Bachpan K Din Bhi Kiya - Qist 6 - Article No. 2392

Bachpan K Din Bhi Kiya - Qist 6

بچپن کے دن بھی کیا دن تھے ۔ قسط نمبر 6 - تحریر نمبر 2392

آٹھویں کلاس کے سہ ماہی ٹیسٹوں میں انگلش میں، میں فیل ھوگیا تھا اور ریاضی اور الجبرا میں نمبر کم آئے تھے. والد صاحب کے ڈر سے باقی حل شدہ پرچے انکو دکھا دیئے تھے

Arif Chishti عارف چشتی پیر 13 جولائی 2020

آٹھویں کلاس کے سہ ماہی ٹیسٹوں میں انگلش میں، میں فیل ھوگیا تھا اور ریاضی اور الجبرا میں نمبر کم آئے تھے. والد صاحب کے ڈر سے باقی حل شدہ پرچے انکو دکھا دیئے تھے. مار کے ڈر و خوف سے انگلش اور ریاضی کے پرچے انکو نہیں دکھا رھا تھا. بس ٹال مٹول سے کام لیتا رھا. انگلش کا پرچہ پھاڑ کر کھڑکی سے باھر چھجے پر پھینک دیا. کافی دنوں کی ٹال مٹول کے بعد والد صاحب کو سکول سے حقیقت معلوم ھو گئی کوٹ صاف کرنے والے برش سے وہ مار پڑی کے بازو اپنے جوڑ سے اتر گیا اور پہلوان سے مالش پٹی کروانا پڑ گئی.
اب تمام دیگر کھیل کود اور سرگرمیاں بند کردی گئیں، بس دن رات پڑھائی رہ گئی.
ھندوستان سے ھجرت کے بعد برادری کے دیگر خاندان مختلف علاقوں میں شفٹ ھو گئے تھے، جن میں چیدہ چیدہ نام یوں ھیں. دھدیال میں دادی کے بھائی بابا قدرت اللہ اور رمضان صاحبان، تاندلیاںوالا مقیم ھو گئے میری چچا منیر سے دوستی زیادہ تھی، کیونکہ عمر میں زیادہ فرق نہ تھا.
چچا غنی فالحال ھمارے ڈرائینگ روم میں ھی درزی کا کام کرتے تھے، انتہائی محبت کے پیکر تھے. سگے چچا صاحب کے سسرال بھی تاندلیاںوالا میں مقیم تھے. سسر کا نام اسحٰق تھا. تین سالے تھے بڑے ریاض صاحب، منظور صاحب و امداد صاحب. پیار محبت ماموں امداد صاحب سے ھی زیادہ رھی. ریاض صاحب و امداد صاحب کراچی چلے گئے تھے، کیونکہ انکو وھاں ایف بی آئی میں ملازمت مل گئی تھی.
بابا قدرت اللہ کے خاندان ذرا مختلف قسم کا تھا. سوائے انکے، کسی اور سے کوئی خاص تعلق نہیں رھا بعد میں وہ کراچی منتقل ھو گئے تھے. والد صاحب کے ماموں بابا مصطفیٰ جنکے بیٹے اسلم، مشتاق اور جان تھے وہ کڑتل گوجرہ میں مقیم تھے. بہت پیار محبت کرتے تھے اور سال میں ایک دو دفعہ ملنے آ جایا کرتے تھے. خوب رونق لگتی تھی اور قصے کہانیوں کا دور چلتا تھا.
چچا مشتاق بہت ھی منفرد شخصیت کے مالک تھے اور مجھ تو بہت ھی محبت کرتے تھے.
والد صاحب کے کزنز میں تایا شفیع صاحب کو بہت اعلیٰ مقام حاصل تھا، وہ ھر خوشی و غمی میں فورآ شامل ھوتے تھے انکے دو بیٹے، موج دین اور سعید گونگا تھے اور ایک بیٹی بھی تھی وہ بھی گوجرہ میں ھی مقیم تھے. کریانہ کی دوکان سے انکی گزر بسر ھوتی تھی. تایا شفیع صاحب عقلمند، دانا اور منکسرالمزاج انسان تھے اور بہت کم گو تھے.والد صاحب کے رشتے کے ماموں یعقوب صاحب پتوکی رھتے تھے بعد میں پکی ٹھٹی سمن آباد شفٹ ھوگئے تھے.
ان سے کوئی خاص تعلقات نہ تھے البتہ انکا بیٹا اسلم اور افضل کبھی کبھی ملنے آجاتے تھے. انکی بیٹی ثریا کا اماں حاقاں کے بیٹے منظور سے نکاح ھوا تھا، ایک بیٹی کا چچا طفیل اور سب سے چھوٹی بیٹی کا مالک صاحب کے بیٹے عارف سے دادی اماں نے نکاح کروانے میں خاص کردار ادا کیا تھا. دادی اماں کی ایک کزن اماں حاقآن موھنی روڈ رھتی تھیں، انتہائی چست چالاک، جب بھی بولتیں پورے محلے کو انکی آمد کا پتا چل جاتا تھا.
جسمانی ساخت بھی بھاری بھرکم تھی. انکے بیٹے چچا منظور، مظفر اور ظفر تھے. منظور صاحب تو ٹیلی فون کے محمکے میں ملازم تھے اور والد صاحب کے کلاس فیلو رھے تھے. لیکن بہت مغرور تھے،اسلئے تعلقات کم ھی رھے. وہ کراچی منتقل ھو گئے تھے. چچا مظفر صاحب انتہائی شریف انسان تھے، انکی شادی بابا قائم دین کی بیٹی اشرف سے لاھور میں ھوئی تھی.
والد صاحب کے رشتہ کے ماموں دادا جی غنی صاحب بزاز محلہ میں مقیم تھے، انکا ایک بیٹا بشیر اور تین بیٹیاں تھیں.
میں اکثر دادی اماں کے ساتھ انکے ھاں کھیلنے اور کہانیاں سننے جاتا تھا اور بچوں کے رسالے لے آیا کرتا تھا. ویسے سیربین اور شمع دھلی ھر ماہ والد صاحب نے لگوائے ھوئے تھے لیکن بچوں سے معلومات کم ھوتی تھیں.دادی اماں کے رشتے کے ایک کزن اسماعیل صاحب تھے وہ ریلوے میں ملازم تھے. انکی بیوی خیجی دونوں ھی بڑی خدا داد صلاحیتوں کے پیکر تھے. شاید ھی ان جیسا محبت اور ملنسار گھرانہ دیکھنے میں ملے.
رھتے وہ کراچی تھے، دل لاھور میں ھوتا تھا. ھر سال انکو ریلوے سے پاس مل جاتے تھے اور وہ بیٹے بیٹیوں کے ھمراہ دو ماہ لاھور گزارتے تھے. انکی چھ بیٹیاں اور دو بیٹے تھے. بڑا اللہ رکھا چھوٹا اقبال. اقبال میرا ھم عمر تھا اور بہت ذھین اور شریف تھا، اسلئے اس سے خوب یاری رھی. وہ پرویز اور اللہ دتہ جو ضیاء صاحب کے بیٹے تھے، کے پھوپی زاد بھی تھے.
خوب دھمہ چوکڑی مچتی تھی. گزرا وقت جب یاد کرتا ھوں تو کلیجہ منہہ کو آتا ھے۔

(جاری ہے)

دادی اماں کے عزیزوں میں بابا قائم دین کا نام بہت اھمیت کا حامل ھے، کیونکہ اکثر انکے گھر بھی کافی آنا جانا ھوتا تھا، صرف محبت اور محبت کی وجہ سے. انکے تین بیٹے نواز، محمود اور سعید تھے، دو بیٹیاں تھیں. سعید میرا ھمعصر تھا. نواز سعودی عرب چلا گیا تھا، محمود نے صدر بازار میں کپڑے کے دوکان کھول لی تھی اور بعد میں سعید اے جی آفس میں ملازم ھو گیا تھا.

کافی خوش حال گھرانہ تھا کیونکہ بابا قائم دین ملٹری کی یونیفارمز کی سپلائی کے ٹھیکے لیتے تھے. انکا مکان کینٹ سکول نمبر 1 کے سامنے بہت خطیر رقم خرچ کرکے بنایا گیا تھا. وھیں چھت پر فٹبال اور بیڈمنٹن کھیلتے تھے. بابا قائم دین کی والدہ محترمہ سو سال سے تجاوز کر چکی تھیں پھر بھی باھوش تھیں. چچا صاحب کے پھوپھا سسر رحمت اللہ صاحب اور ان کے چھوٹے بھائی طفیل صاحب خراس محلہ میں رھتے تھے.
انکے ھاں بھی کافی آنا جانا تھا. وہ ھر غم و خوشی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے سوائے سب سے چھوٹے بھائی آاقبال کے جو اکڑ پھوں تھا اور کم ھی ملتا تھا.
ایک اور خاندان کا ذکر لازمی ھے وہ والد صاحب کی سگی چچی فاطمہ کا ھے. انکے خاوند کا انتقال بھی آزادی سے پہلے ھندوستان میں ھی گیا تھا. انکا ایک ھی بیٹا چچا صدیق تھا اور سات بیٹیاں تھیں، جو ایک سے بڑھ کر ایک تھیں، سب سے چھوٹی مجھ سے دو سال بڑی تھی.
وہ کرشن نگر رھتی تھیں جب بھی آتی تھیں جلی کٹی باتیں کرتی تھیں. شاید انکی نیچر میں یہ ھی تھا. مجھ سے تو محبت ھی کرتی تھیں. انکی بیٹیوں کے رشتے بھی زیادہ تر غیروں میں ھوگئے تھے کیونکہ اتنی تیز طرار اور منہہ پھٹ عورتوں سے کون شادی کرتا ھے. آئے دن کسی نہ کسی بیٹی کا اپنے سسرال میں جھگڑا ھو جاتا، جسکو حل کرنے کے لئے دادی اماں اور والد صاحب کو کافی جدوجہد کرنا پڑتی تھی.
بس برادری میں یہ واحد گھرانہ تھا جو لڑائی جھگڑوں میں مشہور تھا. برادری کا کوئی اور رشتہ دار ان سے نہیں ملتے تھے. 1953 میں، میں چچا صاحب کا سربالا بنا پھر دوبارہ چچا صدیق کا سربالا بنا تھا اور گیارہ روپے سلامی ملی تھی، جو اس وقت ایک ریکارڈ تھا.
دھرمپورہ میں چچی صاحبہ کی خالہ عائشہ رھتی تھیں جنکا بیٹا ظہور، چچا غنی کا شاگرد تھا اور کوٹ پینٹ کی سلائی سیکھ رھا تھا.
سیکھ کر وہ سعودی عرب چلا گیا اور چچا غنی صاحب بیڈن روڈ لاھور میں ایک بہت بڑے ٹیلرز ھائوس میں ٹھیکے پر کام کرنے لگ گئے تھے اور ڈرائینگ روم پر میرا قبضہ ھو گیا تھا. چچا صاحب نے کرسیوں اور میز کا بندوبست کر دیا تھا. اسکے علاوہ دھرمپورہ میں دادی اماں کی ایک کزن مین بازار سے ملحق مکان میں رھتی تھیں، انکا بیٹا چچا منور بھی اسی محکمہ میں کام کرتا تھا، جہاں میرے چچا صاحب کام کرتے تھے.
تھے تو پیار محبت کرنے والے لیکن بہت کم ملنسار. یوں سمجھیں جہاں بال بچوں کی شادیوں کا خیال ھوتا ھے رشتہ داری اور محبت کی گہرائی بھی اس وقت اتنی ھی ھوتی تھی. خیر دھدیال میں دادی اماں کے دو کزنز شادباغ لاھور میں مقیم تھے. ایک صوفی حمید صاحب کا گھرانہ اور ایک چچی صاحب کے ماموں فیض الحسن صاحب کا گھرانہ جو زیادہ تر صوفی ازم پر یقین رکھتے تھے، خود بھی پیر تھے اور عرس قوالیوں کا اھتمام بڑھ چڑھ کے کرتے تھے.
صوفی حمید صاحب کا انارکلی لاھور میں درزی خانہ تھا اور بعد میں ایک کپڑے کی دوکان بھی کھول لی تھی. انکا بڑا بیٹا شکور میرا ھم عصر تھا، دوسرا مقصود خشک طبیعت کا مالک تھا، رزاق بھی بہت ملن سار تھا. انکا گھر بہت بڑا تھا اور گھر میں چار امرود کے اور پچھواڑے میں دو انار کے پودے لگے ھوئے تھے. جب بھی امرود کے سیزن میں جانا ھوتا، شکور اور میں درختوں پر چڑھ کر خوب امرود اتارتے ایک درخت کے امرود اندر سے گلابی ھوتے تھے.
صوفی صاحب کی بیوی دادی سرداں ایک انتہائی خوبصورت فرشتہ سیرت خاتون تھیں، میری نظر میں ان جیسی ھنس مکھ سو صفتی خاتون زندگی میں کم ھی ملی ھونگی.
دادا فیض الحسن صاحب کسی فلور ملز میں اکائونٹنٹ تھے انکا بڑا بیٹا امین ایک بنک میں ملازم تھا، اسکے علاوہ یاسین، فرید، شفیق، انوار، اسرار اور تین بہنیں تھیں. بڑے بیٹے اور بڑی بیٹی کے رشتے دادی اماں نے ھی کروائے تھے.
ان کے گھر ھر سال باقاعدہ عرس ھوتا تھا اور خاندانی قوال مبارک علی، فتح علی اور شوکت علی لائیل پور سے لاھور آکے ھفتہ بھر انکے گھر ٹھہرتے تھے. سب سے نالائق نصرت فتح علی ھوتا تھا، بہت ھی موٹا تھا. رات کو لیٹے ھوئے مہمانوں کو بہت تنگ کرتا، لیکن وقت نے اسے پوری دنیا میں شہرت دلانی تھی وہ اپنے آبائو اجداد کو بھی پیچھے چھوڑ گیا. دادا فیض الحسن ھفتہ میں ایک دو دفعہ ضرور گھر کا چکر لگا کر خیریت معلوم کرکے بغیر کچھ پئے چلے جاتے تھے یہ تھی خالص محبت اور خلوص جو اب ناپید ھی ھوتا جا رھا ھے.دن رات کی محنت اور والد صاحب کی انتھک ٹیوشن سے ششماہی میں تمام مضامین اچھے نمبر آئے تھے لیکن منصور ھمیشہ ٹاپ ھی رھتا تھا.
سب سے زیادہ ماسٹر سردار صاحب جنکو میں سب سے زیادہ عزت دیتا ھوں بغیر ٹیوشن فیس لئے گھنٹوں پڑھاتے رھتے تھے، سبق یاد نہ ھوتا تو چھٹی نہیں ملتی تھی تو جناب ایسے ھوتے تھے سرکاری سکولوں کے اساتذہ. ماسٹر سردار صاحب زندہ باد

Browse More Urdu Literature Articles