Fahmida Riaz Bhi Chal Baseen - Article No. 1819

Fahmida Riaz Bhi Chal Baseen

فہمیدہ ریاض بھی چل بسیں - تحریر نمبر 1819

پیمائش میری ختم ہو جب خواتین کے حقوق کے لیے بھر پور جدوجہد کرنے والی ترقی پسند شاعرہ فہمیدہ ریاض بھی چل بسیں

پیر 3 دسمبر 2018

غلام زہرا
28جولائی1942کو پیدا ہونے والی فہمیدہ ریاض ایک پُر ہنگام زندگی گزارنے کے بعد مختصر علالت کے بعد 22نومبر2018کو لاہور میں انتقال کر گئیں ۔صدارتی ایوارڈ برائے حسن کار کردگی اور ستارہ امتیاز حاصل کرنے والی ترقی پسند شاعرہ فہمیدہ ریاض میرٹھ کے ایک ادبی خاندان میں پیدا ہوئیں اور قیام پاکستان کے بعد اُن کا خاندان حیدرآباد میں قیام پذیر ہو گیا ۔


انہوں نے شاعری اور فکشن میں کم وبیش 15کتابیں اور کئی مضامین تحریر کیے ۔شاعری میں ان کے مجموعے پتھر کی زبان ،دھوپ ،پورا چاند ،آدمی کی زندگی اور دیگر شامل ہیں ،جبکہ شعری مجموعہ بدن دریدہ منظر عام پر آتے ہی ان پر شدید نکتہ چینی بھی کی گئی۔ناولوں میں زندہ بہار ،گوداوری اور کراچی شامل ہیں ۔

(جاری ہے)


فکشن اور شاعری کے علاوہ انہوں نے اردو ترجمہ نگاری میں بھی نام کمایا جہاں مولانارومی کی مثنوی کا فارسی سے اردو میں ترجمہ نمایاں ہے ۔

انہوں نے ملک میں جمہوریت اور خواتین کے حقوق کے لیے بھی کام کیا۔فہمیدہ ریاض کو 2009میں دوسال کے لیے چیف ایڈیٹر اردو ڈکشنری بورڈ کراچی مقرر کیا گیا تھا ۔وہ اسلام آباد میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کونسل کی بھی سربراہ رہیں ۔
حکومت پاکستان نے انہیں ادبی خدمات کے اعتراف میں 2010میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کار کردگی اور ستارہ امتیاز سے نوازا۔
فہمیدہ ریاض کو 2017میں ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے ہیمت ہیلمن ایوارڈ برائے ادب ،2005میں المفتاح ایوارڈ برائے ادب وشاعری اور شیخ ایاز ایوارڈ بھی دیا گیا۔فہمیدہ ریاض کا پہلا شعری مجموعہ ''پتھر کی زبان'' 1967میں آیا۔انھوں نے طالب علمی کے زمانے میں حیدر آباد میں پہلی نظم لکھی جو ”فنون“میں چھپی''،فہمیدہ ریاض کی محبوب صنف سخن نظم تھی ،ان کا تیسرا مجموعہ کلام دھوپ تھا ۔

فہمیدہ ریاض شاعری میں اپنی تانیثی(فیمنسٹ)آواز کے لیے معروف تھیں ،وہ اپنے غیر روایتی خیالات کے باعث اردو ادبی منظر نامے میں تیزی سے مقبول ہوگئی تھیں ۔وہ خواتین کے حقوق کے لیے بھر پور جدوجہد کے حوالے سے بھی مشہور تھیں ،جمہوریت کی خاطر انھیں جنرل ضیا الحق کے دور میں ملک بھی چھوڑنا پڑا تھا ،ضیا الحق کے انتقال کے بعد وہ بھارت سے واپس پا کستان آئیں ۔
وہ اپنے غیر روایتی خیالات کے لیے معروف تھیں ۔
معروف سیاسی وادبی شخصیات نے ان کو یوں خراج تحسین پیش کیا :وزیر صحت پنجاب یاسمین راشد نے ممتاز شاعرہ فہمیدہ ریاض کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فہمیدہ ریاض حقوق نسواں کی ایک توانا آواز تھیں ،ان کا انتقال اردو ادب کیلئے بہت بڑا سانحہ ہے ۔فہمیدہ آپا سے اپنی آخری ملاقات مجھے کبھی نہیں بھولے گی ۔
یہ ہی دن تھے ۔
رات کی رانی کی خوشبو کھلی کھڑکی سے اندر گھس کر غدر مچائے ہوئے تھے اور فہمیدہ آپا نے ہمیں اپنی نظمیں سنائیں ۔رات گئے انہیں رضارومی کے گھر چھوڑنے گئے تو مکان ہی نہ ملے۔گھنٹے بھر کی تلاش کے بعد معلوم ہوا کہ جس گھر کے سامنے کھڑے ہیں وہی توہے ۔نہ فہمیدہ رہیں نہ ان سے ڈرنے والے رہے مگر کہانی اب بھی وہی ہے ۔فہمیدہ جیسے لوگ مرتے نہیں اور ان سے خائف سوچ بھی ۔
دیوار پہ بیل ایک بار پھر حد سے بڑھ گئی ۔سوچتی ہوں اب کی بار فہمیدہ کس شکل میں جنم لے گی اور اس کے ہاتھ میں اب کی بار کیا ہو گا ؟قلم ،تلوار ،قینچی ،درانتی یا فقط خون د ل میں ڈبوئی انگلیاں ؟
چےئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کہا وہ ترقی پسندی کی علمبردار ،حقوق نسواں کی محافظ تھیں ،ان کی ادبی خدمات قوم کے لیے بیش بہا خزانہ ہے ۔پاکستان مسلم لیگ (ن ) کی ترجمان مریم اور نگ زیب نے فہمیدہ ریاض کی وفات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کی وفات کی نہ صرف ادب بلکہ جمہوریت کے لیے بھی نقصان قرار دیا۔

انہوں نے فہمیدہ ریاض کے کام کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’فہمیدہ ریاض نے اپنی پوری زندگی میں دیانت داری سے خواتین کے حقوق کے لیے کام کیا '۔معروف ناول نگار کا ملہ شمسی نے ٹویٹر میں اپنے پیغام میں فہمیدہ ریاض کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ وہ آمریت کے 'تایک دنوں میں روشنی کی کرن تھیں '۔

Browse More Urdu Literature Articles