Domeli - Last Part - Article No. 2112

Domeli - Last Part

ڈومیلی - آخری قسط - تحریر نمبر 2112

کشمیر کی حدود کا تجزیہ کیا جائے تو یہ کشمیر کا خوبصورت صحن دریائے چنا ب اور دریائے سندھ کا درمیانی علاقے ہے ۔ کالی دھار چومکھ سے شروع ہو کر بانہال کے سلسلہ کوہ سے ملتا ہے

Anwaar Ayub Raja انوار ایوب راجہ جمعرات 1 اگست 2019

کوہستان نمک میں واقع ٹلا جوگیاں کے آثار پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ سکندر کے حملے سے پہلے یہ پہاڑ آباد تھے اور انہیں مذہبی مراکز کا درجہ حاصل تھا۔ مندروں اور دیگر عبادت گاہوں کے خدوخال سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی زیادہ تعداد ہندو دور کی ہے ۔ ٹلہ جوگیاں اور کوہستان نمک جہلم کی حدود میں اور ترکی کے سلسلہ کوہ سے ملحق ہیں ۔ شمال اور شمال مشرق میں دریائے جہلم اور سلسلہ کوہ کالی دھار دریائے جہلم اور دریائے پونچھ کے سنگم سے لیکر اکھنو ر تک چلا جاتا ہے ۔
یہی سلسلہ آگے چلکر بانہال سے جاملتا ہے ۔ جسٹس یوسف صراف نے ’’ کشمیر ی فائٹ فار فریڈم ‘‘ کے ابتدائیے میں لکھا ہے کہ کشمیر ایک کشمیر المنزلہ پر شوکت عمار ت ہے جس کا صحن پنجاب ہے۔
کشمیر کی حدود کا تجزیہ کیا جائے تو یہ کشمیر کا خوبصورت صحن دریائے چنا ب اور دریائے سندھ کا درمیانی علاقے ہے ۔

(جاری ہے)

کالی دھار چومکھ سے شروع ہو کر بانہال کے سلسلہ کوہ سے ملتا ہے اور دریائے جہلم منگلا اور جہلم کی حدود تک اس صحن کو سیراب کرتا ہے ۔

چناب اور سندھ دریاؤں کا درمیانی علاقہ گکھڑ لینڈ پر مشتمل ہے اور یہ قوم تمام تر معلوم تاریخی حوالوں سے قدیم دور سے اسی علاقہ میں آباد چلی آرہی ہے۔ کشمیر اور موجودہ پاکستان اور افغانستان میں جو گکھڑ اور ککڑ یا پھر ککڑو قبیلے آباد ہیں اُ ن کا خروج اسی علاقہ سے ہوا جس کی وجہ باہمی انتشار اور پے در پے جنگوں اور بغاوتوں کا نتیجہ ہے۔ گکھڑوں کی اپنی تایخ میں لکھا ہے کہ وہ ایرانی النسل ہیں اور تخت کیان کے اصل وارث ہیں۔
گکھڑوں کے اس بیان کی مستند تاریخوں میں کوئی ٹھوس مثال موجود نہیں۔ بعض تاریخ دانوں نے گکھڑ وں کے روائیتی بیانات قلمبند کیے اور بہت سوں نے تحقیق کے بعد اُسے رد کر دیا ہے۔
لیپل گریفن ، سٹائن ، مورکرافٹ ، لارنس اور دیگر نے ایسے بیانات کو قصے کہانیاں اور داستانیں قرار دیا ہے۔ تاہم جہاں ان کہانیوں کا زمینی حقائق سے ملاپ ہوتا ہے اسے سچ تسلیم کیا جانا قدرتی امر ہے۔

گکھڑوں کا دعویٰ ہے کہ ایران سے ایک جری و جفاکش شہزادہ تبت گیا اور وہاں ایک خوبرو شہزادی سے شادی کر لی۔ کیانی شہزادے کی سات پشتوں نے تبت پر حکمرانی کی اور پھر کشمیرپر حملہ آور ہو کر تیرہ پشتوں تک کشمیر اور تبت پرحکمران رہے ۔ گکھڑ تاریخ کے مطابق منور خان پہلا کشمیری کیانی بادشاہ ہوا اور رستم خان آخری بادشاہ تھا جس کا زمانہ اقتدار 898 ؁ء بیان ہوا ہے۔
رستم خان کے زمانہ میں کشمیریوں نے بغاوت کی اور اسے قتل کر دیا ۔رستم خان کا بیٹا سلطان قابل خان بھاگ کر غزنی چلا گیا اور سلطان سبکتیگن کے دربار میں پناہ حاصل کی۔
لیپل گریفن نے اس کہانی کو بے بنیاد قرار دیا ہے چونکہ جن گکھڑ بادشاہوں کے نام لکھے گئے ہیں وہ کبھی بھی کشمیر کے حکمران نہیں رہے۔ کشمیر کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں گکھڑوں کی حکمرانی کا کوئی ثبوت نہیں اور نہ ہی پنڈت کلہن نے کسی گکھڑ عہد کا ذکر کیا ہے۔
کشمیر کا پہلا حکمران راجہ گوندتھا اور پہلا مسلمان حکمران صدرالدین رنچن شاہ تھا۔ دونوں کا تعلق تبت سے ہی تھا مگر وہ گکھڑ نہ تھے۔
شاہ میر کا تعلق ترکستان تھا جس کے خاندان نے دو سو سال سے زیادہ عرصہ تک کشمیر پر حکمرانی کی ۔شاہ میری دور میں مسلمان مبلغین کشمیر آئے اور اس خط حسن و جمال کو نور اسلام کی روشنی سے منور کیا۔ حضر ت جلاالدین بخاری ؒ ، سید تاج الدین سمنانی ، حسین سمنانی ، امیر کبیر میر سید علی ہمدانی المعروف شاہ ہمدان سات سو صوفیاء اور دو ہزار دستکاروں کے ہمراہ کشمیر آئے ۔
للۂ عارفہ شاہ ہمدان کی مرید تھی ۔میر شمس الدین عراقی اور دیگر فقراء ، علماء اور دستکار اسی دور میں آئے ۔ شاہ میر کی اولاد سے ہی سکندر بت شکن ہوا جس کے دو بیٹوں زین العابدین بڈشاہ اور سلطان علی شاہ میں اقتدار کی جنگ ہوئی۔زین العابدین بڈھ شاہ اور سلطان علی شاہ میں اقتدار کی جنگ شروع ہوئی تو شاہی خان (بڈشاہ ) نے جسرت گکھڑسے مدد مانگی ۔
دونوں بھائیوں میں خونیریر جنگ ہوئی اور شاہی خان نے علی شاہ کو گرفتار کر کے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ یہی وہ واحد موقع ہے جب جسرت گکھڑ کشمیر میں داخل ہوا۔ اس دور میں بڈشاہ نے جسرت گکھڑ کو بھمبر اور میرپور کی جاگیریں عطا کیں اور فوج رکھنے کی اجازت بھی دی ۔ میرپو راوربھمبر کے بعد گکھڑوں نے گجرات تک توسیع کی اور چناب سے سندھ تک کے علاقے پر تیسری بار قابض ہوئے۔

تاریخ میں ایسا کوئی ثبوت نہیں کہ گکھڑ کبھی کشمیر کے حکمران رہے ہوں۔ یہ بات درست ہے کہ وہ کشمیری رہنماؤں سے دوستانہ تعلق رکھتے تھے اور کسی ایک کی حمائت میں دوسرے کے خلاف قتل و غارت میں شمولیت اختیار کرتے اور تباہی کا باعث بنتے تھے۔
جسرت او رشیخاگکھڑ دو عظیم جنگجو اس قوم کے ھیرو ہیں ۔ جسرت امیر تیمور کے خلاف جنگ میں مار ا گیا۔
گکھڑ ایک بہادر ، جفاکش ،جوانمرد ،مدبر اور زمانہ ساز تشخص کی حامل قوم رہی ہے۔ قبول اسلام سے پہلے وہ بحالت کفر مسلمانوں کے بد ترین دشمن تھے۔ گکھڑوں نے اپنے علاقہ اثر میں جنجوعہ ، اعوان ، گجر اور دیگر اقوام کو ہمیشہ کمتر سمجھا اور انہیں کبھی ابھرنے نہ دیا۔ گکھڑ آپس میں بھی صف آرا رہتے اور خونیریز لڑائیاں لڑتے۔ گکھڑوں نے اپنے ہی مخالف ہم نسلوں کے کئی گاؤں اور قلعے جلا کر راکھ کیے اور انہیں علاقہ بدر کیا۔

محمد دین فوق کے مطابق آپس میں اُلجھے رہنے کے باوجود یہ لوگ بیرونی حملہ آوروں کے خلاف یکدم اتحاد کر لیتے اور کسی ایک کی رہنمائی میں جنگ لڑتے ۔ گکھڑوں نے جن کشمیری حکمرانوں کا ذکر کیا ہے اُس دور میں ہندو راجگان کشمیر کے حکمران تھے۔ تاریخ کی سبھی مستند کتابوں میں گکھڑوں کو راجگان ہند ہی لکھا گیا ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی گکھڑوں کی رسمیں ہندوانہ تھیں۔
عورتیں منگل سور ترپہنتی تھیں اور ماتھے پر سندور لگاتی تھیں۔ گکھڑ اپنے قبیلے سے باہر شادی بیاہ نہ کرتے تھے اور نہ بیواؤں کو دوسری شادی کی اجازت تھی۔ گکھڑ کی ایک بیٹی نور الدین محمد جہانگیر کے نکاح میں تھی ۔ اکبر نے یہ شادی گکھڑوں سے دوستانہ تعلقات بحال رکھنے کے لیے کی۔ اسی طرح غازی چک نے سکردو ، گلگت اور ہزاہ پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد میرپور اور بھمبر پر یلغار کی۔
اس سے پہلے کہ وہ گکھڑوں کے علاقے میں پیش قدمی کرتا راجہ کمال خان گکھڑنے اطاعت قبول کر لی اور غازی چک سے دوستانہ تعلقات بحال رکھے ۔ کمال گکھڑ نے اپنی بیٹی غازی چک کے نکاح میں دی مگر ہمایوں کے انتقال کے بعد ابوالمعالی نے کشمیر پر لشکر کشی کی تو کمال گکھڑ نے اپنے داماد غازی چک کے خلاف مغلوں کی مدد کی مگر شکست کھا گئے۔
شیر شاہ سوری کے عہد میں گکھڑوں کی قوت منتشر ہوگئی ۔
اسلام شاہ کے عہد میں ڈومیلی کے علاقہ میں نیازیوں اور سوریوں میں خونریز جنگ ہوئی مگر گکھڑوں نے نیازیوں کا ساتھ نہ دیا ۔ سردار عیٰسی خان اور ہیبت خان نیازی شکست کھا کرمیدان سے بھاگ گئے ۔ہیبت خان اور اُس کی بیگم رابعہ بی بی میرپور اور کوٹلی کے درمیانی علاقہ میں راجپوتوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
احمد شاہ ابدالی نے پانی پت کی جنگ کے بعد لاہور میں قیام کیا ۔
1765 ؁ء میں ابدالی نے لاہور سے کوچ کیا تو سردار گوجر سنگھ بھنگی لاہور کا مطلق العنا ن حکمران بن گیا ۔ مقرب خان گکھڑ کو بھنگی نے خون ریز لڑائی کے بعد شکست دی تو گکھڑوں کا اتحاد بکھر گیا ۔گکھڑوں کی باہمی چپقلش کی وجہ سے انہیں ہر جگہ ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ۔ گکھڑوں کے شہر راولپنڈی پر بھی قبضہ ہوا اور ملکھا سنگھ راولپنڈی کاحکمران بن گیا۔

احمد شاہ ابدالی کے بعد سکھوں نے پنجاب سے گکھڑوں کی قوت کا خاتمہ کر دیا ۔ محمدبن فوق کے مطابق دیگر مسلم اقوام کی طرح گکھڑوں کا پانچ سو سالہ رعب و دبدبہ ختم ہو گیا۔ 1826 ؁ء تک گکھڑ ایک معمولی ، عام زمیندار قبیلہ تصور کیا جانے لگا ۔ گکھڑوں کے مشہور سردار سلطان گکھڑ جس کے نام پر قبیلہ مشہور ہوا کے علاوہ سلطان شیخا،جسرت ،بگا،تاتارا، سلطان آدم خان ، سلطان سارنگ خان اور سلطان کمال خان نامور رئیس ہو گزرے ہیں گکھڑوں کا آخری سردار سلطان مقرب خان تھا جس کی حکمرانی گجرات ، بھمبر ، میرپور، جہلم ، روہتاس اور راولپنڈی سے لیکر اٹک تک پھیلی ہوئی تھی۔
گکھڑ قوم کی مشہور شاخیں بگیال، سدھال، سکندرال، سکھال، فیروز وال، نگیا ل اور ہتیال ہیں۔ بوجا خان گکھڑ جہلم ، روہتاس اور ڈومیلی کا خود مختار رئیس تھا۔ بوجا بگیال شاخ کا بانی تھا جس کا قبیلہ آج بھی روہتاس ، ڈومیلی اور گرد ونواح میں آباد ہے ۔ سلطان مقرب خان کا تعلق بھی ڈومیلی سے ہی تھا ۔ شکست خورد ہ ہو کر وہ واپس اسی علاقہ میں آیا اور اپنے اجداد کی طرح اردگرد کے پہاڑوں اور جنگلوں میں بچی کچی سپاہ لیکر روپوش ہو گیا۔

بعض غیر مستند روایات میں ہے کہ مقرب خان اپنی سابقہ ریاست کے آخر ی کونے پر آباد کٹھاڑ کے پہاڑی گاؤں میں آیا جہاں سکھال گکھڑوں کی ایک شاخ آباد تھی۔ بعد کے دور میں یہ لوگ علاقہ کے جاگیر دار بھی رہے مگر اکثریت ان پڑھ اور گوار تھی۔ حاکمیت کے علاوہ ان کا پیشہ سپاہ گری رہا ہے اور یہ لوگ ڈوگرہ اور انگریزی فوج کا حصہ بن کر بہادری سے لڑے۔
ان کی جاگیر میں کوئی سکول یا مدرسہ نہ تھا۔ عام فہم میں عرصہ تک گکھڑ علم دشمن تصور ہوتے تھے۔ نمبرداروں ، جاگیرداروں اور ذیلداروں نے اپنے نام اور عہدوں کی مہریں بنو ا رکھی تھی اور اپنے احکامات ، تعمیلات اور بیانات لکھو ا کر اپنے نام کی مہرثبت کرتے تھے ۔ چوتھائی صدی گزرنے کے بعد اس قبیلے نے علم کی طرف توجہ دی اور پھر خوب نام کمایا۔
یہ لوگ جہاں بھی تھے اوّل و آخر سپاہی ہی تھے۔ جنگیں لڑنا ان کا دائمی پیشہ رہا ہے ۔کٹھاڑ شاخ کے پہلے نامور کرنل راجہ رنگ خان اور کرنل راجہ الف خان دو سگے بھائی تھے۔ جنگ آزادی 1947 ؁ء میں جمعدار (بعد میں بریگیڈئیر ) راجہ دلاور خان مشہور ہستی ہو گزرے ہیں ۔ موجودہ دور میں میرپور سے ہی تعلق رکھنے والے کرنل راجہ عدالت خان مرحوم کا بیٹا بریگیڈئیر راجہ اختر خان اور ان کا داماد کیپٹن (ر) راجہ معرو ف افضل سیکرٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی حکومت پاکستان ہیں۔
کیپٹن (ر) راجہ معروف افضل کا شمار پاکستان کے چند گنے چنے ایماندار اور دبنگ بیور کرٹیس میں ہوتا ہے ۔اسی خاندان کے کچھ لوگ فارن سروس اور دیگر شعبوں سے منسلک ہیں مگر بے نامی کی زندگیاں گزار رہے ہیں ۔ گجروں، جاٹوں ، آرائیوں اور دیگر قبیلوں کی طرح گکھڑوں نے اپنی الگ انجمن بنا رکھی ہے جس کے سالانہ اجلاس بھی ہوتے ہیں ۔ اس انجمن کے تحت انعامات و اعزازات بھی دیے جاتے ہیں ۔
میری ذاتی رائے میں ایسی انجمنیں تنگ نظری اور تنگ ذہنی کا ثبوت ہیں۔ ایسی کا وشیں نظریہ اسلام اور نظریہ پاکستان کی نفی کرتی ہیں۔ قبائلی تعصب، نفرت ، بے حسی ، قبیلہ پروری ، رشوت او رسفارش کی ابتداء ایسی ہی انجمنوں اور سوسائٹیوں کی وجہ سے ہوئی جواَب معاشرتی ناسور بن چکی ہیں۔ مملکت پاکستان اور آزادکشمیر میں چپراسی سے لیکر اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور پٹواری سے لیکر سربراہان حکومت و مملکت تک ہر شخص کسی نہ کسی صورت اس بیماری میں مبتلا ہے۔
جسٹس میز، گورنر جنرل غلا م محمد ، صدر ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو نے اس برائی کی بنیاد رکھی جواَب مضبوط دیوار بن چکی ہے ۔ جسٹس منیر اور غلام محمد کا تعلق ککے زئی برادری سے ہونے کی وجہ سے نظریہ ضرورت نافذ ہو اور ملکی اور عدالتی نظام کا حصہ بن گیا ۔ ایوب خان کے دور میں کسی بھی اعلیٰ عہدے کے لیے میٹرک پاس ہونا کافی سمجھا جاتا تھا ۔
دوسرے نمبر پر ہری پور ہزارہ کا ڈومیسائل یا پھرخٹک پٹھان ہونا بھی اہم کوالیفکیشن تھی۔ جناب بھٹو انجمن آرائیاں کے صدر تھے ۔حالانکہ وہ بھٹیانہ ( جالندھر) کے راجپو ت تھے جو بھٹی قبیلے کی ایک گوت ہے۔ جنرل ضیا الحق کو آرمی چیف بنانے کی ایک وجہ جنرل مرحوم کا آرائیں سپوت ہونا بھی تھا ۔ بھٹو دور میں جنرل ضیاء الحق کے بعد جنرل فیض علی چشتی کا تعلق بھی آرائیں قبیلے سے تھا ۔
کچھ جذباتی اور سادہ لوگ فخر سے کہتے تھے کہ بھٹو کا دورحکومت آرائیں راج ہے ۔ملک کا طاقتو ر وزیراعظم ، فوج کا سپہ سالار اور انتہائی طاقتور کور کمانڈر جنرل چشتی آرائیں قبیلے کے روشن ستارے ہیں۔
پھر عوام نے دیکھا کہ تینوں ستارے اپنے مدارسے نکل کر اقتدار کے آسمان پر ٹکرائے اور ملک برسوں تک اندھیروں میں ڈوبا رہا ۔1947 ؁سے پہلے اگر کسی گکھڑ کو صحت قوم کی تصدیق کی ضرورت ہوتی تو وہ ڈومیلی کے ذیلدار یا پھر خانپور ( ہزارہ ) کے راجہ سے تصدیقی سرٹیفکیٹ (سند) کی درخواست کرتا۔
ڈومیلی کے زیلدار اور خانپور کے راجہ خاندان کے پاس کوئی ایسا قلمی شجرہ تھا جس سے کسی شخص کے گکھڑ یا غیر گکھڑ ہونے کی تصدیق ہوتی تھی۔ اس تصدیق کی ضرورت یہ تھی کہ انگریز سوائے مارشل ریس( جنگجو قبیلے ) کے کسی عام شہری کو فوج میں بھرتی نہ کرتے تھے۔ دوسری وجہ زمینوں کی آلاٹ منٹ اور سول سوسائٹی میں مقام تھا۔ تاریخ پاکستان از سید عبدالقادر جو عرصہ تک پنجاب یونیورسٹی کے نصاب کا حصہ رہی کے مطابق مارشل قبیلوں میں گجر دوسرے اور جاٹ چھٹے نمبر پر تھے ۔
پہلی اور دوسری عالمگیر جنگجو کے دوران انسانی ایندھن کی وافر مقدار میں ضرورت پڑی تو لام بندی کے قانون کے تحت پٹواریوں ، تھانیداروں ، نمبرداروں اور جاگیر داروں کی تصدیق ہی کافی تھی۔
مارشل ریس کی جگہ مارشل ایریا کا تصور سامنے آیا تو ٹھیکیداروں کو بھرتی کا اختیار مل گیا ۔ ٹھیکیدار، نمبرداروں اور ذیلداروں کی مد د سے فوجی بھرتی کرتے تھے اور جوانوں کو جلد از جلد تربیت دیکر محاذ جنگ پر بھجواتے تھے۔
ملٹری گزٹ کے مطابق ضلع راولپنڈی فوجی بھرتی کے لحا ظ سے سارے ہندوستان میں پہلے نمبر پر تھی۔ اضلاع میں پہلا نمبر جہلم ، دوسرا راولپنڈی اور تیسر ا جموں کا تھا۔قبیلوں میں پہلے نمبر پر گکھڑ دوسرے پر ڈوگرے اور تیسرے نمبر پرمرہٹے تھے۔اسی طرح راجپوت قبیلے پہلے نمبر پر پٹھان دوسرے اورہندوجاٹ تیسرے نمبر پر تھے۔
انگریزوں نے جنگجو قبیلوں اور اُن کے علاقوں کی نسبت سے فوجی یونٹوں اور رجمنٹوں کے نام رکھے ۔
جیسے فرنیٹئر فورس ، کشمیر رائفل ، پنجاب رجمنٹ ، بلوچ رجمنٹ ، ڈوگرہ بٹالین ، راجپوتا نہ رائفل ، دی پٹھان رجمنٹ ، مرہٹہ بٹالین ، سکھ رجمنٹ ، جاٹ بٹالین ، گورکھا رجمنٹ اور بعض صیغوں کو مشترکہ نام بھی دیے۔
تاریخ شاہان گجر کے مصنف عبدالمالک صاحب رئیس اکھوڑی نے اپنی تصنیف میں شکوہ کیا ہے کہ گجر قوم جو قدیم دور سے ہندوستان کی حکمران اور سب سے زیادہ جنگجو قوم رہی ہے اس کے نام پر انگریز وں نے کوئی رجمنٹ کھڑی نہ کی اور ہی مارشل ریس میں شامل کیا۔

مارشل ریس کا نظریہ اتنا ہی قدیم ہے جتنی کہ انسانی جنگی تاریخ۔ کسی بھی علاقے ، قوم ، ملک یا قبائل میں ہر شخص نہ تو ہتھیار بندہوتا تھا اورنہ ہی میدان جنگ میں اُترنے اور لڑنے کی ہمت وحوصلہ رکھتا تھا۔ یونانی عہد میں معاشرے کو کئی طبقات میں تقسیم کر دیا گیا تھا کہ کون کیا کام کریگا ۔ اسی طرح ہندو معاشرے کی بھی تقسیم تھی۔ رسم رواج سے لیکر فن سپہ گری تک ہر چیز کے اصول اور ضابطے مقر ر تھے۔
جنگیں صرف اعلیٰ ذات کے لوگ لڑتے تھے اورانہیں ہی حق حکمرانی دیا گیا تھا۔راجپوت بہادری اور دلیری کی علامت تھے۔ جنگی سواری کے جانور مثلاً اونٹ ، گھوڑا اور ہاتھی سوائے راجگان کے کوئی دوسرا قبیلہ رکھنے کا مجاز نہ تھا۔ جو لوگ جنگی ہتھیار اور سواریاں رکھتے تھے وہ جس قدر زمین پر قبضہ کرنا چاہیں انہیں اجازت تھی۔ اسی لحاظ سے وہ نچلی ذاتوں کے لوگوں کی خدمات بھی حاصل کرتے تھے۔
بادشاہی دور میں راجواڑوں ، جاگیروں اور پر گنوں کی تقسیم ہوئی تو اسی حساب سے راجگان اور صوبیدار بادشاہوں کو جنگی افرادی قوت مہیا کرتے تھے۔
ابن خلدون نے نظریہ عصبیت پیش کیا جو یونانی، ہندی اورعربوں کے مارشل ریس کے نظریے کی ہی ترجمانی کرتا تھا۔ ابن خلدون کے مطابق دیہاتی علاقوں کے لوگ شہری علاقوں کے لوگوں کی نسبت زیادہ دلیر، بہادر ، جفاکش اور جذباتی ہوتے ہیں ۔
وہ اپنے قبیلے کی غیرت ، عزت وناموس کے علاوہ علاقائی رسم ورواج پر فخر کر تے ہیں ۔ ان کی نسبت شہروں میں بسنے والے لوگ تاجرانہ ذھنیت کے حامل قدر ے بزدل اور قانون کی پاسداری کرنے والے کم ہمت اور سہل پسند ہوتے ہیں۔
وکٹوریہ نامی ایک برٹش خاتون نے کلکتہ سے اپنی ماں کو لکھا کہ اُسکا خاوند ( فوجی میجر ) اپنے فرائض کی انجام دہی کی خاطر اکثر گھر سے باہر رہتا ہے ۔
وہ اپنی پانچ سالہ بیٹی کے ہمراہ گھر میں رہتی ہے اور دربان ایک خوبر و پٹھان ہے۔ وہ صبح اٹھ کر نماز پڑھتا ہے اور قرآن پاک کی تلاو ت کرتا ہے۔ اُس نے کبھی میری طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھا ۔ اُس نے کھیلنے کے لیے میری بیٹی کو لکڑی کی ایک بندوق اور تلوار بنا کر دی ہے۔ وہ اسے تلوار اور بندوق چلانے کے طریقے سکھاتا ہے ۔ میری بیٹی اسکرٹ کے بجائے پورا لباس پہنتی ہے۔
باپ گھرآتا ہے تو بیٹی اسے سلیوٹ کرتی ہے۔ اُسکا پسندیدہ کھیل فوجی پریڈ اور جنگی مشق ہے۔
میں نے دیگر افسروں کی بیگمات سے پوچھا تو سب نے یہی بتایا کہ وہ پٹھان ار دلیوں اور دربانو ں کی موجودگی میں خودکو ہر لحاظ سے محفوظ سمجھتی ہیں یہ لوگ قابل اعتماد ، غیرت مند اور بہترین محافظ ہیں۔ سنا ہے کہ یہ لوگ اپنے علاقوں اور قبیلوں کی بھی اس طرح حفاظت کرتے ہیں اور عورتوں کا بے حد احترام کرتے ہیں۔
ہندوستان میں قبائلی رسم ورواج اور عزت و وقارکی اہمیت دوسرے ملکو ں سے زیادہ ہے۔
تقسیم ہند سے پہلے اُردو کے اخبار ’’ جوان ‘‘ میں ایسے واقعات پر مبنی خطوط اور خبریں مختصراً شائع ہوتی تھیں۔ یہ اخبار دہلی سے شائع ہوتا تھا جس کا رجسٹر ڈ نمبر ایل 4663تھا۔
میرے پڑنانا ذیلدار سفید پوش راجہ ولائیت خان (مرحوم) کے نام اخبار کی کاپی بذریعہ ڈاک دہلی سے میرپور آزادکشمیر میں واقع ان کے گاؤں نرماہ (راجگان) بھجوائی جاتی تھی۔
ایک مضمون میں درج ہے کہ راجپوت سپاہی اردلی ڈیوٹی سے نفرت کرتے ہیں ۔اگر ضرورت ہو تو راجپوت سپاہی کو راجپوت افسر کا اردلی مقرر کیا جاتا ہے۔ یہ کوئی قانون نہیں بلکہ افسروں کی صوابدید پرہے تاکہ فوج میں ڈسپلن بحال رہے اور کسی کی خاندانی روایات یا عزت نفس کو مجروح نہ کیا جائے۔
ایک جگہ لکھا تھاکہ گورکھا قابل اعتماد ، کنددھن اور موت کے خوف سے مبرا سپاہی ہے۔
افسر کے حکم پروہ خود کار مشین کی طرح حرکت کرتا ہے چاہے جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ ۔ 1944 ؁ء کے ایک شمار سے میں درج ہے کہ جہلم اور روالپنڈی کے اضلاع میں اٹھارہ اور بیس سال کے جوانوں کی کمی ہے۔ سرکار نے فیصلہ کیا ہے کہ منٹگمری ، سرگودھا اور لائلپور کے اضلاع کو بھی فوجی بھرتی میں شامل کیا جائے ۔ایک خبر میں لکھا گیا کہ نواب آف امب اور خان بہادر صاحب راجہ صاحب آف خانپور (ہزارہ ) نے لام بندی کے دوران قابل قدر خدمات سر انجام دیں ہیں۔
اسی شمار ے میں درج ہے کہ ڈومیلی کا ریلوے اسٹیشن کبھی ویران نہیں رہتا۔ آنے جانے والی گاڑیوں میں رنگ برنگی وردیوں میں ملبوس گکھڑ سپاہیوں کی ٹولیاں اُترتی چڑتی رہتی ہیں۔
ڈومیلی کے متعلق ایک مضمون نگار نے اپنی مہماتی کتاب میں لکھا ہے یہ کہ ریلوے اسٹیشن گکھڑوں کی فوجی خدمات اور سہولیات کے پیش نظر تعمیر کیا گیا ہے ۔ جہلم سے پشاور اور کوہاٹ تک ایسے درجنوں اسٹیشن فوجیوں کے سفر کو آسان بنانے کے لیے تعمیر ہوئے ۔
ڈومیلی ریلوے اسٹیشن ترکی پہاڑ کے دامن میں واقع ہے۔ ڈومیلی گاؤں سے اسٹیشن کا فاصلہ سات میل اور جہلم سے بیس میل ہے۔
ڈومیلی گاؤں کا شمار قدیم ترین آباد علاقوں میں ہوتا ہے ۔ یہاں کنشک اور چندر گپت ادوار کے مندر موجود تھے۔ بعدمیں مندر کی جگہ پر راج ریسٹ ہاؤس تعمیر ہوا اور اس عظیم عبادت گاہ کے آثارہ مٹا دیے گئے۔
1922 ؁ء میں خان بہادر صوبیدار صاحب راجہ فتح روز خان نے ڈومیلی میں اپنی حویلی تعمیر کروائی۔
1936 ؁ء میں کرنل سر شیر محمد خان کیانی نے حویلی میں کچھ توسیع کی۔ حویلی کے پچھلے اور رہائشی علاقہ سے الگ ایک جیل تعمیر کی گئی اور راجہ ممارا خان گکھڑ مجسٹریٹ تعینات ہوئے۔ مقامی لوگوں کے مقدمات یہاں ہی سنے جاتے اور مجرموں کو سزا دی جاتی تھی۔
کرنل سر شیر محمد خان کیانی کی اولاد سے سابق چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل راجہ طارق کمال خان بھی ہوئے ہیں ۔
ایڈمرل راجہ طارق کمال خان نے اپنے ابتدائی دور میں پاکستان آرمی اور نیوی کے سپیشل سروس گروپ (SSG) میں بھی خدمات سر انجام دیں ۔ آپ کا شمار اس گروپ کے مائیہ ناز مہم جوؤں میں ہوتا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد گکھڑوں نے سابقہ روایات کو برقرار رکھا اور پاکستان آرمی میں شامل ہو کر مادر وطن کی خوب خدمت کی۔ 1947 ؁ء کی جنگ آزادی کشمیر کا ابتدائی منصوبہ جنرل محمد زمان خان کیانی نے ترتیب دیا۔
جنرل ایم زیڈ کیانی اور بریگیڈئیر راجہ حبیب الرحمن کا تعلق سابق آئی این اے سے تھا۔ آپ آئی این اے کے سربراہ شری سبھاش چندربوس کے اہم ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ بریگیڈیئر راجہ حبیب الرحمن سبھاش چندربوس کے ہمراہ ماسکو فرار ہوتے ہوئے ویتنام کے جنگل میں ائیر کریش ہوئے مگر زندہ بچ گئے۔
جنرل ایم زڈ کیانی کے منصوبے پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے بھارت نے کشمیر پر قبضہ کر لیا۔
جس طرح مسئلہ کشمیر غلامی کے اندھیرے میں چلاگیا ویسے ہی جنرل کیانی کا نام بھی گوشہ گمنامی کی نظر ہوگیا۔ بھمبر کی فتح میں بریگیڈئیر راجہ حبیب الرحمن کی کھاریاں میں تعینات کرنل کیانی نے انتہائی جرات و دلیری سے مدد کی۔ پاکستان آرمی کو تحریک آزادی کشمیر میں شمولیت کی اجازت نہ تھی۔ جبکہ بھارتی اور ریاستی فوج مجاہدین کے خلاف بھرپور حملے کر رہی تھی۔
انڈین ایئر فورس کا پہلا جہاز بھی مجاہدین نے بھمبر میں ہی تباہ کیا۔ پائلٹ اور اسکا معاون پہلے جنگی قیدی بنے جنہیں بعد میں مظفرآباد شفٹ کیا گیا۔
بھمبر کا محاصرہ توڑنے کے لیے بریگیڈر راجہ حبیب الرحمن نے کرنل کیانی سے بات کی تو آپ نے بالا کمانڈروں سے پوچھے بغیر ایک ٹینک ، ٹینک ٹرانسپورٹر پر لاد کر بھمبر کے نالہ میں چھپا دیا۔ رات کے وقت ٹینک نے مجاہدین کے لیے راستہ ہموار کیا اور ڈوگرہ مشین گن پوسٹوں کو چند منٹوں میں تباہ کر دیا۔

کرنل کیانی کا اکلوتا ٹینک رات کے اندھیرے میں کھاریاں سے لوڈ ہو کر آیا اور کامیاب مشن کے بعد صبح اپنی جگہ پہنچ گیا ۔ کرنل کیانی کا اصل نام صیغہ راز میں ہی رہا ۔کرنل ایم اے حق مرز الکھتے ہیں کہ یہ راز جلد ہی افشاں ہو گیا تو کرنل کیانی کے خلاف انکوائری شروع ہوگئی جو عدم ثبوت کی بناء پر ختم کر دی گئی۔
1965 ؁ء سے لیکر آج تک جتنی جنگیں لڑی گئیں گکھڑوں نے بحیثیت سپاہی و افسران میں حصہ لیا ۔
1973 ؁ء میں آزاد کشمیر کے علاقہ لیپا میں لڑی جانے والی جنگ نے 1971 ؁ء کے المیے کے بعد پاک فوج اور پاکستانی قوم کو ایک نیا حوصلہ اور جذبہ فراہم کیا۔ شہید کرنل حق نواز کیانی ستارہ جرات (دوبار) نے بھارتی فوج کا غرور خاک میں ملاتے ہوئے جنگی تاریخ میں ایک نیا باب اپنے خون سے رقم کیا ۔آپ نے 9آزادکشمیر رجمنٹ کی قیادت کرتے ہوئے بزدل دشمن کو للکار ا تو9آزادکشمیر کے عقابوں نے پل بھر میں دشمن کے چوہوں کی صفایا کر دیا۔
جنرل مجید ملک مرحوم نے اپنی تصنف "ہم بھی وہاں موجود تھے " میں لیپا آپریشن کی تفصیل قلمبند کی اور کرنل حق نواز کیانی شہید ستارہ جرات (دوبار) کو خرات عقیدت پیش کیا۔
زرداری دور حکومت میں جنرل اشفا ق پرویز کیانی پاک فوج کے سپہ سالار رہے ہیں۔ زرداری نے اپنی حکومت اور کرپشن کی حفاظت کے پیش نظر جنرل کیانی کو دوسری مدت کے لیے بھی اس اہم عہدے پر فائز رکھا۔
بہت سے چاپلوس کالم نگاروں اور لفافہ صحافیوں نے جنرل کیانی کو فلاسفر جرنیل بنانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگائے رکھا مگر کیانی برادران کی کرپشن پر پردہ ڈالنے میں ناکام رہے۔ جنرل کیانی کے دور میں ملکی سطح پر کرپشن اور دہشت گردی عروج پر رہی۔ جنرل کیانی نے فوج کے مورال اور ویلفیئر پر کم اور سیاست پر زیادہ توجہ مذکور رکھی۔ وہ صدر زرداری کی طرح دوستوں کے دوست اور دانشور جرنیل مشہور ہوئے اور اپنے ارگرد بیٹھے دوستوں اور قصیدہ خوانوں کو بھرپور فائدہ پہنچاتے رہے۔
آپ کے دور میں ایبٹ آباد میں آپریشن ہوا جس کی انکوائری بوجہ آج تک منظر عام پر نہیں آئی ۔ میمو گیٹ سکینڈ ل پر جنرل کیانی اور میاں نواز شریف عدالت میں گئے مگر فیصلہ مجرم کے حق میں ہو ا۔ اسی طرح امریکی ایئر فورس نے باجوڑ میں واقع سلالہ پوسٹ پر حملہ کیا اور کئی جوان اور افسر شہید ہوگئے۔ اس سلسلے میں جنرل کیانی اور آصف علی زرداری کی پالیسی شکوک کا باعث رہی اور معاملہ شہیدوں کے ساتھ ہی دفن ہو گیا ۔
شمالی اور جنوبی وزیرستان پر ٹی ٹی پی نے مکمل کنٹرول حاصل کیا مگر جنرل کیانی کی دانشور انہ سوچ نے سپاہیانہ جنبش نہ لی۔ ایسے ہی حالات کراچی اور بلوچستان میں ہونے کے باوجود جنرل کیانی زرداری جمہوریت کے حفاظت پر لگے رہے۔ جنرل کیانی سابق جنرل پرویز مشرف کے دست راست تھے اور این آراو کے منصوبہ سازوں میں بھی شامل تھے۔ ججوں کی تنزلی اور بحالی میں جنرل کیانی کے کردار پر سوالیہ نشان ہیں۔
الیکشن کے نتائج واضع ہونے سے پہلے ہی جنرل کیانی کا جاتی عمرہ جا کر میاں نواز شریف کو مبارک باد پیش کرنا سپاہی کی شان پر بد نما دھبہ ہے۔ جنرل کیانی کی ریٹائرڈ منٹ کے بعد ان کی فوجی زندگی پر بہت سے منفی سوالات اٹھے مگر وہ قوانین کی گرفت میں تو نہ آئے مگر بد نامی کا چوغہ پہن کر اپنے فارم ہاؤس تک محدود ہوگئے۔
جنرل کیانی کا آصف علی زرداری سے نوکری میں توسیع لینا بذات خود غیر پیشہ وارنہ ، غیر داانشمندانہ اور غیر سنجیدہ فعل ہے۔
توسیع کا مطلب ہی توسیع دینے والے کی خواہشات کی تکمیل اور اُسکے افعال میں معاونت کے مترادف ہے۔ گکھڑ قوم کی پانچ سوسالہ درخشندہ تاریخ میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کا کردار گکھڑوں کے قبائلی ،جنگی اور اخلاقی اصولوں سے کسی بھی طرح ہم آمنگ نہیں۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اپنے قبائلی رسم ورواج وروایات اور تاریخ سے واقفیت رکھنے والا کوئی گکھڑ جنرل کیانی کے کارناموں پر کبھی فخر نہ کریگا ۔
گکھڑ قوم کی تاریخ میں جسٹس رستم خان کیانی کا بھی اہم اور منفرد مقام ہے۔ جسٹس کیانی کو ساری عمر اس بات کی شرمندگی اور ندامت رہی کہ انہوں نے نظریہ ضرورت کے فیصلے میں جسٹس منیر کا ساتھ کیوں دیا۔
سلطان زین العابدین بڈشاہ کے گکھڑوں سے دوستا نہ تعلقات تھے۔ جسرت گکھڑنے بڈشاہ کی مدد کی اور اُس کے بھائی کے خلاف صف آراہوا۔ بعد کے ادوار میں سلاطین کشمیر نے بھی پنجاب میں گکھڑوں کی مدد کی اوران کااقتدار بحال رکھا۔
جسرت گکھڑ کی اولاسے ہی خواجہ احمد گکھڑ تارک الدنیا ہو کر کشمیر جابسا ۔ احمد گکھڑ کو اُن کے مرشد حضرت سید شاہ روشن( پگھلی ہزارہ ) نے حکم دیا کہ وہ بارہ مولہ میں قیام کریں اور تجارت کے پیشہ سے منسلک ہو جائیں ۔ مرشد کے حکم پر آپ نے بارہ مولہ میں ہی شادی کی اور آپ کی اولاد سے کئی نامور عالم اور مبلغ پیدا ہوئے۔
تاریخ حسن ، تاریخ فرشتہ اور مستند کتابوں میں بارہ مولہ کے ککڑوخاندان کا ذکر ہے۔
تاریخ اقوام کشمیر کے مطابق ککڑ ، ککڑو اور گکھڑ ایک ہی قبیلہ ہے۔ علاقائی زبانوں ، تلفظ اورلب ولہجے میں اختلاف کے باعث گکھڑ سے ککڑ اور پھر ککڑو بن گیا ویلی آف کشمیر کے مصنف لارنس نے بھی لکھا ہے کہ بارہ مولہ کے ککڑو شیوخ کشمیری ہندو پنڈت نہیں بلکہ پنجاب سے نقل مکان کرنے والے گکھڑ ہیں۔ محمد دین فوق نے لکھا ہے کہ کشمیر کے آسودہ حال اوراعلیٰ تعلیم یافتہ گکھڑاپنے نام ککڑ ، ککڑو ، خواجہ اور جو کے اضافے کیساتھ ہی لکھتے ہیں ۔
حاجی خواجہ عبد الصمد ککڑو کا دیوان خانہ ، باغ اور لائبریری سارے کشمیر میں مشہور تھی۔ سرینگر میں ککڑ خواجگان کے عالیشان بنگلے اور مہمان خانے مشہورے تھے۔ خواجہ امیر الدین ککڑ نے علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی ۔ آپ نے اپنے بھائیوں کے ہمراہ بارہ مولہ کی قدیم مسجد کو از سر نو تعمیر کیا اور قرآن لائبیری بھی تعمیر کی۔
خواجہ عبد الصمد ککڑ وکی شہرت تبت سے لیکر برما تک پھیلی ہوئی تھی۔
آپ ایک بڑے عالم ، مہمان نواز، سخی اور اعلیٰ علمی و ادبی ذوق کے حامل خوبرو اور خوش خلق شخصیت مانے جاتے تھے۔
خواجہ محمد مقبول ککڑ اصلاحی او ر فلاحی کاموں کی وجہ سے مشہور تھے ۔ خواجہ عزیز جو ککڑ کا شمار و ادی کشمیر کے امراء میں ہوتا تھا ۔آپ کی شخصیت کا ایک روحانی پہلو بھی تھا جس کا کبھی پر چار نہیں ہوا ۔ لاہور میں واقع حضرت شاہ محمد غوث ؒ کے مزار سے منسلک عالیشان مسجد خواجہ عزیز جو ککڑ کی دینی حمیت کی یاد گار ہے ۔

خواجگان موہڑ ہ شریف (مری) کا تعلق بھی گکھڑ خاندان سے ہے۔ حضرت پیرا ولیّا بادشاہ فاروق کا فی عرصہ تک جہلم میں مقیم رہے جہاں اُن کا آستانہ رشد وہدایت کا مرکز تھا ۔آپ کے جدا اعلیٰ حضرت خواجہ نظام الدین کیاں شریف ( وادی نیلم ) کے مرید تھے۔ انوار بر کا تیہ کے مصنف جناب مفتی معین الدین بر کاتی نے اس گھرانے کی علمی ، ادبی ، اور روحانی خدمات اور حضرت خواجہ نظام الدین کے روحانی مراتب کا مفصل ذکر کیا ہے۔
خواجگان موہڑہ شریف کی رشتہ داریاں میرپو ر، جہلم ، ہری پور اور خان پور ہزارہ کے خوانین اور راجگان سے ہیں ۔ مصنف مُلا احمد نے اپنی فارسی تاریخ میں گکھڑوں اور بڈشاہ کے تعلقات پر جو سطور لکھیں اُن میں گکھڑ وں کے آبائی وطن روہتاس اور ڈومیلی کا ذکر موجود ہے مگر اُردو اور انگریزی تراجم میں ملا احمد کی تحریر کے بعض حصوں کا صحیح تلفظ ادا نہ ہو سکا۔

میجر سلمان راشد اور دیگر مصنفین نے چند ر گپت اور کشک دور کے مندر اور دیگرآثار کا ذکر کیا ہے۔ ڈومیلی میں ان آثارات کا واقع ہونا ڈومیلی کی تاریخی اہمیت کو اُجاگر کرتا ہے۔ 327ق م میں سکندر فوت ہوا توپاٹلی پترکے شہزادہ چند ر گپت نے عروج حاصل لیا اور موریہ خاندان کی حکمرانی کا آغازہوا۔ 350ق م میں سکندر کے جرنیل سلیو کس نے مغربی ایشیاء پر قبضہ کیا مگر 350ق م ہی چندر گپت نے یونانیوں کو کوہستان ہندو کش کی دوسری جانب دھکیل دیا ۔
سلسلہ کوہ ہندو کش یونانیوں اور موریہ راج کے درمیان حد فاصل تسلیم کر لی گئی ۔ اس دورمیں ہندوستان کے بڑے حصے کا درالخلافہ پاٹلی پترا ( پٹنہ ) تھا۔ چندر گپت کے بعد اسکا بیٹا بندو سارا اور بعد میں اشوک اعظم حکمران ہوئے ۔مہاراجہ کنشک 78 ؁ء میں برسر اقتدار آیا اس دور میں چین کے خلاف بڑی جنگیں لڑی گئیں۔ اس دور میں عالمی بدھ کانفرنس منعقد ہوئی اور تمام اہم قصبوں اور شہروں میں مندر اور پاٹ شالائیں تعمیر ہوئیں۔
مہاراجہ کنشک کے دور میں کاشگر، یار قنداور ختن فتح ہوئے ۔ دوسری جانب خلیج بنگال تک کا علاقہ کشنک کے زیر نگیں ہوا۔ ایران موجووہ عراق اور ترکی کے سرحدی علاقوں پر بھی کنشک نے فتح کا جھنڈا لہرایا۔کنشک کے بعد اس کا بیٹا راجہ ہوشک اورراجہ چوشک 178 ؁ء تک حکمران رہے ۔ 178 ؁ء میں راجہ چوشک کی موت کیسا تھ ہی کنشک کا دور حکومت کا خاتمہ ہو گیا ۔
کنشک دور کی عبادت گاہوں ، مدارس ، خانقاہوں اور مسافر خانوں کے آثار ایران ، افغانستان اور چین کے علاوہ سارے کشمیر اور ہندوستان میں موجود ہیں ۔کنشک کا درالحکومت پر شاپور (پشاور ) تھا۔
کنشک دور کے کھنڈرات وادی نیلم ( آزادکشمیر ) میں بھی موجود ہیں ۔ ڈومیلی میں کنشک دور کے مندر کے آثار ڈومیلی کی تاریخی اہمیت کا بڑا ثبوت ہے۔بد قسمتی سے کشمیر کی پانچ ہزار سالہ درخشاں تاریخ پر کوئی تحقیقی کام نہیں ہو سکا۔
اسرار احمد راجہ نے اپنی تصنیف "کشمیر کا المیہ"میں تاریخ کشمیر کا خلاصہ انتہاہی باریک بینی سے پیش کیا ہے جو تاریخ کشمیر سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے گرانقدر تحفہ ہے۔ ڈومیلی اور اس کے گردو نواح میں پھیلے آثار پر مکمل تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ تاریخ ہند کایہ باب مکمل ہو سکے۔

Browse More Urdu Literature Articles