Chand Maqbool Shoara Kay Filmi Geet - Article No. 1508

Chand Maqbool Shoara Kay Filmi Geet

چند مقبول شعرا کے فلمی گیت - تحریر نمبر 1508

بھارت سے تعلق رکھنے والے شاعروں نے بھی پاکستانی فلموں کیلئے گیت لکھے۔

ہفتہ 23 ستمبر 2017

تحریر: اسلم ملک
جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، حفیظ جالندھری، ابن انشاء، استاد دامن، صوفی تبسم، نذیر ناجی اور حسن نثار نے فلمی گانے لکھے
ڈم ڈما ڈم باجا ہو، چوری چوری اکھیوں
بہت سوں کو یقین ہی نہیں آئے گا کہ یہ جناب احمد ندیم قاسمی کا لکھا ہوا فلمی گیت ہے۔ ندیم صاحب نے 1970ء میں فلم ’’درندہ‘‘ کیلئے تین گیت لکھے۔

باقی گیتوں کے مکھڑے یہ تھے
دکھیا گھٹائو جائو پیا کو جا کے بتائو ترے بن
اے آسمانوں کے مکیں فریاد ہے فریاد ہے
ہمارے بڑے شاعروں میں سے قتیل شفائی، احمد راہی، ظہیر کاشمیری، حبیب جالب، منیر نیازی، ساغر صدیقی، طفیل ہوشیار پوری، سیف الدین سیف، یزدانی جالندھری، بہزاد لکھنوی، ظہور نظر وغیرہ تو ایک طرح سے فلمی صنعت سے وابستہ رہے کہ کئی فلموں کے گیت لکھے لیکن ایسے شاعروں اور دوسری شخصیات کی بھی بڑی تعداد ہے جن کا تعلق تو کسی اور شعبے سے تھا لیکن انہوں نے فلم کیلئے گیت لکھنے کا تجربہ بھی کیا۔

(جاری ہے)


جوش ملیح آبادی نے 1966ء میں ’’آگ کا دریا‘‘ کیلئے آٹھ شاندار گیت لکھے
’’ ہوا سے موتی برس رہے ہیں، فضا ترانے سنا رہی ہے ‘‘ اور ’’ اے وطن ہم ہیں تری شمع کے پروانوں میں ‘‘ کون بھولا ہوگا۔ جوش صاحب نے 1969ء میں ’’ قسم اس وقت کی‘‘ کا ٹائٹل سانگ ’’ قسم اس وقت کی جب زندگی کروٹ بدلتی ہے ‘‘ بھی لکھا۔

قیوم نظر نے 1950ء میں ’’بیلی‘‘ کیلئے گیت ’’پگ پگ میں نے نین بچھائے کوئی نہ آیا‘‘ لکھا۔ اسی فلم میں امرتا پریتم کی مشہور نظم ’’ اج آکھاں وارث شاہ نوں ‘‘ بھی شامل کی گئی۔ امرتا کی یہ نظم ’’ کرتار سنگھ‘‘ میں بھی شامل کی گئی۔
حفیظ جالندھری نے 1956ء میں ’’شکار‘‘ کیلئے گیت ’’ آئی جوانی ہو آئی آج ہم چلے ‘‘ اور ‘‘ ہم لے چلے ہیں دل شکار کرکے ‘‘ لکھے۔
1969ء میں انہوں نے احمد بشیر کی فلم ’’ نیلا پربت‘‘ کیلئے گیت ’’او دل توڑ کے جانے والے دل کی بات بتاتا جا‘‘ لکھا۔
نیلا پربت کیلئے ابنِ انشا نے بھی گیت لکھا ۔۔۔’’ ہم سے بات کرو سانوریا ہم سے پیار کرو‘‘
فیض احمد فیض نے 1959ء میں مشہور فلم ’’ جاگو ہوا سویرا‘‘ کے تمام گیت لکھے ۔۔۔
جاگو ہوا سویرا جاگو ہوا سویرا
بھور بھئی گھر آجائو مانجھی بھور ہوئی گھر آئو
ڈوب گیا دن شام ڈھلی ڈوب گیا دن سو گئی ندیا
موتی ہو کہ شیشہ جو ٹوٹ گیا سو ٹوٹ گیا
اب کیا دیکھیں راہ تمہاری بیت چلی ہے رات
1959 ء میں استاد دامن نے فلم ’’جائیداد‘‘ کیلئے ’’ ہائے میں دل لاکے پچھتائی‘‘ لکھا۔
1972ء میں ’’غیرت دا نشان‘‘ کیئے استاد دامن کا لکھا ہوا گانا ’’ نہ میں چاندی جہی نہ سونے جہی، میں پتل بھری پرات۔۔ مینوں دھرتی قلعی کرا دے نچاں گی ساری رات‘‘ بہت مقبول ہوا۔ اسی سال استاد نے ’’غیرت تے قانون‘‘ کیلئے ’’ توڑ کے دل نوں ٹر چلیا ایں جویں گھگھو گھوڑے‘‘ بھی لکھا۔ صوفی تبسم نے 1960ء میں ’’شام ڈھلے‘‘ کیلئے چار نغمات لکھے
سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
محبت ایک دولت تھی لٹا دی رائیگاں میں نے
میری مست جوانی لہرائی احسان ہے مجھ پہ ساقی کا
پربت پہ جب شام ڈھل جائے گی
صوفی صاحب نے پھر 1966ء میں ’’ انسان‘‘ کیلئے چار گیت لکھے
اے خدا بے سہاروں کے خدا
ملی ہے نظر سے نظر
پیار کا کوئی سہارا نہ رہا غم کے سوا
اب نہ آنا میری گلیوں میں دغا باز کبھی
1966 ء کی فلم ’’پروہنا‘‘ میں صوفی تبسم کے جنگ ستمبر کے دوران لکھے گئے دو ترانے’’ میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں‘‘ اور ’’ میرا ماہی چھیل چھبیلا، ہائے نی کرنیل نی، جرنیل نی‘‘ بھی شامل کئے گئے۔
1969ء میں صوفی تبسم نے فلم ’’ پتھر تے لیک‘‘ کیلئے ’’ کسے نال نہ اکھیاں ملا وے‘‘ لکھا۔
1973 ء میں بننے والی فلم ’’ ایک تھی لڑکی‘‘ میں صوفی صاحب کا کیا ہوا غالب کی غزل کا پنجابی ترجمہ ’’ میرے شوق دا نئیں اعتبار تینوں‘‘ بھی شامل کیا گیا۔
احسان دانش نے 1969ء میں ’’ تمہی ہو محبوب میرے‘‘ کیلئے لکھا
’’ بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں تنہائی جنہیں دہراتی ہے‘‘
بھارت سے تعلق رکھنے والے شاعروں نے بھی پاکستانی فلموں کیلئے گیت لکھے۔

1958ء میں بننے والی ’’ نیا زمانہ‘‘ میں مجروح سلطان پوری کے پانچ گیت شامل تھے
دھیرے سے آ کے نندیا سپنوں کے پھول چُننا رے
جھومے جھومے دیکھو دیکھو یہ نظارے تم جو چلی ہو
دھڑکنے لگا دل نظر جھک گئی
اٹکن چٹکن چٹکائے رے
تن تنا تا نہ مکئی کا دانہ، چور بنا مُنا لک چھپ جانا
1964 ء میں بننے والی فلم ’’فرنگی‘‘ میں ساحر لدھیانوی کا نغمہ ’’ اے وطن اے وطن مرنے والوں کی دم توڑتی۔
۔۔‘‘ شامل تھا۔ فیض کا ’’ گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے‘‘ بھی اسی فلم میں تھا۔ 1966ء میں فلم ’’ لا ڈ و‘‘ میں موہن سنگھ کا گیت ’’ اک بوٹا امبی دا ساڈے ویہڑے اُگا نی‘‘ شامل کیا گیا۔
شاعر مسعود منور نے 1973ء میں فلم ’’ شرابی‘‘ کیلئے گانا ’’ ریجھاں دی تصویر دے ٹکڑے ہنجواں نال جڑ دے نیں‘‘ لکھا۔

بعض معروف صحافیوں نے بھی فلموں میں طبع آزمائی کی۔ سب سے پہلے 1959ء میں طفیل احمد جمالی نے ’’راز‘‘ کے دو گیت لکھے:
مان مان زمانہ ہے جوان او سن سن جوانی ہے حسن
چھلک رہی ہیں مستیاں نشے میں جھوم اٹھا جہاں
1968 ء میں نذیر ناجی نے ’’پیار دا ویری‘‘ کیلئے یہ دو گیت لکھے:
گھنڈ کھل گیا شرماں والا
تقدیر دا پھیرا اے، لوکاں دی رات چاننی، ساڈا دن وی انہیرا اے
حسن نثار نے 1975ء میں فلم ’’سلطانہ ڈاکو‘‘ کیلئے گیت لکھا :
’’میرا پیار، میرا پیار، میرا پیار آگیا‘‘
شفیع عقیل نے 1976ء میں فلم ’’ٹرک ڈریور‘‘ کیلئے دو گیت لکھے :
جھک نہ توں، پھڑ میری بانہہ
میں لبھ لیا دل دا چور وے
چودھری اصغر علی کوثر وڑائچ نے مرزا جٹ، باغی شیر، حق مہر، گواہ تے بدمعاش سمیت کئی فلموں کے گانے لکھے۔

مینوں چھڈ گیوں ادھ وچکار وے (مرزا جٹ: 1982ء)
ہتھ مینوں لاویں نہ وے منڈیا کرنٹ پؤگا (حق مہر:1985ء)
اظہر جاوید نے بھی چند اردو اور پنجابی فلموں کیلئے گیت لکھے۔ فلم ’’ پیار نہ منے ہار‘‘ کیلئے 1971ء میں انہوں نے گیت لکھا:
توں ملیں دل دھڑکے میرا نبضاں رُک رُک جاندیاں نیں
اداکاروں نعیم ہاشمی، علائو الدین، آصف جاہ اور سلمیٰ ممتاز کے نام بھی فلموں کے کریڈٹس اور گرامو فون ریکارڈز پر نغمہ نگار کے طور پر آئے۔
نعیم ہاشمی تو خیر ہر فن مولا تھے، علائو الدین کے نام سے فلم ’’ جماں جنج نال‘‘ میں شامل گانے ’’ گھنڈ مکھڑے توں لاہ او یار‘‘ کے بارے میں خیال ہے کہ یہ استاد دامن نے انہیں عطا کیا تھا، جنہوں نے انہیں بیٹا بنایا ہوا تھا۔
بھائی اخلاق عاطف بتاتے ہیں کہ 2003ء میں پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنے سلسلے ’’ خراجِ تحسین‘‘ میں استاد دامن پر جو پروگرام کیا تھا، اس میں یہ گانا استاد دامن کے اہم نغمے کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔
سلمیٰ ممتاز کا گیت ’’آئی دکھیاری تیرے دربار خالی نئیں جانا، نہ ہووے انکار‘‘ 1975ء کی فلم ’’ بے اولاد‘‘ میں تھا۔ آصف جاہ نے دو تین فلموں کیلئے گیت لکھے۔۔1968ء کا ’’فلم ڈیرہ سجناں دا‘ کیلئے’’ تیرے خاب تے خیال، رہندے میرے نال نال‘‘ بہت مقبول ہوا۔

Browse More Urdu Literature Articles