بمبئی کا بابو نام میرا انجانا، انگلش دھن میں گائوں ھندوستانی گانا' کی طرذ پر پر یوں گاتے تھے.' میں محلے کا بابو نام میرا جانا، پنجابی دھن میں گائوں کنی، انوری، تانہ' اس میں فیملی کے ممبروں کے نک نیم شامل کر دیے تھے.
سب کے سب افراد ان پڑھ، لڑاکے اور تواھم پرست تھے. بزاز محلے میں ایک چھوٹی سی کریانہ کی دوکان سے گھر چل رھا تھا. محلے میں دو گھر عیسائیوں کے، ایک گھر قادیانیوں کا اور ایک گھر اھل تشیع کا تھا. اھل تشیع کے شادہ بھائی، حفیظ اور انکی اکلوتی بہن اور انکے جگت ماموں مجھ سے بہت پیار کرتے تھے اور میں انکے گھر سے اتنا مانوس ھوگیا تھا کہ کئی دفعہ کھانا انکے گھر ہی کھاتا تھا.
حفیظ میرا ہمعصر تھا اور کھلے ذھن کا مالک تھا، آپ سوچ بھی نہیں سکتے. جب انکی باجی کی شادی ھوئی تو کئی دنوں تک میں روتا رھا. اب تو خواب میں بھی ایسے لوگ نہیں ملتے.ھمارے خاندان میں شادیوں یا کسی خوشی و غمی کے موقع پر پکوان عاشق باورچی اور اس کا والد شتر محلے والے ہی کرتے تھے. تمام سودا سلف اور لوازمات کا بندوبست والد صاحب خود کرکے دیتے تھے ایسا کھانا پکتا تھا مہمان انگلیاں چاٹنے لگتے تھے.اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے اور والد صاحب کی سختگیر ٹیوشن سے درجہ ھفتم (ساتویں کلاس) کا امتحان 1959 میں پاس کر لیا اور حسب معمول آٹھویں کلاس میں داخلہ ھوگیا منصور نے اول پوزیشن حاصل کی تھی دیگر تمام دوست بھی پاس ھو گئے تھے.

دس دن کے بعد پڑھائی کا سلسلہ ھو گیا. جب بھی ملکہ برطانیہ، شہنشاہ ایران و ملکہ فرع دیبا، یا امریکی صدور پاکستان آتے انکے استقبال کے لئے سکول کی استقبالیہ ٹیم کا میں ایک حصہ تھا. کبھی سکول والے مال روڈ کبھی کوہ نور بلڈنگ لاھور کینٹ گلوب سینما سے چند قدم دور، کبھی عین پرانے ایرپورٹ کی مین روڈ پر لے جا کر دونوں ممالک کی جھنڈیاں ھاتھوں میں پکڑا کر قطار اندر قطار کھڑا کر دیتے تھے. جیسے ہی غیر ملکی سربراہ قریب سے گزرتے تو نعروں سے انکا استقبال بھی کرتے تھے. بعد میں اگر فورٹرس سٹیڈیم میں کوئی تقریب ھوتی تو پی ٹی شو کا مظاہرہ کرتے تھے.(جاری ہے)

Browse More Urdu Literature Articles