Damِ E Zindagi, Rim E Zindagi, Gham E Zindagi, Sam E Zindagi - Article No. 2245

Damِ E Zindagi, Rim E Zindagi, Gham E Zindagi, Sam E Zindagi

دمِ زندگی،رم ِزندگی،غم ِزندگی،سم ِزندگی - تحریر نمبر 2245

ادب و لٹریچر کو بہت باریک بینی سے پڑھنا اور فطرت کا مشاہدہ کرنا چاہئے ۔لٹریچر وقت کا ضیاع نہیں بلکہ انسانی کردار سازی ہے ۔جس طرح ادیب اپنے ادب ،دانشوروفلسفی اپنی فکرسے ،اسی طرح شاعربھی معاشرے کو فکری جلابخشتے ہیں اور لوگوں کو زندگی کا مفہوم شعری زبان میں سمجھاتے ہیں

Atiq Chaudhry عتیق چوہدری جمعہ 24 جنوری 2020

امریکی تاریخ دان ،فلسفی ول ڈیورانٹ( Will Durant )جنہیں زندگی ،کام اور فلسفے پر اتھارٹی سمجھا جاتا ہے نے اپنی کتاب ON The meaning of Life کے تعارف میں وہ خط شامل کیا ہے جو انہوں نے ”زندگی کے مفہوم “ کی بابت بنیادی سوال کاجواب مانگنے کے لئے 100 اہم شخصیات کو 1930 میں خط لکھاکہ وہ اپنی زندگیوں میں مفہوم ،مقصد اور تکمیل کیونکر پیدا کرتے ہیں ؟ ڈیورانٹ پوچھتے ہیں : ”آپ کی تخلیقی تحریک اور توانائی کے ذرائع کیا ہیں ،آپ کی تمام تر جانفشانی کامقصد یا محرک کیاہے ،آپ زندگی میں تشفی اور خوشی کہاں تلاش کرتے ہیں اور آخر میں حتمی منزل کیا ہوتی ہے ؟ “ڈیورانٹ نے جو جواب موصول ہوئے ان کو بھی اپنی اسی کتاب میں شامل کیا ہے۔
مشہور مغربی محقق و مفکر جارج برنارڈ شاہ George Bernard Shah ) (کا مختصرو دانشمندانہ جواب یہ تھا ”میں کیسے آگا ہ ہوسکتا ہوں؟کیا یہ سوال بذات خود کوئی مفہوم رکھتا ہے ؟ آج اگر ہم جائزہ لیں تو ہم سب کے ذہنوں میں بھی ڈیورانٹ کی طرح سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانی زندگی کا مفہوم یا اس کی قدروقیمت کیا ہے ؟حیدر علی جعفری کے بقول : آئے ٹھہرے اور روانہ ہوگئے زندگی کیا ہے ،سفر کی بات ہے ولیم شکسپئراپنی نظم ”The seven ages of man “میں دنیا کو ایک سٹیج کہتا ہے جس میں ہر انسان زندگی کی مختلف مراحل میں مختلف کردار ادا کرتا ہے ۔

(جاری ہے)

اور ہر کردار کا ایک مخصوص وقت ہوتا ہے انسان اپنے معینہ وقت پر اپنا کردار اداکرتا ہے اور آگے بڑھتا چلاجاتا ہے۔زندگی کو اگر سطعی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ یا تو صرف درد کا نام ہے یا خوش قسمتوں کی نظر میں محض سکھ ،یا خوش فہمیوں کا نام ہے ۔مگر سوال یہ ہے کہ خوشی اور غم ہے کیا ؟غم وتکلیف سے کیسے بچا جاسکتا ہے ؟ خوشی وراحت کیسے مل سکتی ہے ؟ زندگی میں ہر انسان کامیاب ہونا چاہتا ہے مگر سوال یہ بھی اہم ہے کہ کامیابی کیا ہے ؟ ناکامی کیا ہے؟ زندگی کو ہم نے پانے اور کھونے کا میزان بنا لیا ہے ،جب خواہش کے مطابق کچھ پالیا تو خوش ہوگئے جب خواہش پوری نہ ہوئی تو غمزدہ ہوگئے ۔
حزن وملال زندگی کا حسن ہے المیہ ابدیت کی کہانی بناتا ہے ۔دُکھ سکھ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ آگے پیچھے چلتے ہیں ۔کبھی کبھی تو زندگی میں دُکھ ہی دکھ نظر آتے ہیں فیض احمد فیض نے اس کی عکاسی یوں کی ہے زندگی کیا کسی مفلس کی قباہے جس میں ہرگھڑی دردکے پیوندلگے جاتے ہیں خواجہ میردرد نے اپنے مخصوص انداز میں احساسات ،جذبات،مشاہدات اور تخیلات کا اظہار یوں کیاہے زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مرچلے ساحر لدھیانوی زندگی کی تلخ حقیقتوں اور سچائیوں کے بارے میں بے ساختگی کے ساتھ یوں رقم طراز ہیں کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا بات نکلی توہر ایک بات پہ رونا آیا غم کے بعد یقینا خوشی بھی ملتی ہے ہر شخص غم سے نجات چاہتا ہے مگر غم سے نجات کیسے حاصل کی جائے ۔
سووئیزایمبولانڈو نے کہاتھا کہ فلسفیانہ سوالات کاجواب بھی عمل کے ذریعے مل سکتا ہے ۔سب کچھ کے باوجود کون سی چیز ہے جو انسان کوآگے لیکر جاررہی ہے اس سوال کاجواب 1930 میں طبیعات کا نوبل انعام جیتنے والے سی وی رامن(C.V.Raman) نے دیا ہے ”محنت کامیابی اور دوسروں کو بھی اپنے جیسا بنانے کی خواہش ایسی تحریکی قوتیں ہیں جومجھے آگے بڑھائے چلی جاتی ہیں ۔
میرے نزدیک خوشی کا حقیقی ذریعہ خود غرضی کی بجائے خود اختیاری ہے آخر میں اپنی ذات پر فتح ،پوری دنیا پر فتح پانے کی نسبت کہیں بڑی بات ہے“ ۔علامہ اقبال نے کہاتھا: اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی ایک تحقیق کے مطابق ہمارے 90 فیصد دکھ اور غم بے جاتوقعات اور غلط نظریات کی وجہ سے ہوتے ہیں جیسے ہی کوئی توقع ٹوٹتی ہے یا کوئی نظریہ غلط ہوتا ہے ہم غمگین ہوجاتے ہیں ۔
غور کریں تواکثر ہم اپنے خیالات واعمال کی وجہ سے غم زدہ رہتے ہیں فارسی میں کہتے ہیں کہ ”خودکردہ راعلاج نیست “اپنے کئیے کا علاج نہیں ہوتا اختر شیرانی کے بقول : آرزو وصل کی رکھتی ہے پریشان کیا کیا کیابتاؤں کہ میرے دل میں ہے ارماں کیا کیا زندگی کا یہ مسئلہ کچھ ایسے ہی ہے ہم اپنے ارمانوں کوپورا کرنے میں اس قدر مصروف ہیں کہ زندگی کے حتمی مفہوم پر غور کی زحمت ہی نہیں کرتے ۔
فرائض کی انجام دہی کے احسا س نے خیال کومنجمد کردیا ہے ۔مگریہ بھی حقیقت ہے کہ انسان اگر سچائی تلاش کرنا چاہے تو اسے تلاش کرسکتا ہے ۔گورمون(Gorman) نے کہاتھا کہ ”سچائی کی تلاش کے حوالے سے خوفناک ترین بات یہ ہے کہ انسان اسے تلاش کرلیتا ہے “۔عمل کی ترغیب دینے کے لئے علامہ محمد اقبا ل یوں گویاہوئے : عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے جرمن شاعرگوئٹے (Johann Wolfgang von Goethe) کہتا ہے کہ” عمل کو جنم نہ دینے والے تمام خیالات بیماری ہیں “ ارنسٹ ایم ہاپکنز نے زندگی کے مفہوم کی عکاسی یوں کی ہے ”میری رائے میں زندگی کے مہیا کردہ مواقع میں پنہاں ہوتی ہیں ۔
میرے خیال میں سوچنے ،محسوس کرنے اور عمل کرنے کی صلاحیتوں کا لازم وملزوم ہونا زندگی کا بیش قیمت تحفہ ہے “۔ ہر شخص زندگی میں کامیاب ہونا چاہتا ہے ۔لوگ سمجھتے ہیں کہ کامیابی کسی منزل پر پہنچ جانا ہے جب کہ کامیابی مسلسل سفر کانام ہے ،یہ منزل نہیں بلکہ مسلسل سفر کانام ہے ۔When There is will There is way کی طرح راستہ مل ہی جاتا ہے ۔ایڈون سی بلس Edwin C Blissکا کہنا ہے کہ کامیابی کا مطلب ناکامیوں کی عدم موجودگی نہیں ہے اس کا مطلب تو حتمی مقاصد کا حصول ہے ۔
اس کا مطلب جنگ میں فتح پانا ہے لیکن ہر جنگ میں نہیں ۔کسی مفکر کا قول ہے جو لوگ کامیاب ہوتے ہیں ان کوان لوگوں سے کم مشکلات کا سامنا نہیں ہوتا جو ناکام ہوتے ہیں ۔مشکلات سے آزاد لوگ صرف قبرستان میں ملتے ہیں ۔ طول شب فراق سے گھبرا نہ اے جگر ایسی بھی کوئی شام ہے جس کی سحر نہ ہو ایک مرتبہ والٹئیر(Voltaire) نے کہاتھا کہ اگر اس کے پاس کرنے کوسخت کام نہ ہوتا تو وہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتا ۔
میں ایک مرتبہ پھر کہتا ہوکہ صرف فارغ لوگ ہی مایوسی کا شکار ہوتے ہیں ۔ویسے بھی کامیاب وہی ہوتے ہیں جوبار بار گرتے ہیں نا گرنا کمال نہیں ،گر کر سنبھلناکمال ہے دراصل ناکامی تو کامیابی کی کنجی ہے کیونکہ ستارے ہمیشہ اندھیرے میں ہی چمکتے ہیں۔انسانی زندگی میں ایک اور اہم فیکٹر مایوسی و ناامیدی ہے ۔لوگوں کا حریص ہونا اور دوسروں کوتحفظ کے حصول میں کامیابی کے اعتبار سے اہمیت دینا فطری امر ہے ۔
ایک اور سوال کہ روٹی کتابوں سے زیادہ اہم ہے ؟معاشی ترقی اہم ہے یا ذہنی وانسانی ترقی ،علمی وادبی ترقی یا سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی ؟معاشرے و انسان کے لئے اہم کیا ہے ؟ اور فن دولت کی عطا کردہ عیاشی ہے ؟ کیا یہ سچ ہے کہ ترقی ایک سراب ہے ؟ ہاں اگر ترقی کا مطلب لگاتار ،عمومی اور لازوال ترقی سمجھتے ہیں تو یہ محض فریب ہے ۔ ہماری تہذیب و معاشرے کا افسردہ ترین منظر غربت سے بھی بھیانک نسل کی انسانی ساخت میں پیدا ہونے والا بگاڑ اور اخلاقی گراوٹ ہے۔
سائنس وٹیکنالوجی کے دور میں جہاں مشینوں نے انسان کے تمام کام آسان بنادئیے ہیں اور انسان روز بروز ترقی کررہا ہے مگر اس کے باوجود علم وادب کی اہمیت کم نہیں ہوئی، وہی ادب انسان کو انسان بناتا ہے ۔سائنس ایجادات کرتی ہے تو ادب اس کا ہنر استعمال سکھاتا ہے ،سائنس نے سوشل میڈیا تشکیل دیا تو ادب نے بتایا کہ اس کا بہتر استعما ل کیسے کیا جائے ۔
قانون کی پاسداری کیا ہے اور اخلاقیات کیا ہے ؟ شکسپئیر نے عظمت واقبال مندی ،بصیرت و دانشمندی اورعوامی قائدین کی شناخت و پہچان کی سہولت کے لیئے کیاخوب مثال پیش کی ہے ”بعض لوگ پیدا ہی عظیم ہوتے ہیں بعض محنت سے ،بے پناہ مطالعہ کے نتیجہ میں نیکی وبدی میں تمیز کے ذریعے سے اقوال و اعمال پر عمل پیرا ہو کر عظمت و اقبال مندی حاصل کرتے ہیں اور بعض لوگوں پر حادثاتی طور پر مجبورا عظمت واقبال مندی کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے ۔
جبکہ ایمرسن کہتا ہے کہ تمام عظیم لیڈر اور بڑے قد آور قائدین متوسط طبقے سے پیدا ہوئے اور اسی متوسط طبقے سے پیدا ہوتے رہیں گے ۔ دنیا کا سب سے بڑا ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ(Sigmund Freud) ادب کا دلدادہ تھا اور اپنے علوم کوشکسپئیر (William Shakespeare)کے ڈراموں میں دکھائے گے کرداروں سے سیکھا گیا بتاتا تھا ،لا یعنی قانون کے علم میں جرم کی وجوہات اور تدارک کے لئے فرانزکافکا) (Franz kafkaاور دوستوفسکی(Fyodor Dostoyevsky) کے ناولز سے بھی مدد لی گئی ہے جن میں دوستوفسکی کا جرم وسزا(Crime and Punishment) اور کافکا کادی ٹرائل(The Trail) شامل ہیں ۔
اس لیئے انسان کو زندگی کو سمجھنے کے لیئے ادب و لٹریچر کو بہت باریک بینی سے پڑھنا اور فطرت کا مشاہدہ کرنا چاہئے ۔لٹریچر وقت کا ضیاع نہیں بلکہ انسانی کردار سازی ہے ۔جس طرح ادیب اپنے ادب ،دانشوروفلسفی اپنی فکرسے ،اسی طرح شاعربھی معاشرے کو فکری جلابخشتے ہیں اور لوگوں کو زندگی کا مفہوم شعری زبان میں سمجھاتے ہیں ۔ سی جی یونگ (C.G.JUNG)نے اپنی کتاب ماڈرن مین ان سرچ آف سول (Modern Man in search of a soul)میں لکھا ہے کہ شاعر کا کام ہے معاشرے کی روحانی ضروریات کو پورا کرے ۔
اگر ہم روحانی ضروریات کو وسیع تر مفاہیم میں پھیلاکر دیکھیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی قوم کی نفسیاتی صحت کا دارومدار اس قوم کے شاعروں ،ادیبوں اور فنکاروں کی سچائی اور سماجی انصاف سے وابستگی پر ہے ۔ روحانیت کا پاسورڈ ہی سچائی ہے ۔لکھاری کے پاس سب سے بڑا ہتھیار اس کا قلم ہوتا ہے جس سے وہ فلسفیانہ موشگافیوں،فکری وعلمی بحثوں سے لیکر سماجی مسائل پر روشنی ڈال کر معاشرے کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کرتا ہے ۔
ہر دور کے فلسفیوں ،مفکرین ،دانشوروں نے زندگی ، کامیابی ،پیار ،خوشی ،غم ،خوف اورانسانی نفسیات پر روشنی ڈالی ہے مگر اس سوال کا حتمی ومکمل جواب کسی نے نہیں دیا کہ زندگی کیا ہے ؟۔جیمز جین (James Jeans)نے کہاتھا کہ ”اگر ساری دنیا کے ریگستان جمع کر لیئے جائیں تواس میں ایک ذرہ شاید آپ کی دنیا کا بھی ہو“ تو اس کائنات میں انسان کی اہمیت ایک ذرہ کی ہے اب انسان اپنی ہمت سے اس ذرے کو گوہر نایاب بناتا ہے یا ریت کا ذرہ یہ انسان پر منحصر ہے ۔
کیونکہ قرآن پاک کی سورة الدہر میں اللہ پاک نے فرمایا ترجمہ ”میں نے تمہیں رستہ وعقل دے دی اب چاہوتومجھے مانوچاہوتوانکار کردو“گویا انسان کواللہ تعالی نے عقل ومعرفت کے ساتھ کام بتا دیا ہے کہ اپنی عقل سلیم کواستعمال کرتے ہوئے اس کوبہتری کے لئے استعمال کرے ۔انسان آزاد ہے مگر مکمل آزاد نہیں ہے ۔ زندگی میں کامیابی بڑے خواب دیکھنے والوں کو ملتی ہے جو ان خوابوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیئے جہد مسلسل کرتے ہیں کامیابی کا مفہوم ان کو راستے خود سمجھا دیتے ہیں: فیض احمد فیض نے کہاتھا یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہم دم وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں راحت اندوری نے کہا تھا کہ زندگی میں خواب ہمیشہ معیاری دیکھنے چاہیں بقول راحت اندوری یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے نیند رکھو یا نہ رکھوخواب معیاری رکھو انسان کو خواب دیکھنے چاہئیے مگر بعض اوقات خواب پورے نہ ہونے پر مایوس و نااُمید نہیں ہونا چاہئے ۔
کیونکہ کوئی بھی ناکامی حتمی ناکامی نہیں ہوتی بقول منیر نیازی خواب ہوتے دیکھنے کے لئے ان میں جاکر مگر رہا نہ کرو نیومن (Newmin)نے بھی ایک اصول دیا تھا کہ ” ہم یقین کرنے سے پہلے سمجھنے کی اُمید نہیں رکھ سکتے “ ایک دانا شخص کا قول ہے ” عام افراد اپنے معمولات زندگی پر مطمئن ہوجاتے ہیں ،مگر جو خاص ہوتے ہیں ،وہ کامیابی کی جستجو کرتے ہیں “ ۔
برطانوی ادیب فرانسس بیکن (Francis Bacon)نے کہا تھا کہ ”اعلی مقام تک لے جانے کاہر راستہ گھومتی ہوئی سیڑھیوں سے ہوکر جاتاہے “۔ کامیاب لوگ بدترین حالات میں بھی بہتری کی راہ نکال لیتے ہیں ،جبکہ ناکام لوگ بہترین حالات میں بھی کیڑے نکال کر حالات اپنے اور اردگرد کے لوگوں کے لئے ابتر بنالیتے ہیں ۔اطالوی مفکر میکاولی (Machiavelli)نے فارمولا دیا ہے کہ ” نتیجہ ہی ذریعے کا جواز دیتا ہے “ ۔
کامیاب افراد کی زندگی پر نظر ڈالیں تویہ حیرت انگیز انکشاف ہوتا ہے کہ وہ اپنی کامیابیوں کومطالعے کی عادت کا مرہون منت قرار دیتے ہیں اور نوجوانوں کو زیادہ کتابیں پڑھنے کامشورہ دیتے ہیں ۔ بل گیٹس سالانہ پچاس کتابیں پڑھتے ہیں ،امریکی بزنس مین وارن بفٹ روازانہ چھ سو سے ایک ہزار صفحات تک پڑھتے ہیں ۔وارن بفٹ نے کامیابی کی کنجی یہ بتائی کہ ”روزانہ اپنے موضوع پر پانچ سو صفحات پڑھیں “۔
دوسرااہم سوال زندگی میں رسک کتنا لینا چاہئے؟ کامیابی کے لئے رسک لینا پڑھتا ہے ،رسک نہ لینا اپنے خوابوں اور صلاحیتوں کا قتل ہے ۔بغیر خواب دیکھے بغیر منصوبہ بندی اور بغیر کام کئیے ناکامی کا خوف ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکا ہے ۔ہماری زندگی میں بہت سے کام نہ کرنے کی راہ میں ایک جملہ رکاوٹ بنتا ہے کہ ”لوگ کیا کہیں گے ‘ لوگ جو بھی کہتے رہیں کچھ کرکے دکھانے والے اپنی منزل تک پہنچ ہی جاتے ہیں ۔
احمد فراز نے درست کہاتھا ہم نہ ہوتے توکسی اور کے چرچے ہوتے خلقت شہر توکہنے کوفسانے مانگے ایک اور اہم سوال کامیابی محنت سے ملتی ہے یا قسمت سے ؟مشہورانگریزی فلم Fifty shades of Grey میں ایک بلیز کہتا ہے کہ میں جتنی محنت کرتا ہوں اتنی ہی قسمت میرے ساتھ ہوتی جاتی ہے ۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ محنت کے بغیر کامیابی کے حصول کی تگ ودو میں مضطرب رہنا غیر دانشمندی کے ساتھ ساتھ احمقوں کی دنیا میں رہنے کے مترادف ہے ۔
سکون واطمینان ،مسرت ،اچھی صحت ،اپنے خواب پورے ہوتے دیکھنا ،پریشانی سے آزادی ،اپنا مقصد زندگی پالینا ،اعلی تعلیم ،مالی اطمینان ،اچھا خاندان ،اپنی صلاحیتوں کا بہتر استعمال ،ترقی پانا ،سوشل ریلشنز کا بہترین ہونا ، معاشرے میں اعلی مقام ومرتبہ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے مگر قرآن پاک کی سورة العصر نے ایک کامیاب انسانی زندگی کے چار لوازم بتائے ہیں یعنی ایمان ،عمل صالح ،تواصی بالحق اور تواصی بالصبر ۔
اگر یہ چاروں لوازم سے دامن بڑھا ہوا ہوتو انسان ازروئے ایک کامیاب انسان قرار پائے گا ۔انسانی زندگی کا ایک اور اہم سوال مذہب رستہ ہے یا منزل ؟ تو اقبال نے کہاتھا کبھی چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو خلش سی ہے جوسینے میں غم منز ل نہ بن جائے اس سوال کا جواب بابائے عمرانیات پروفیسر ڈاکٹر اسمتھ نے یوں دیا کہ Homosapeien is homoreligious جب سے انسان نے سوچناسیکھا ہے وہ مذہبی ہے ۔
اگر زندگی مذہب میں گزارنی ہے توپھر خدا کے لئے گزارواس لئے کہ قرآن حکیم میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ان سے کہوکہ میری زندگی ،میری موت ،میری ہر شے اللہ کے لئے ہے ۔مگر اہم سوال ہے زندگی کے مقصد کوکیسے سمجھا جاسکے ؟یہ وہ سوال ہے جس کے لئے عمر دی گئی ہے ،زندگی دی گئی ،پہچان دی گئی مگر اس مقصد کو پہنچاننے کے لئے ہم کتنی کوشش کررہے ہیں ؟ دوسرا ہر انسان جبرو اکراہ کا قیدی ہے ۔
ہر انسان اپنے آپ کو کہیں نہ کہیں مجبور پاتاہے بڑے سے بڑے قدآور فراعین ،نمرود،ہامان ،شدادایک معمولی سی بات پر رسوائی اٹھاتے ہیں یہ داستان زندگی ہے یہ ہجروفراق کی داستان ہے ناحق ہم مجبوروں پہ یہ تہمت ہے مختاری کی چاہے ہیں سوآپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا علامہ محمد اقبال کے بقول زندگی دم ِزندگی ،رمِ زندگی ،غم ِزندگی ،سمِ زندگی غمِ رم نہ کر ،سم ِغم نہ کھا،کہ یہی ہے شانِ قلندری انسان کی زندگی میں دم اس کی زندگی کے ڈر کی وجہ سے ہے اور زندگی کے غم انسان کے لئے زہر قاتل ہے ۔
انسان کوزندگی کے خوف کا غم نہیں ہونا چاہئے اور غم کاخوف بھی نہ کرو۔اقبال نے یہ بھی کہا ہے کہ غم کا زہر بھی نہ پیئو۔یہی شان قلدری ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ انسان کو زندگی محض گزارنی نہیں چاہئیے بلکہ بامقصد گزارنی چاہئے ،مگر مقصدایسا ہونا چاہئے جس سے انسانیت کی فلاح ہواور مقصد میں ابدیت ہو۔زندگی میں اتار چڑھاؤ بھی اسی لئے آتے ہیں کہ ہمارے جنون کوسوچ ملے ،فکر کو فہم ملے،بلکہ یہ کائناتی سوچ کاافق مہیا کرتے ہیں ۔
ہمیں چاہئیے کہ اپنی خوشی وغم کے معیارات کا حقیقی معنوں میں جائزہ لیں ۔باقی زندگی کے تلخ حقائق کا سامناکرتے ہوئے کبھی کبھی انسان کو ماضی کے دریچوں کی طرف بھی جھانک لیناچاہئے اس بچپن میں جہاں کوئی غم روزگار نہ تھا اور نہ ہی حسین مستقبل کے خواب ستاتے تھے نہ ہی انجانے خوف کے ڈیرے تھے ۔بقول شاعر چلوپھر ڈھونڈ لیتے ہیں اسی نادان بچپن کو انہی معصوم خوشیوں کو،انہی رنگین لمحوں کو جہاں بس مسکراہٹ تھی ،بہاریں ہی بہاریں تھیں اور اس دنیا کاچہرہ بھی ،بہت سچاسالگتا تھا جہاں غم کا پتہ نہ تھا،جہاں دکھ کی سمجھ نہ تھی آواز اور زندگی کے رشتے کو منیر نیازی نے کیا خوبصورتی سے بیان کیا ہے آواز دے کے دیکھ لوشاید وہ مل ہی جائے ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں توہے

Browse More Urdu Literature Articles