Do Parathay - Article No. 1441

Do Parathay

دو پراٹھے - تحریر نمبر 1441

ابونصرالصیاد نامی ایک شخص، اپنی بیوی اور ایک بچے کے ساتھ غربت وافلاس کی زندگی بسر کررہا تھا۔ ایک دن وہ اپنی بیوی اور بچے کو بھوک سے نڈھال اور ہلکتا روتا گھر میں چھوڑ کر خود غموں سے چور کہیں جارہا تھا کہ راہ چلتے اس کا سامنا ایک عالم دین احمد بن مسکین سے ہوا،

جمعہ 18 اگست 2017

ابونصرالصیاد نامی ایک شخص، اپنی بیوی اور ایک بچے کے ساتھ غربت وافلاس کی زندگی بسر کررہا تھا۔ ایک دن وہ اپنی بیوی اور بچے کو بھوک سے نڈھال اور ہلکتا روتا گھر میں چھوڑ کر خود غموں سے چور کہیں جارہا تھا کہ راہ چلتے اس کا سامنا ایک عالم دین احمد بن مسکین سے ہوا،جسے دیکھتے ہی ابونصر نے کہا:اے شیخ میں دُکھوں کا مارا ہوں ا ور غموں سے تھک گیا ہوں۔

شیخ نے کہا: میرے پیچھے چلے آؤ، ہم دونوں سمندر پر چلتے ہیں۔سمندرپر پہنچ کر شیخ صاحب نے اُسے دورکعت نفل نماز پڑھنے کو کہا، نماز پڑھ چکا تو اُسے ایک جال دیتے ہوئے کہا، اسے بسم اللہ پڑھ کر سمندر میں پھینکو۔ جال میں پہلی بار ہی ایک بڑی ساری عظیم الشان مچھلی پھنس کر باہر آگئی۔ شیخ صاحب نے ابو نصر سے کہا،اس مچھلی کو جاکر فروخت کرو اور حاصل ہونے والے پیسوں سے اپنے اہل خانہ کیلئے کچھ کھانے پینے کا سامان خرید لینا۔

(جاری ہے)


ابونصر نے شہر جا کر مچھلی فروخت کی، حاصل ہونے والے پیسوں سے ایک قیمے والا اور میٹھا پراٹھا خریدا اور سیدھا شیخ احمد بن مسکین کے پاس گیا اور اسے کہا کہ حضرت ان پراٹھوں میں سے کچھ لینا قبول کیجئے۔ شیخ صاحب نے کہا، اگر تم نے اپنے کھانے کیلئے جال پھینکا ہوتا تو کسی مچھلی نے نہیں پھنسنا تھا، میں نے تمہارے ساتھ نیکی گو اپنی بھلائی کیلئے کی تھی ناکہ کسی اُجرت کیلئے۔
تم یہ پڑاٹھے لے کر جاؤ اوراپنے اہل خانہ کو کھلاؤ۔
ابو نصر پراٹھے لئے خوشی خوشی اپنے گھر کی طرف جارہا تھا کہ اُس نے راستے میں بھوکوں ماری ایک عورت کو دیکھا جس کے پاس ہی اُس کا بے حال بیٹا بھی تھا۔ ابونصر نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے پراٹھوں کو دیکھا اور اپنے آپ سے کہا کہ اس عورت اور اس کے بچے اور اُس کے اپنے بچے اور بیوی میں کیا فرق ہے،معاملہ تو ایک جیسا ہے وہ بھی بھوکے ہیں اور یہ بھی بھوکے ہیں۔
پراٹھے کن کودے؟ عورت کی آنکھوں کی طرف دیکھا تو اس کے بہتے آنسو نہ دیکھ سکا اور اپنا سر جھکا لیا۔ پراٹھے عورت کی طرف بڑھا تے ہوئے کہا، یہ لو، خود بھی کھاؤ اور اپنے بیٹے کو بھی کھلاؤ۔ عورت کے چہرے پر خوشی اور اُس کے بیٹے کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ ابو نصر غمگین دل لئے واپس اپنے گھر کی طرف یہ سوچتے ہوئے چل دیا کہ اپنے بھوکے بیوی بیٹے کا کیسے سامنا کرے گا۔

گھرجاتے ہوئے راستے میں اُس نے ایک منادی والا دیکھا جو کہہ رہا تھا:ہے کوئی جو اُسے ابو نصر سے ملادے۔ لوگوں نے منادی والے سے کہا، یہ دیکھو تو، یہی تو ہے ابونصر۔ اُس نے ابونصر ست کہا: تیرے باپ نے میرے پاس آج سے بیس سال پہلے تیس ہزرادرہم امانت رکھے تھے مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ ان پیسوں کا کرنا کیا ہے۔ جب سے تیرا والد فوت ہوا ہے میں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں کہ کوئی میری ملاقات تجھ سے کرادے۔
آج میں نے تمہیں پاہی لیا ہے تو یہ لو تیس ہزار درہم ، یہ تیرے باپ کا مال ہے۔
ابو نصر کہتا ہے: میں بیٹھے بٹھائے امیر ہوگیا۔ میرے کئی کئی گھر بنے اور میری تجارت پھیلتی چلی گئی۔ میں نے کبھی بھی اللہ کے نام پر دینے میں کنجوسی نہ کی، ایک ہی بار میں شکرانے کے طور ہر ہزار ہزار درہم صدقہ دے دیا کرتا تھا۔ مجھے اپنے آپ پر رشک آتا تھا کہ کیسے فراخدلی سے صدقہ خیرات کرنے والا بن گیا ہوں۔
ایک بار میں نے خواب دیکھا کہ حساب کتاب کا دن آن پہنچا ہے اور میدان می ترازو نصب کردیا گیا ہے۔ مناوی کرنے والے نے آواز دی ابو نصر کا لایا جائے اور اُس کے گناہ ثواب تولے جائیں ۔ کہتا ہے:پلڑے میں ایک طرف میری نیکیاں اور دوسری طرف میرے گناہ رکھے گئے تو گناہوں کا پلڑا بھاری تھا۔ میں نے پوچھا آخر کہاں گئے ہیں میرے صدقات جو میں اللہ کی راہ میں دیتا رہا تھا؟ تولنے والوں نے میرے صدقات نیکیوں کے پلڑے میں رکھ دیئے۔
ہر ہزار ہزار درہم کے صدقہ کے نیچے نفس کی شہوت ، میری خودنمائی کی خواہش اور ریاکاری کا ملمع چڑھا ہوا تھا جس نے ان صدقات کو روئی سے بھی زیادہ ہلکا بنا دیا تھا۔ میرے گناہوں کا پلڑا ابھی بھی بھاری تھا ۔ میں روپڑا اور کہا، ہائے رے میری نجات کیسے ہوگی؟
مناوی والے نے میری بات کو سُنا تو پھر پوچھا:ہے کوئی باقی اس کا عمل تو لے آؤ۔
میں نے سُنا ایک فرشتہ کہہ رہا تھا ہاں اس کے دیئے ہوئے دو پڑاٹھے ہیں جو ابھی تک میزان میں نہیں رکھے گئے ۔
وہ دو پراٹھے ترازو پر رکھے گئے تو نیکیوں کا پلڑا اُٹھا ضرور مگر نہ تو برابر تھا اور نہ ہی زیادہ۔ مُناوی کرنے والے نے پھر پوچھا: ہے کچھ اس کا اور کوئی عمل؟فرشتے نے جواب دیا: ہاں اس کیلئے ابھی کچھ باقی ہے۔ مناوی نے پوچھا: وہ کیا؟کہا: اُس عورت کے آنسو جسے اس نے اپنے دو پراٹھے دیئے تھے۔ عورت کے آنسو نیکیوں کے پلڑے میں ڈالے گئے جن کے پہاڑ جیسے وزن نے ترازو کے نیکیوں والے پلڑے کو گناہوں کے پلڑے کے برابر لا کھڑا کردیا ۔
ابو نصر کہتا ہے میرا دل خوش ہوا کہ اب نجات ہوجائے گی۔
مناوی نے پوچھا: ہے کوئی کچھ اور باقی عمل اس کا؟فرشتے نے کہا:ہاں،ابھی اس بچے کی مُسکراہٹ کو پلڑے میں رکھنا باقی ہے جو پراٹھے لیتے ہوئے اس کے چہرے پر آئی تھی۔ مسکراہٹ کیا پلڑے میں رکھی گئی نیکیوں والا پلڑا بھاری سے بھاری ہوتا چلا گیا۔ مناوی کرنے والا بول اٹھا یہ شخض نجات پاگیا ہے۔ ابونصر کہتا ہے:میری نیند سے آنکھ کھل گئی ۔ میں نے اپنے آپ سے کہا: اگر میں نے اپنے کھانے کیلئے جال پھینکا ہوتا تو کسی مچھلی نے نہیں پھنسنا تھا اور اپنے کھانے کیلئے پراٹے خریدے ہوتے تو آج نجات بھی نہیں ہونی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles