Dastak Darre Jawani - Qist 3 - Article No. 2408

Dastak Darre Jawani - Qist 3

دستک درے جوانی ۔ قسط نمبر3 - تحریر نمبر 2408

انہی دنوں پاکستان ٹیلی ویژن کی تعمیر کا کام شروع ھوا تھا، شاید فروری 1964 میں ایک ماہ میں ٹاور تیار ھو گیا تھا اور نومبر 1964 میں باقاعدہ نشریات شروع ھو گئیں تھیں

Arif Chishti عارف چشتی منگل 4 اگست 2020

کورس کی کتابوں کے ساتھ ساتھ اب دیگر کتب اور رسائل کے مطالعہ کا شوق بھی پڑتا جا رھا تھا، کیونکہ کالج کی لائبریری میں اردو ادب کا ایک ذخیرہ موجود تھا. سب سے پہلے نسیم حجازی صاحب کی ضخیم کتابوں' اور تلوار ٹوٹ گئی ' بعد میں 'یوسف بن تاشفین' کا مطالعہ کیا. پہلی کتاب دو سالوں میں دو دفعہ مطالعہ کی. اسکے علاوہ پریم چند کی عوامی ادب کی کتابوں کا بھی مطالعہ کیا، جن میں 'بتیسی' خاص طور پر قابل ذکر ھے.
افسانہ 'غم نہ داری بز بخر' اور' گلی ڈنڈا ' عام دیہاتی زندگی کی عکاسی کرتے ھیں. ڈپٹی نذیر احمد صاحب کی تحریر 'توبہ تنالنصوح ' تو شاید آدھ درجن تک پڑی ھوگی. اسکے علاوہ پطرس بخاری صاحب کا افسانہ 'اوور کوٹ' معاشرے کی کمال عکاسی کرتا ھے. آخری دونوں افسانے تو انٹر میڈیٹ کے کورس میں شامل تھے. اسکے علاوہ اور بھی کئی کتب زیر مطالعہ رھیں تھیں.
مختلف رسالوں اور اخبارات کا مطالعہ بھی کر لیا کرتا تھا.
ان دنوں روزنامہ کوھستان لاھور اور روزنامہ انجام کراچی کا زیادہ مطالعہ کیا جاتا تھا. انتہائی ادبی زبان ھوتی تھی. عدالتی کارروائی کو علیحدہ مقام حاصل تھا. اسکے علاوہ بچوں کے لئے الگ کہانی ھوتی تھی. قتل کے دو مقدمات تو بہت ھی شہرت ملی تھی. کیونکہ انکی تفصیل روزانہ کی سماعت کی کاروائی پر تحریر ھوتی تھی، ایک دلبر خان کے قتل اور دوسری نسیم یعقوب قتل کیس.
کئی سالوں تک اسے باقاعدہ طور پر پڑھتا تھا. ان کیسوں کی روداد اب بھی ذھن نشین ھے. ان دنوں اردو کا اخبار 'کوھستان' اور انگلش کا' پاکستان ٹائمز' اخبار روزانہ آتا تھا. دن میں جب بھی وقت ملتا مطالعہ کر لیتا تھا.
ایک اور شوق بھی زندگی میں نتھی ھو گیا تھا وہ فوٹو گرافی تھا. ایک عام سا کیمرہ فضل الرحمن کے ھمراہ جا کر انارکلی سے سوا آٹھ روپے میں خریدا ساتھ انور گھڑی ساز تھا، اس نے بہتر روپے میں ایک خوبصورت کیمی گھڑی دلوائی.
اس وقت کیمرے کی ریل میں صرف آٹھ تصاویر ھوتی تھیں اور عام سے کیمرے میں لائٹ پڑھنے سے تصاویر ضائع ھو جاتی تھیں. پگزلز کا تصور نہ تھا، بس چہرے مہرے پہچان میں آ جاتے تھے. اس کیمرے سے کھینچی ھوئی تصاویر کے نیگیٹو اور پرنٹس آج بھی آرکائیو میں محفوظ ھیں.فضل الرحمن حقیقی لنگوٹیا تھا، کیونکہ ھم بوقت ضرورت ایک دوسرے کے کپڑے بھی بدل کر پہن لیتے تھے.اب تو کچھ کچھ ھوتا ھے، کی راز کی باتیں بھی پہلے فضل الرحمن اور پھر کالج میں مجاھد مرزا سے ھوتی رھتی تھی.
وہ اپنی کہانیاں میرے علم میں لاتے تھے. دادی اماں بس یہی نصیحتیں کرتی تھیں، کہ اب محلے میں کسی کے گھر نہ جایا کرو، کیونکہ انکی بچیاں جوان ھو رھی ھیں. لیکن میں کیا کرتا اگر وہ خط لکھوانے یا پڑھانے کے لئے منتیں کرکے بلا لیتے تھے. ایک تو والدہ صاحبہ سے قرآن مجید کی تلاوت سیکھ رھی تھی، وہ تو میرے گلے ھی پڑ گئی تھی. لیکن اپنے میں ابھی کوئی ایسی رقم نہ تھی کہ ایسی باتوں کی طرف دھیان دیتا.
کھوئے کی قلفیاں اور پھل فروٹ اس نے کافی کھلائے اور جو کوئی ڈرائنگ میں میرے پاس موجود ھوتا، وہ مستفید ھوتا تھا. فضل الرحمن نے محلے کی ایک خشک ترین لڑکی سے لگائو کا اظہار کیا، اسکا ایک بھائی ڈاکٹر تھا اور امریکہ جا چکا تھا، اسکے خیالات ھی ھوائی تھے، شکل و صورت تو بس ایسی ھی تھی، لیکن نخرے آسمانی تھے. خیر یکطرفہ محبت تھی کیونکہ میرا انکے گھر والوں سے زیادہ رابطہ تھا اور سب ھی تعلیم یافتہ محلے داروں کو پسند کرتے تھے.
انکو جب بھی کسی قسم کا مسئلہ درپیش ھوتا وہ مجھ سے مشاورت اور معاونت حاصل کرتے تھے. مجاھد مرزا اپنے کسی دور کے راشتہ دار کی لڑکی کو چاھتا تھا، وہ بھی چاھتی تھی، لیکن کچھ پرانے خاندانی جھگڑوں کی وجہ سے اس کا دادا جانی دشمن بنا ھوا تھا. خیر کچھ کچھ ھوتا ھے کے قصے جاری و ساری رھے.
وقت کے ساتھ ساتھ انکا ذکر آتا رھے گا.انہی دنوں پاکستان ٹیلی ویژن کی تعمیر کا کام شروع ھوا تھا، شاید فروری 1964 میں ایک ماہ میں ٹاور تیار ھو گیا تھا اور نومبر 1964 میں باقاعدہ نشریات شروع ھو گئیں تھیں.
شروع شروع میں زیادہ تر لائیو پروگرام ھی ھوتے تھے، لیکن تمام اخلاقی اقدار اور ادب کو ملحوظ خاطر رکھ کر پروگرام آن آئیر جاتے تھے، تاکہ پورا خاندان بیٹھ کر محظوظ ھو. محلے میں آنٹی مقصودہ کے گھر ھی بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی آیا تھا. لیکن وہ محلے میں کسی سے نہیں ملتے تھے. صرف مجھ سے یا میرے بھائیوں سے انکی انسیت تھی اور جب تک ھمارے ھاں ٹی وی نہیں آیا تھا، انکے ڈرائینگ روم میں کوئی خاص پروگرام دیکھ لیتے تھے.
امریکی صدر کینیڈی کے قتل کے بعد نائب صدر لینڈن بی جانسن الیکشن تک کے لئے عبوری صدر بن گئے تھے.
انکا ایجنڈا بھی پاکستان کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنا تھا. ان سے متعلق پاکستانی قوم کو مٹھی میں لینے کا ایک واقعہ ضرور پیش خدمت ھے. پاکستان کے دورے کے دوران کراچی کی مشہور شاہراہ سے جب انکو سرکاری رھائش گاہ لایا جا رھا تھا، تو اچانک ایک شتر بان بشیر انکی گاڑی کے سامنے آگیا. وہ گاڑی سے اترے بشیر شتر بان سے ھاتھ ملایا اور اس کو سرکاری خرچ پر امریکہ آنے کی دعوت دے دی.
اسکی تصاویر آرکائیو میں مل سکتی ھیں. کچھ عرصہ بعد بشیر شتر بان امریکہ گیا اور اسکو کافی تحائف اور ایک عدد ٹرک بھی تحفہ میں دیا گیا. یہ ایک چال تھی یا ھمدردی البتہ بشیر شتر بان امریکہ میں پاکستان کی پہچان بن گیا تھا. انہی دنوں ایک بڑا دلچسپ واقعہ پیش آگیا میں چچا صاحب اور چچی صاحبہ کے ھمراہ تاندلیاں والہ ٹرین راوی ایکسپریس پر جا رھے تھے.
قد چھوٹا ھونے کی وجہ سے میری آدھی ٹکٹ لی گئی تھی. میں انگلش اخبار پاکستان ٹائمز ساتھ لے گیا تھا اور دوران سفر پڑھ رھا تھا کہ چیکر صاحب تشریف لے آئے اور اعتراض کیا کہ اس بچے کی آدھی ٹکٹ کیوں لی. یہ تو انگلش اخبار پر رھا ھے. میں نے برجستہ جواب دیا کہ میں تو تصاویر دیکھ رھا ھوں. وہ مسکرایا اور یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا، بچہ کافی سیانہ لگتا ھے.
پیار محبت کی داستانیں کیا سنائیں آج کوئی یقین ھی نہیں کر سکتا.
جیسے ھی رات ساڑھے نو بجے راوی ایکسپریس تاندلیاں والہ پہنچتی برادری کے آدھی درجن سے بھی زیادہ گھرانوں کو علم ھو جاتا تھا. نانا اسحاق صاحب و ماموں منظور صاحب یا پھر بابا جی رمضان صاحب و چچا منیر کے ھاں ٹھہرائو ھوتا تھا. البتہ چچا غنی صاحب جب لاھور سے وھاں شفٹ ھو گئے تھے، تو انکے گھر ھی ٹھہرائو ھوتا تھا. پہنچنے سے پہلے ھی فیصلہ ھو چکا ھوتا تھا، کہ بریک فاسٹ کس کے گھر، لنچ کس کے گھر اور ڈنر کس کے گھر ھونا ھوتا تھا.
اگر کسی کے گھر بدقسمتی سے مجبوراً ناغہ ھو جاتا تو وہ ناراض ھو جاتا تھا. ایک دو دفعہ تو چھٹی بھی بڑھانا پڑ گئی تھی. وہ دور انسانوں سے محبت کی معراج تھا جو اب خواب سے کم نہیں لگتا.
ھمارا گھرانہ عموماً ایک پڑھا لکھا دینی گھرانہ مشہور تھا. گھر کے تمام بڑے نمازی تھے. زیادہ تر گھر پر ھی نمازیں ادا کرتے تھے، لیکن میں اور فضل الرحمن زیادہ تر مسجد ھی جا کر نمازیں ادا کرتے تھے.
روزے بھی باقاعدہ رکھے جاتے تھے. چچا صاحب نے ایک فیلکو کا ریڈیو لا کر دیا تھا. اس لئے موسیقی سے بھی کافی لگائو بڑھ رھا تھا. ریڈیو پاکستان، آل انڈیا ریڈیو اور سیلون ریڈیو کے تمام موسیقی کے پروگرام ازبر ھوچکے تھے. والد صاحب سے ڈانٹ تو پڑتی تھی، لیکن دادی اماں بہت بڑی دیفنڈر تھیں بس شوق پورے ھو ھی جاتے تھے.
مجاھد مرزا میکلوڈ روڈ رھتا تھا وہ بھی فلمیں دیکھنے کا بہت شوقین تھا، لیکن میں ڈر و خوف کی وجہ سے ابھی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکا تھا، کیونکہ میرے آنے جانے کی ٹائمنگ پر والد صاحب اور چچا صاحب کی نظر ھوتی تھی.
سٹیسٹکس اور اکنامکس کے پیرئڈ سب سے آخر میں ھوتے تھے اور پراکسی کے مواقع بہت تھے. اسلئے مجاھد مرزا، الیاس، رشید بٹر اور عزیز کو اعتماد میں لیکر پراکسی کا کہہ دیتا تھا ، اور کالج کے قریب گوالمنڈی میں واقعہ رٹز سینما میں چھ آنے یا چالیس پیسوں میں ایک ٹکٹ دو مزے کے تحت کیرون میتھیو کی انگلش فلم' جیک دی جینٹ کلر' اور ایک اور انگلش فلم سمندری بلا دیکھی.
دو مزوں میں کاٹ چھانٹ بہت ھوتی تھی. بعض اوقات سٹوری کا تسلسل سمجھ نہیں آتا تھا. فلمیں دیکھ کر گھر وقت پر پہنچ جاتے تھے، اسلئے کسی کو معلوم ھی نہ سکتا تھا کہ میں نے ڈنڈی مارنا شروع کر دی ھے. اگلے دن الیاس، رشید بٹر اور عزیز سے معلوم ھو جاتا تھا، کہ کل کے لیکچرز میں کیا پڑھایا گیا تھا. اسی طرح اگر ان میں کوئی جاتا، تو میں آوازیں بدل کر پراکسی لگاتا تھا.
مجاھد مرزا کا فضل الرحمن سے ٹھیک ٹھاک تعارف ھو چکا تھا، اسلئے اسے بھی پہلے مطلع کر دیتے تھے کہ فلاں سینمے پہنچ جانا تاکہ اکٹھے فلم دیکھ سکیں گے.
پڑھائی میں ھمارا دوستوں کا گروپ ٹاپ پر تھا. تمام دوستوں نے اچھے نمبروں سے انٹر میڈیٹ پارٹ ون میں کامیابی حاصل کرلی تھی. میں نے تو سکول کی طرح کالج میں بھی آدھی فیس معاف کر والی تھی. اب سارا خرچہ چچا صاحب ھی اٹھا رھے تھے.
اس وقت دس روپے انعامی بانڈ انہوں نے خرید رکھے تھے، جسکا سارا ریکارڈ میرے پاس ھوتا تھا. جب بھی ماھانہ کسی بانڈ پر انعام نکلتا، مجھے دس روپے علیحدہ مل جایا کرتے تھے. اسلئے شوق بھی پورے ھو رھے تھے.ایک دن ایک پولیس اہلکار گھر پر آیا اور چچا صاحب سے ملنے کی بات کی. وہ دفتر گئے ھوئے تھے اسلئے اس نے کہا کہ انکی جو سائیکل چوری ھوئی تھی، وہ ایک دودھ فروش سے مل گئی ھے اسلئے اسی ھفتے عدالتی وقت میں آکر سیشن کورٹ کے جج سے مل لیں.
میں بہت خوش تھا کہ اب بسوں میں دھکے کھانے سے جان چھوٹ جائے گی. انکی ریلے سائیکل جب انکے دفتر نابھہ روڈ لاھور سے چوری ھوئی تھی، تو برینڈ نیو تھی. جب کورٹ جا کر شناخت کی، تو حیرت ھوئی کہ وہ اب ایک پنجر تھا. مڈگارد غائب تھے، کیریئر کی بجائے دودھ کی مگیاں لٹکانے کا ایک بڑا فریم ویلڈنگ کرکے فریم کے ساتھ جوڑا ھوا تھا. اصلی پیڈلوں کی بجائے، لکڑی کے پیڈل لگائے ھوئے تھے.
چچا صاحب نے لینے سے انکار کر دیا، لیکن ایف آئی آر کے مطابق نمبر مل رھا تھا. اسلئے جان عذاب میں آگئی کہ ایف آئی آر درج کیوں کروائی تھی. ایک سال تک چچا بھتیجا، چھٹی لیکر کورٹ جاتے رھے. سارا دن ڈاکو چوروں کی شکلیں دیکھ کر خوف آتا تھا. ساری خوشی رفو چکر ھو چکی تھی. قصہ کوتاہ چچا صاحب نے سفارش ڈھونڈ کر اس مصیبت سے جان چھڑوائی. کٹھارا سائیکل تو مل گئی لیکن چلانے کے قابل نہ تھی.
چچا صاحب نے کسی سناشا کے تعاون سے رستم سہراب فیکٹری سے، اسکے تمام پرزے تبدیل کروائے، رنگ روغن کروایا اور دو ھفتوں کے بعد میں نے سائیکل پر کالج جانا شروع ھو گیا تھا. بس کے دھکوں سے جان چھوٹ گئی تھی. البتہ اتوار کو چھٹی کے دن اسکی دھلائی اور سروس کرتا تھا.
الیاس انتہائی کھلے دل کا انسان تھا اسکا بھائی فوج میں میجر تھا اور وہ اسکے ساتھ پاکفورسز سینما کے قریب سرکاری کوٹھی میں رھتا تھا.
اس نے کہا کہ اگر میں اسکے گھر صبح جلدی آجایا کروں، تو وھاں سے کالج تک اور واپسی تک وہ سائیکل چلایا کرے گا اور میں فریم پر یا پیچھے کیریر پر بیٹھ جایا کروں گا. مسئلہ یہ پیش آ رھا تھا، کہ ڈبل سواری پر تو چالان ھو جاتا ھے. اس نے کہا فکر نہ کرو وہ خود نبٹ لے گا. وہ بالکل نڈر اور چاک چو بند تھا. اب میں اسکے گھر جاتا تھا، وہ ایسے روٹ سے لیکر جاتا تھا، جہاں سنتری بادشاہ کی ڈیوٹی کم ھوتی تھی.
جب کوئی چوک آتا تو میں سائیکل سے اتر کر پیدل چوک پار لیتا تھا، پھر کالج تک اور واپسی تک سفر جاری رھتا تھا. بہت یادگار دن تھے اب یقین نہیں آتا.
ایک دن الیاس کا کالج سے واپسی پر موڈ بنا کہ مال روڈ سے واپسی ھو. میں نے تحفظات کا اظہار کیا، لیکن وہ مصر رھا کہ فکر نہ کرو. عین چڑیا گھر کے سامنے سنتری بادشاہ نے پکڑ لیا اور چالان کرنے پر زور دیتا رھا.
الیاس نے اپنے بھائی کے بارے میں بتایا تو اس نے کہا کہ دو روپے دے دو تو نہ چالان ھوگا نہ ھی سائیکل کے ٹائروں سے ھوا نکالوں گا. اس وقت چڑیا گھر کے اندر جانے کے لئے ایک منی بازار سے گزر کر جانا پڑتا تھا، جہاں کافی کھانے پینے اور پان سگریٹ کی دوکانیں ھوا کرتی تھیں. سنتری بادشاہ نے دور سے ھی اشارہ کیا کہ شیدا پان والے کو دو روپے دے دینا.
اسکی دوکان پر پہنچ اسکو دیکھنے کا اشارہ کرنا وہ اسکو ھاتھ کے اشارے سے سمجھا دے گا. اس وقت ھمارے پاس صرف ایک روپیہ تھا. الیاس نے مجھے تلقین کہ تم اب خاموش رھنا اور زبان بند رکھنا. ھم شیدے پان والے کے پاس پہنچے، تو الیاس نے اس سے کہا کہ سنتری بادشاہ نے کہا ھے کہ شیدے پان والے سے دو روپے لے لو. میری تو سٹی گم ھو گئی کہ الیاس یہ کیا حرکت کر رھا تھا .
شیدے پان والے نے جب دوکان سے باھر جھانک کر دیکھا تو سنتری بادشاہ نے دو انگلیاں کھڑی کرکے اشارہ کیا. الیاس نے کہا اسکو ھم نے پانچ روپے دیئے ہیں اور اس نے کہا ھے، شیدے پان والے سے دو روپے لے لینا کیونکہ اس کے پاس کھلے پیسے نہیں تھے. پان والے نے دو روپے الیاس کو دیئے اور ھم اب چڑیا گھر کے پچھواڑے سے سائیکل کو اٹھا کر لارنس روڈ پر سے ھوتے ھویئے، گھر پہنچے. میں نے الیاس سے پوچھا، یار تم نے یہ حرکت کی دو روپے دینے کی بجائے، الٹے دو روپے لے لئے. اگر پکڑے جاتے تو بڑا مسئلہ ھو جاتا. الیاس نے کہا ابھی تو اور بھی بہت کچھ سیکھنا باقی ھے. پھر دو ماہ تک ھم نے مال روڈ کا رخ ھی نہ کیا، تاکہ سنتری بادشاہ سے ٹکراؤ نہ ھو سکے�

(جاری ہے)

�جاری ہے

Browse More Urdu Literature Articles