Bana Kar Faqeero Ka Hum Bhais Ghalib. .. . - Article No. 2026

Bana Kar Faqeero Ka Hum Bhais Ghalib. .. .

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب․․․․ - تحریر نمبر 2026

وہ جو شہرت کے طلبگار نظر آتے ہیں! گروہ سازیوں کا چلن اسی سوچ کی پیداوارہے شہرت کی بھوک زیادہ بڑھ گئی‘شاعرہوں یاادیب‘گلوکارہوں یا اداکار یا پھر صحافی اب فن وغیرہ پیچھے رہ گیا

پیر 22 اپریل 2019

اعتبار ساجد
اب تک کے مشاہدات یہ بتاتے ہیں کہ شہرت کی تمنا تو خیر سب میں ہوتی ہے ۔کم ہو یا زیادہ لیکن ہوتی ضروری ہے پہلے لوگ اس کا اظہار اپنے فن کے زور پر کرتے تھے،چاہے شاعرہوں،ادیب ہوں ،گلوکار ہوں،اداکارہوں یا صحافی ہوں ،اب فن وغیرہ تو پیچھے رہ گیا ہے۔شہرت کی بھوک زیادہ بڑھ گئی ہے ،
انفرادی طور پر تو شہرت عطیہ خداوندی ہوتی ہے ۔
سینکڑوں ہزاروں میں سے کسی ایک کو یا چند ایک کو حاصل ہوتی ہے لیکن اس کے لئے محنت ،ریامنت اور مستقل مزاجی کی شرط بھی لازم ہے مگر لوگوں کے پاس ان”فضولیات“کے لئے وقت نہیں ہے وہ صرف شہرت چاہتے تھے ،انفرادی طور پرتو مل نہیں پاتی لہٰذا وہ گروپ تشکیل دیتے ہیں ۔انجمن سازیاں کرتے ہیں ۔
گروہ بازیاں کرتے ہیں اور بے پناہ شور شرابے کی آڑ میں شہرت کی چھتر چھایا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس میں کوئی شک نہیں کہ عارضی طور پر وہ اپنے مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہو جاتے ہیں مگر دائمی طور پر اپنی ریزہ ریز ہ جمع کردہ شہرت کو برقرار نہیں رکھ پاتے ،لہٰذا نظر سے غائب ہو جاتے ہیں اور ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ لیکن تعجب انگیز بات یہ ہے کہ اب گدھوں کے سر پر بھی سینگ نظر آنے لگے ہیں، پہل یہ بے ضرر ،بے زبان جانورصرف ڈھنچوں ڈھنچوں کرتا تھا۔

بوجی ڈھوتا تھا،یا ر یڑھیاں کھینچتا تھا لیکن جب سے اس کے سینک نکلے ہیں اس نے اپنا بوجھ دوسروں پر لادنا شروع کر دیا ہے ۔ڈھنچوں ڈھنچوں اب بھی کرتا ہے لیکن سُر تبدیل کر دئیے ہیں ۔عقل دشعور سے تب بھی پیدل تھا اب بھی ہے ،البتہ اتنا فرق پڑا ہے کہ اس نے دانشوری کی کھال اوڑھ کر،عیاریوں اور مکاریوں کے گرَ سیکھ لئے ہیں جس گروہ میں جگہ ملتی ہے وہاں جا گھستا ہے ،وہاں پاؤں نہیں جمتے تو کوئی اروباڑہ تلاش کرتا ہے لیکن ہزار کوششوں کے باوجود نہ قسمت جا گتی ہے نہ شہرت حاصل ہوتی ہے نہ عزت حاصل ہوتی ہے ،کہیں نہ کہیں ایکسپوز ہو جاتا ہے ۔

عوام سب سے بڑے نبض شناس اور جوہر شناس ہوتے ہیں ،وہ نام نہاد دانشوروں کی طرح مکاری اور جانبداری سے کم نہیں لیتے،صرف اسی کو درخوراعتنا ء سمجھتے ہیں جو اس قابل ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک دور میں یکایک نمودار ہونے والے آنے والے دنوں میں شہاب ثاقب بن کر زمین پر آگر تے ہیں ،
ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ میاں! اگر کچھ کر سکتے ہوتو کام دکھاؤ ،کام منواؤ،نام کے پیچھے نہ پڑو،نام بھی کام ہی سے ملتا ہے ۔
کام اچھا ہو گا تو یاد رکھا جا ئے گا۔زندگی میں بھلی ،زندگی کے بعد بھی ،کام اچھا نہیں ہو گا تو زندگی ہی میں نیست ونا بود ہو جائے گا لیکن یہ فلسفہ ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئے گا جو نام چاہتے ہیں ،کام دکھانا نہیں چاہتے ،گروہ سازیوں کا چلن اسی سوچ کی پیداوار ہے ۔
آج تک نہیں دیکھا کہ شیر جتھے یا گروہ بنا کر چلتے ہیں ،یہ کام صرف گیڈر یا سگان شہر کرتے ہیں ۔
خواہ ان کا تعلق کسی شہر،کسی کھیت سے ہو۔انہیں خوف ہوتا ہے کہ اکیلے نکلے تو مارے جائیں گے اپنے ہم جنسوں کے ساتھ نکلیں گے تو ہاؤں ہاؤں کرکے بچ نکلنے کے لیے زیادہ مواقع حاصل کرلیں گے اس صورت حال کو دیکھ کر بعض جینوئن لوگ دل گزشتہ ہو کر گوشہ گیر ہو جاتے ہیں ،اس کا سبب سے بڑا فائدہ نان جینوئن لوگوں کوحاصل ہوتا ہے جنہیں کھیلنے کے لئے کھل میدان خالی مل جاتا ہے ۔
وہ اپنی مرضی کا کھیل کھیلتے ہیں اور گوشہ نشین لوگ غالب کی طرف صرف یہ کہتے رہ جاتے ہیں۔
”بنا کر فقیروں کاہم بھیس غالب ،تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں“
وہ بڑے شاعر تھے مہا کوئی تھے۔شعر کے مضمون کے مطابق مصرعہ اولیٰ کی مناسبت سے مصرعہ ثانی میں ”اہل کرم“بکھا،حالانکہ مراد اہل قلم تھی،ان کے دور میں بھی ایک سے ایک گروہ بندار ومجمع باز شاعر موجود تھا مگر آج دنیا کو صرف غالب یاد ہے ۔
مجمع ساز اور گروہ باز ان کے جیتے جی ہی دم توڑ گئے مگر اس دوڑ میں پھر نمودار ہورہے ہیں اور پہلے سے زیادہ شدومد سے شہرت پسندی کی مہم سازی میں ہمہ تن معروف ہیں ۔مگر ہم جانتے ہیں کہ ان کی حیثیت ایک دن کے اخبار سے زیادہ نہیں ہوتی جو صبح کو شوق سے پڑھاجاتا ہے مگر شام تک یہ روٹی باسی ہو جاتی ہے ۔
کیونکہ الیکٹرانک میڈیا اب پرنٹ میڈیا پر غالب آگیا ہے ،لوگ رات کے پرائم ٹائم میں وہ سب کچھ دیکھ چکے ہوتے ہیں جو صبح کو اخبارات کی زینت بنتا ہے لیکن اخبارات وجرائد کی ایک اپنی اہمیت اور افادیت ہے جو کسی دورمیں ختم نہیں ہو سکتی،اگر یہ یورپ اور امریکہ میں تمام الیکٹرانک ایجادات کے باوجود قائم ودائم ہیں تو ہمارے ہاں ختم ہو سکتے ہیں جہاں شرح خواندگی افسوسناک حد تک کم ہے اور لوگوں کو آگہی کے لئے کم از کم اخبارات کی ضرورت تو رہے گی ،اس طرح شہرت پسندوں کا بھی بھلا ہوتا رہے گا!!۔

Browse More Urdu Literature Articles