Faqeer Ki Bivi - Article No. 1239

Faqeer Ki Bivi

فقیر کی بیوی - تحریر نمبر 1239

ایک بدو فقیر کی بیوی نے ایک شب اس سے کہا کہ ساری دنیا غنی ہے اور ہم محتاج ہیں اور افلاس کی سختی کا شکار ہیں۔ ہم کھانے پینے سے عاجز ہیں، پہننے سے عاجز ہیں، پیٹ بھرنے سے عاجز ہیں،

جمعہ 17 مارچ 2017

ایک بدو فقیر کی بیوی نے ایک شب اس سے کہا کہ ساری دنیا غنی ہے اور ہم محتاج ہیں اور افلاس کی سختی کا شکار ہیں۔ ہم کھانے پینے سے عاجز ہیں، پہننے سے عاجز ہیں، پیٹ بھرنے سے عاجز ہیں، یہ ہمارا افلاس اور ہمارا فقر ہمارے لئے اور فقیروں کے لئے بھی با عث شرم و ندامت ہے۔ اپنے پرائے سب ہم سے نالاں ہیں۔ میں تو اس حد تک تلی بیٹھی ہوں کہ اگر کوئی مہمان ہمارے ہاں قیام کرے تو میں رات کو اس کی جیب کا صفایا کروں۔
میں اب مزید افلاس کی ذلت برداشت نہیں کر سکتی۔ خاوند نے بیوی کو سمجھایا کہ تو ان چکروں میں نہ پڑ۔ آمدنی اور اخراجات کی بھول بھلیوں میں نہ بھٹک۔ کمی بیش پر نظر نہ رکھ کیونکہ یہ بہتے پانی کی مانند گزر جاتی ہے اور پانی کبھی نہیں رکتا۔
اس دنیا میں ہزاروں کی تعداد میں ذی روح کسی غم فکر کے بغیر زندگی بسر کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

جانور درختوں پر بیٹھے خدا کا شکر ادا کرتے ہیں حالانکہ ان کے پاس رات کے کھانے کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا۔

تمام ذی روح اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہیں اور وہ سب کی پرورش سر انجام دیتا ہے۔
تم میری بیوی ہو اور میرا جوڑا ہو اس وقت جوڑے کو باہمی مطابقت رکھنے والا ہونا چاہیے۔ جوتے اور جرابوں کے جوڑے پر غور کرو اور اگر دونوں میں ایک جوڑا بھی پاؤں میں پورا نہ آئے تب جوڑا ہی بے کار ہے۔ شیر اور بھیڑیے کا کبھی جوڑا نہیں بن سکتا۔ میں قناعت کی جانب بڑھتا ہوں اور تم برائی کی جانب مائل ہوتی ہو۔

بیوی نے جوب دیا تم عزت کے متلاشی ہو اور تکبر اور غرور میں ملوث ہو۔ غرور اور تکبر بری چیز ہے اور اگر مفلس تکبر کرے تو وہ اور بھی برا ہے۔ ذرا اپنے گھر کی جانب دیکھ مکڑی کا جالا ابھی اس سے بہتر ہوتا ہے۔ تم قناعت کے دعویٰ دار ہو۔ تم نے قناعت کا محض نام ہی سنا ہے اور اس کے دعویٰ دار بن بیٹھے ہو۔
خاوند نے کہا کہ فقر پر فخر کرنا چاہیے اور کسی کی پردہ پوشی کرنی چاہیے ، کسی کا پردہ چاک کر کے اس کے عیب کو ظاہر نہیں کرنا چاہیے۔
تم درویشی کو نہیں سمجھ سکتی کیونکہ یہ دنیا داری سے مختلف چیز ہے۔
بیوی نے جب خاوند کی ناراضگی کو دیکھا تب روتے ہوئے کہنے لگی میں چونکہ تمہاری بیوی ہوں اس لئے میں تمہیں اس بے سر و سامانی کی حالت میں نہیں دیکھ سکتی۔ مجھے سونے چاندی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں تم پر اپنی جان بھی قربان کر سکتی ہوں۔ اب میں تمہارے خلاف کوئی بات نہ کروں گی اور تمہاری مرضی کی تابع رہوں گی۔ بیوی کو روتا دیکھ کر خاوند کا دل موم ہو گیا۔ خاوند اس گفتگو سے شرمندہ ہو ا اور اس نے کہا کہ میں قصور وار ہوں۔ حقیقت میں وجود و دم دونوں اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابعدار ہیں۔

Browse More Urdu Literature Articles