Guriya - Article No. 2299
گڑیا - تحریر نمبر 2299
شمائل اس کی زندگی کی پہلی دوست تھی. پتہ نہیں دوست تھی یا اس سے کچھ زیادہ یا کم... تین سال کی عمر ہی کیا ہوتی ہے ایسی باتوں کو سمجھنے کے لئے
ناعمہ قاضی جمعہ 3 اپریل 2020
(جاری ہے)
ایک دن استاد نے کام مکمل نہ کرنے پر مار لگائی تو فاران نے گھر آ کر سارا غصہ شمائل پر نکال دیا.
وہ بے زبان کیا بولتی, بال نوچ ڈالے. ہاتھ پاؤں توڑ دیے. کپڑے پھاڑ دیے اور اٹھا کر کوڑے دان میں پھینک دیا. گھر میں کسی نے سکھ کا سانس لیا تو کسی نے ہنسی میں اڑا دیا, مگر پتہ نہیں کیوں فاران کی ماں کی آنکھ نم ہو گئی.اس کے بعد فاران کا یہ معمول ہی ہو گیا, نئی گڑیا لاتا, بناتا, سنوارنا, کھیلنا, پیار کرتا اور جس دن غصہ آتا توڑ تاڑ کے پھینک دیتا. اس مشغلے میں اب تو اس نے گڑیوں کو نام دینا تک چھوڑ دیے تھے.
غریب کا حال اور امیر کے احوال کب کسی کو نظر آتے ہیں. کسی نے دھیان ہی نہ دیا اور فاران بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی میں داخل ہو گیا.
اس کے والدین ایک دن سچی مچی گڑیا اس کے لئے لے آئے, سنبل سے شادی نے فاران کو جیسے اس کا دیوانہ بنا دیا. تھی بھی وہ گڑیا جیسی, گورا رنگ, سرمئی آنکھیں, سرخ ہونٹ, بھرے بھرے رخسار, ہنسی ایسی کہ آبشار بہنے کا گمان ہو اور سگھڑ ایسی کہ خاندان گن گائے. دس انگلیاں دس چراغ تھی وہ. فاران اس کی آنکھوں کا محور اور مجازی خدا, جسے خوش رکھنا شاید اس کی زندگی کا واحد مقصد اور فاران اس کی انکھوں کا حسن اپنے چہرے پہ سجائے یونہی اتراتا پھرتا.
وقت کا دھارا چلتا رہا اور کچھ ہی عرصے میں فاران بے زار ہونے لگا. بات بات پہ جھگڑا اور تو تو میں میں... لشتم پشتم زندگی گزر رہی تھی کہ ایک دن فاران کو کاروبار میں نقصان ہو گیا جس کی وجہ سے ہمیشہ کی طرح سنبل ہی قرار پائی. کہ وہ فاران کو کہیں اور قرار لینے دیتی تو وہ دل لگا کے کچھ کر سکتا نا...
فاران بپھرا ہوا گھر آیا, سنبل پر نظر پڑتے ہی اس کا دل چاہا کہ بال نوچ ڈالے, ہاتھ پاؤں توڑ کے کہیں پھینک دے .اس نے اپنے جارحانہ قدم ابھی بڑھائے ہی تھے کہ سنبل ڈر کے دیوار سے جا لگی, یہ کہنا مشکل ہے کہ زبان ڈر سے چپ تھی یا صدمے سے. اس سے پہلے کہ فاران کچھ کرتا, فاران کی ماں دونوں کے بیچ میں آہنی دیوار بن کر کھڑی ہو گئی, کہ فاران کو جاتے ہی بنی..
سنبل اس دن کے بعد گھر میں نہ رکی, حق تو یہ ہے کہ جس نے مارنے کا قصد کر لیا تو اس نے مار ہی دیا. جسمانی چوٹ کا کیا ہے, لگی لگی نہ لگی, روح کے زخم کہاں رفو ہوتے ہیں.
اس بات کو چالیس سال گزر گئے, شوکت ہسپتال میں بستر مرگ پر لیٹا ہے. پچھلی زندگی کسی فلم کی طرح اس کے سامنے چل رہی ہے, اس نے سوچا کہ اے کاش..! شمائل کو نہ توڑا ہوتا, زندگی نکال کے زندہ رکھ چھوڑنے کا یہ کھیل نہ کھیلا ہوتا تو شاید آج زندگی مختلف ہوتی اور شاید کوئی گڑیا آج سرہانے ہوتی.
فاران کی آنکھ بند ہو گئی, کبھی نہ کھلنے کے لئے
Browse More Urdu Literature Articles
کتنے یگ بیت گئے
Kitne Yug Beet Gaye
پروین شاکر کی حادثاتی موت کی نامکمل تحقیقات
Parveen Shakir Ki Hadsati Maut Ki Namukammal Tehqiqat
جلتی ہوا کا گیت
Jalti Hawa Ka Geet
ماں اور پروین شاکر
Maan Aur Parveen Shakir
پروین شاکر کا رثائی شعور
Parveen Shakir Ka Rasai Shaoor
ریت
Rait
لا حاصل از خود
La Hasil Az Khud
فقیرن
Faqeeran
داستان عزم
Dastaan E Azm
محمد فاروق عزمی کا پرعزم اور پر تاثیر قلمی سفر
Mohammad Farooq Azmi Ka PurAzam Aur PurTaseer Qalmi Safar
حلیمہ خان کا تقسیم 1947 کے شہداء کو سلام
'Walking The Divide: A Tale Of A Journey Home'
جہیز
Jaheez