Be Naam O Nishan - Article No. 2111

Be Naam O Nishan

بے نام و نشاں ۔۔۔تحریر:بنت مہر - تحریر نمبر 2111

اُردو پہ گرفت مضبوط ہے نہ انگریزی میں مکمل مہارت۔مگراتنی انگریزی تو آتی ہے کہ بوقت ضرورت اُردو فقرات میں اس کا تڑکہ لگا سکیں اسی لیے جب تک ایک فقرے میں چار انگریزی الفاظ نہ ٹانک لیں لگتا ہے

بدھ 31 جولائی 2019

کرنل محمد خان نے اپنی کتاب ''بزم آرائیاں'' میں لکھا'چند سال ہوئے انگلستان کے ایک مشہور ماہر تعلیم پاکستان آئے ہم نے انہیں ایک انگلش میڈیم سکول دکھانے کے بعد فخر سے ان کی رائے پوچھی جو سننے کے کہنے لگے ''بھئی آپ کی ہمت قابل داد ہے جو اپنے بچوں کو ایک غیر ملکی زبان میں تعلیم دے رہے ہیں۔اگر میں انگلستان میں انگریز بچوں کو اُردو کے ذریعے تعلیم دینے کی سفارش کروں تو مجھے یقینا اگلی رات کسی ہسپتال میں کاٹنی پڑے آپ واقعی بہادر ہیں'۔
لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ ہماری بہادری کا اختتام یہیں پہ نہیں ہوتا بلکہ ہم تو وہ جی دار قوم ہیں جو غلط اُردو اور درست انگریزی بولنے کو تعلیم یافتہ ہونے کی علامت سمجھتے ہیں علاوہ ازیں انگریزی بولنا امارت کے اظہار کا بھی ایک ذریعہ ہے۔

(جاری ہے)

اردو وہ واحد زبان ہے جس میں کسی بھی زبان کا کوئی لفظ شامل کر لیں وہ اُردو زبان کا ہی حصہ بن جاتا ہے اور اُردو کی یہی خوبصورتی اسے دنیا کی تیز ترین ترقی کرنے والی زبان بناتی ہے لیکن ہماری قوم نے اُردو کی اس خوبی کو زیادہ ہی سنجیدگی سے لے لیا ہے اس لیے تو ہر فرد اپنے ایک فقرے میں اردو کے دو اور انگریزی کے دس الفاظ ٹانک کر اس کی خوبصورتی میں حتی المقدور اضافہ کرنے پہ تلا ہوا ہے اور بات یہیں پہ ختم نہیں ہوتی ہمارے ذرائع مواصلات بھی اپنی کوشش سے اس خوبصورتی کو چار چاند لگا رہے ہیں جس میں ڈراموں سے لے کر خبر وں کے چینل تک سب اپنا اپنا کردار بخوبی نبھا رہے ہیں اور ہماری سب کی ان کوششوں نے اردو زبان کو مکمل طور پہ لولا لنگڑا کر کے چھوڑا ہے جواپنے خالص پن پہ لگے جا بجا پیوند وں کی وجہ سے اپنا اصل رنگ ہی کھو چکی ہے ۔

اور اردو میں انگریزی کی بے جا پیوند کاری سے ہم لوگ آدھا تیتر آدھا بٹیربن چکے ہیں ۔ اُردو پہ گرفت مضبوط ہے نہ انگریزی میں مکمل مہارت۔مگراتنی انگریزی تو آتی ہے کہ بوقت ضرورت اُردو فقرات میں اس کا تڑکہ لگا سکیں اسی لیے جب تک ایک فقرے میں چار انگریزی الفاظ نہ ٹانک لیں لگتا ہے جیسے اپنے تعلیم یافتہ ہونے کی سند ہی پیش نہیں کی۔ ملک کے ذرائع ابلاغ اپنی زبان کی ترقی و ترویج کے سب سے موثر کردار ادا کرتا ہیں لیکن ہمارے یہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے ہمارے ذرائع ابلاغ نے انگریزی کے غیر ضروری استعمال کو فروغ دے کراردو کی یتیمی سب سے زیادہ حصہ ڈالا ہے نجی چینلوں کے انگریزی تڑکے سے سجے نیم اردوپروگراموں کی وجہ سے قوم بھی ان کے رنگ میں ڈھلتی جا رہی ہے اردو کے نامی گرامی رسائل اور کتابیں بھی اس سحر سے بچ نہ پائیں جو اپنی خالص اردو تحاریر و مقالوں میں انگریزی پیوند کاری کرنے لگے اردو ادیب و لکھاری جنہیں اردو کی بقا کی جنگ لڑنی تھی وہ بھی اپنی تحریر و تصانیف اپنے ہم زبانوں تک پہنچانے کے لیے اردو کے ساتھ انگریزی کے چٹخارے بھرنے لگے ۔
اس انگریزی زدہ نظام سے سب سے زیادہ ہمارا تعلیمی نظام متاثر ہوا ہے انگلش میڈیم نصاب کی وجہ سے ہمارے مستقبل کے معمار اپنی زبان سے سب سے زیادہ نالاں ہیں اور اُردو ان کے نزدیک اس قدر مشکل ہے کہ بغیر انگریزی کا سہارا لیے اُردو میں بات سمجھانے کی کوشش کی جائے توان کے سر کے دو بالشت اوپر سے گزر جاتی ہے ۔قومی زبان کسی قوم کی شناخت اور ترقی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے جس پہ چڑھ کر ہی باقی زینے طے کرتے ہوئے منزل تک پہنچا جا سکتا ہے لیکن ہمارا پہلا زینہ ہی خستہ حالی کے سبب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے تو باقی زینے کیونکر طے ہو سکیں گے۔
اردو زبان کا المیہ یہ ہے کہ اسے غیروں سے زیادہ اپنوں نے بے اعتناء سمجھا 1973 کے آئین میں شق نمبر 251 کے تحت پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان اردو قرار پائی جسے 1988 تک ملک بھر میں سرکاری زبان کے طور پر لاگو ہونا تھا لیکن آج تک ہمارا دفتری اور سرکاری نظام انگریزی پہیوں کے سہارے گھسٹ رہا ہے اور اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود آئین کی اس کھلی خلاف ورزی پہ کبھی کسی با اثر شخصیت نے نے احتجاج نہیں کیا۔
ہم نے کبھی یہ تصور کیا کہ کوئی بیرون ملک نمائندہ پاکستان آ کر اردو میں بات کرے گا؟اس کا جواب پرزور نفی میں آتا ہے کیونکہ ہم نے تو خود کبھی اردو کو قومی زبان والی حیثیت و عزت نہ دی تو کسی اور سے یہ توقع رکھنا ہی عبث ہے کہنے کو ہم آزاد قوم ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ آج بھی ذہنی غلامی کا شکار ہیں جو انگریزی کی مرعوبیت سے اپنے ذہنوں کو آزاد ہی نہیں کروا پارہے اور اسی ذہنی غلامی کے باعث ہم لوگ اپنی پہچان بھی کھوتے جا رہے ہیں کیونکہ جو قومیں اپنی زبان بھلا دیتی ہیں وہ اپنی شناخت کھو دیتی ہیں جن شہروں میں گونجی تھی غالب کی نوا برسوں ان شہروں میں اب اردو بے نام و نشاں ٹھہری بین الاقوامی زبان ہونے کے ناتے انگریزی کی حیثیت مسلمہ ہے جس کا ضرورت کے تحت سیکھنا بھی ضروری ہے لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں ایک بھی ایسی قوم نہیں گزری جس نے کسی دوسری زبان میں ترقی کی ہوچین،ایران، روس، ترکی اور جرمنی جیسے ترقی یافتہ ممالک نے انگریزی زبان اپنائے بغیراپنی قومی زبان کے ذریعے ترقی کی منازل طے کر کے ہمارے لیے مثال قائم کی پاکستان کے علاوہ دنیا کے تقریبا تمام ممالک میں اردو ایک اہم زبان کی حیثیت سے نہ صرف پڑھائی جاتی ہے بلکہ اردو بولنا بھی سکھایا جاتا ہے جس میں برطانیہ،امریکہ،کینیڈا،جاپان،چین جنوبی افریقہ اور ناروے جیسے ممالک سر فہرست ہیں ۔
بنگلہ دیش اور نیپال کے کروڑوں لوگوں کی مادری زبان اردو ہے اور ماریشس میں اردو تیسری زبان کی حیثیت رکھتی ہے اس کے علاوہ ہانگ کانگ، سنگاپور اوررنگون میں بھی اردو رابطے کی زبان کی زبان کے طور پہ رائج ہے برصغیر میں اردو رابطے کی سب سے بڑی زبان ہے اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں عربی کے علاوہ اگر کسی زبان نے اہم کردار ادا کیا ہے تو وہ اردو ہی ہے صرف پاکستان میں ہی عوام کو قومی زبان کے حق کی جنگ لڑنے کے لیے عدالتوں میں دھکے کھانے پڑتے ہیں شاید اردو کو قومی زبان کا مقام بھی عوام کے بہلاوے کے لیے دیا گیا یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک بہت سے الفاظ کا اردو متبادل ہی تلاش نہ کر سکے ابھی بھی وقت ہے ہم اردو زبان کی بقا کا بیڑا سنبھال کر اس ڈولتی ہوئی ناؤ کو سہارا دے کر اپنی شناخت کو مکمل طور پہ کھونے سے بچ سکتے ہیں ۔
زبان اور قوم ایک سکے کے دو پہیے ہیں زبان نہ رہے تو قوم بھی منتشر ہو جاتی ہے اور اردو زبان قومی یکجہتی کا ایک اہم ذریعہ ہے جس کے ذریعے منتشر قوم کو اکٹھا کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے قومی اور سرکاری سطح پہ کچھ اقدامات کی ضرورت ہے جس میں نظام تعلیم کو اردو میں رائج کرنا اور ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ دفتری سطح پہ بھی اردو زبان کو رائج کرنا سر فہرست ہے ملک کے کرتا دھرتاؤں سے التجا ہے کہ اردو کو قومی زبان کی حقیقی مقام دے کر بانی پاکستان کے اس فرمان کو حقیقت کی عملی شکل دی جائے جس کا اظہار انہوں نے 21 مارچ 1948 کو ڈھاکہ کے جلسہ عام میں ان الفاظ میں کیا ''میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو، اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں۔
جو کوئی آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی کام کر سکتی ہے دوسرے ملکوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ اردو ہی ہو گی''

Browse More Urdu Literature Articles