Inqelab Or Inqelabi Adab - Article No. 2078

Inqelab Or Inqelabi Adab

انقلاب اور انقلابی ادب : بنیادی مباحث - تحریر نمبر 2078

بنیادی طور پر ’انقلاب‘ طرزِ کہن سے بغاوت کرنا اور طرزِ نَو کو اپنانے کا نام ہے۔ کسی بھی معاشرے یا تمدن میں انقلاب کی ضرورت ہی اس وقت پیش آتی ہے

Usman Ghani Raad عثمان غنی رعد جمعرات 20 جون 2019

انقلاب:
’انقلاب‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ ’قلب‘ ہے۔ اور مادہ بمعنی ” الٹنا، پلٹنا(نیچے کا اوپر کرنا، دائیں کا بائیں کرنا، اندر کا باہر کرنا یا اس کے بر خلاف) برعکس کرنا، اوندھا کرنا، حالت بدلنا“ کے استعمال ہوتا ہے۔ اور لفظ ’انقلاب‘ کا لغوی معنی ”تبدیلی، نظام حکومت کی اچانک تبدیلی (سیاسی یا فوجی ) انقلاب“ وغیرہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
نقلاب لفظ کا اطلاق ہمیشہ ایک دم بدلنے، ہمت کرنے ، تختہ حکومت کو رات و رات الٹنے ، کسی کے بر عکس اٹھ بیٹھنے اور بر خلاف ہونے پر کمر باندھنا ہے۔ اگر یہی تبدیلی آہستہ آہستہ ہو تو اسے انقلاب نہیں بلکہ ارتقا کہا جائے گا۔ اسی وجہ سے انقلاب جذبے اور عمل کی شدت کا متقاضی ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

مر مٹنے، جان سے گزرنے اور لہو بہانے کا جذبہ انقلابیوں کی بنیادی خصوصیت ہے۔

اوکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق بھی حکومت میں تبدیلی یا حکومت الٹنے کی قوت و تحریک کو انقلاب کہتے ہیں۔
ممتاز حسین کہتے ہیں؛انقلاب اندرونی تضاد کے عمل کا وہ روپ ہے جو ارتقائی صورت (کمیائی تبدیلی) سے گزر کر انقلابی صورت (کیفیاتی تبدیلی) میں آتا ہے۔ اس عمل میں جست ہوتی ہے۔ جس سے پرانا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔ اس عمل میں پرانی ضدین کا تخالف ختم ہو جاتا ہے۔
نیا حل ، نئی ضد ین کی وحدت کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔انقلاب کے اس مارکسی تصور سے قطع نظر انقلاب کا لفظ بالعموم ان بڑی تبدیلیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو ادب اور زندگی پر گہرے اثرات چھوڑتی ہیں اور بالعموم ادب میں ایک نئے دور کا باعث بنتی ہیں۔فرانسیسی ماہر عمرانیات گستاؤلی بوں کے نزدیک؛انقلاب سے مراد لوگوں کے عقائد ، جذبات اور نظریات میں انتہائی فوری یا بظاہر اچانک آنے والی تبدیلی ہے۔
تمام انقلابات میں سے حقیقی اور دیر پا انقلاب وہ ہے جو قوموں کے کردار میں زبردست تبدیلی لے آئے۔
مندرجہ بالا تعریفوں پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر ’انقلاب‘ طرزِ کہن سے بغاوت کرنا اور طرزِ نَو کو اپنانے کا نام ہے۔ کسی بھی معاشرے یا تمدن میں انقلاب کی ضرورت ہی اس وقت پیش آتی ہے جب لوگوں کو ایک بندھے ٹکے اصولوں کے تحت استعمال کیا جا رہا ہو یا ان کے حقوق کو سلب اور پامال کیا جا رہا ہو۔
اردو میں اس کے لیے ’تختہ الٹنا‘ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جو اپنے مجازی معنوں میں ’انقلاب‘ کہا جاتا ہے ۔
یہاں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ مزاحمت اور بغاوت میں کیا فرق ہے اور اس سوچ سے کس طرح انقلاب کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ مزاحمت میں فقط شاعروادیب لفظوں میں حکومتی پالیسیوں پر سر زنش کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اس کی برائیوں سے آگاہ کرتا ہے اور رمزو کنائے کے ساتھ ساتھ بعض اوقات واشگاف الفاظ میں بھی طعنہ و تشنیع کی فضا قائم کرتا ہے۔
جس کی بڑی مثال حبیب جالب کی شاعری ہے جو اگرچے سیاسی وجوہ کی بنا پر سامنے آئی۔ اس سے اگلا سوچ کا قدم بغاوت کہلاتا ہے مگر بغاوت میں بھی دو رویے شامل ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ باغی شاعر یا ادیب بالکل ہی معاشرے اور حکومت سے الگ تھلگ ہو جاتا ہے کہ وہ ایسی پالیسیوں کو نہیں مانتا اور بالکل اپنی دنیا میں مگن رہتا ہے۔دوم باغی شاعر وادیب وہ ہوتا ہے جو حکومت کی نظروں میں باغی ہو یعنی ہر وہ انقلابی شاعر یا ادیب جو کسی مقصد اور ویژن کو لے کر ٓگے بڑھ رہا ہو اور حکومتی پالیسیوں پہ چوٹیں کر رہا ہو ۔
ہوتا تووہ انقلابی شاعر یا ادیب ہے مگر حکومت کی نظر میں وہ باغی ہی کہلاتا ہے۔یعنی انقلابی سطح پر بھی حکومتِ حاضرہ کی حکمتوں اور پالیسیوں کے خلاف اٹھائے گئے اقدام بغاوت کہلاتے ہیں اور اگر یہی بغاوت کا میاب ہو جائے تو انقلاب کہلاتی ہے۔ اگر اس کو دوسرے رخ سے دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کامیاب بغاوت ’انقلاب‘ کہلاتی ہے ناکام انقلاب، بغاوت کہلاتا ہے۔
انقلاب کا یہ عمل بڑا سخت، مشکل اور طویل ہوتا ہے۔ مگر عوام کی شعوری بیداری کے بعدانقلابی راہیں آسان ہو جاتی ہیں اور یہ ادیب اور شاعر جو کچھ بھی تحریر کرتے ہیں یہ ’انقلابی ادب‘ کہلاتا ہے۔ جس میں ایک عام ظالم، جابر آدمی سے لے کر حکومت کے بڑے سے بڑے بے درد ، سفاک اور بے رحم آدمی کو بے نقاب کیا جاتا ہے اوراس ظالم شخص کا اصلی چہرہ عوام کے سامنے لایا جاتا ہے۔

انقلابی ادب:
عام بات ہے کہ انقلابی ادب وہ ادب ہوتا ہے جس میں کسی بھی انقلابی نظریے کی ترجمانی کرنے کی صلاحیت موجود ہو۔ احتجاج کی قوت اور ظالم کے منھ پر اسے بر ملا ظالم کہنے کی طاقت موجود ہو۔ انقلابی ادب ہمیشہ سوئی ہوئی قوم اور پسی ہوئی عوام کو جگانے کے لیے استعمال ہو تا ہے۔ جنھیں دن رات مشقت کی چکی کاٹنے کے باوجود آرام اور سکون کی دولت نصیب نہیں ہوتی۔
وہی لوگ جب اپنی آنکھیں کھول کر حکمران طبقے سے اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں تو ہیجان پیدا ہوتا ہے جو کسی بھی انقلاب کا سب سے پہلا اشارہ اور قدم ہوتا ہے۔ ابوالاعجاز حفیظ صدیقی انقلابی ادب کے بارے کہتے ہیں کہ انقلابی ادب سے مراد وہ ادب ہے جو کسی انقلابی نظریے کی ترجمانی، تبلیغ، تحسین ، ترویج یا اشاعت کی غرض سے وجود میں آئے۔ اردو میں بالعموم یہ اصطلاح ان تخلیقات کے لیے استعمال ہوتی ہے جو معاشی عدم مساوات اور اس کے نتیجے میں ظہور پذیر ہونے والی سماجی ناانصافیوں کے خلاف علمِ احتجاج بلند کرتی ہیں اور جن میں سرمایہ دارانہ نظام میں محض ضروری تبدیلیوں کی بجائے سماجی اور معاشی ڈھانچے کو بدلنے کی تمنا کا اظہار ہوتا ہے۔

اس تعریف کو بغور پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انقلاب زندگی کو بدلنے کے لیے بہت ضروری ہے اور اگر زندگی کے تغیر اور حالات کی بہتری کے لیے انقلاب کا رآمد چیز ہے تو انقلابی ادب اور بھی لازم و ملزوم ہو جاتا ہے جواپنے درشت لہجے، شعروں، لفظوں، جملوں اور مصرعوں کے ساتھ ایک عام آدمی کو اندر سے جنجھوڑجنجھوڑ کر اٹھاتا ہے اور اسے زندگی کا مقصد سمجھاتا ہے اور سمجھنے پر مجبور کرتا ہے اسے زندگی کے لطائف کی طرف آنے پر اکساتا ہے ۔
اس لحاظ سے دیکھیں تو ادب ہے ہی وہی جو زندگی کی اصل اور حقیقی شکل کو واضح کر ے، نہ کہ جنوں، پریوں اور دیومالائی قصوں کہانیوں سے بچوں کو ہنسی خوشی اور مزاح کا لطف فراہم کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اوکسفرڈ میں رابندر ناتھ ٹیگور کی گتان جلی تو پڑھائی جاتی ہے مگر اقبال کی شاعری سے قطعاً احتراز برتا جاتا ہے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ حمدیہ نظموں اور انقلابی فکر پہ مبنی نظموں میں کیا فرق ہے۔
اختر حسین رائے پوری کے مطابق انقلابی ادب کے لکھنے کی وجہ بھوک اور موت ہے اور یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جو انقلابی ادب کے تخلیق ہونے اور وجود میں آنے کی بنا بنتا ہے۔ مصنف موصوف نے دو چیزوں کی طرف اشارہ کر کے یعنی موت اور بھوک ، انسان کے باغی اور انقلابی ہونے کی بڑی عام وجہ بتا دی ہے کہ موت تو خدا کی طرف سے ہے اسے توانسان رو دھو کے برداشت کر لیتا ہے مگر ’بھوک‘ جیسی بیماری کا الزام وہ سماج اور معاشرے پہ لگاتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ بھوک کا ذمہ دار معاشرہ ہوتا ہے یا پھر صاحبِ اقتدار ۔
اور دونوں سے انخراف کرنا ہی بغاوت کہلاتا ہے جو کہ انقلاب کی کلید ہے۔ اگر انسان اپنے معاشرے میں خوش حال ہوگا اسے بھوک کا قطعی خوف نہیں ہوگا تو یقینا وہ صرف اپنے محبوب کے لب و رخسار اور فراق کی ہی باتیں کرے گا اور یہ تبدیلی اگر ممکن ہو جائے تو یقینا ادیب انقلابی ادب اور باغی ادب نہ لکھے ۔ چونکہ ظاہر ہے کہ اس کے ماحول نے اسے اس نوبت تک پہنچایا ہی نہیں۔
مختصر یہ کہ انقلابی ادب ماحول میں پیدا شدہ سخت روایات ، مذہبی رسومات ، ذہنی جبر، تعلیمی و علمی کم فہمی اور شعور کی ژولیدگی و پسماندگی میں ایک کو لہو کے بیل کی طرح گھومنے سے انکار اور اپنے حقوق پر غاصبانہ حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ ہوتا ہے جو کبھی سختی و درشتی سے سامنے آتا ہے اور کبھی علامتوں ، کنایوں میں ظہور کرتا ہے۔
اختر حسین رائے پوری اپنی کتاب ’ادب اور انقلاب‘ میں انقلابی ادب اور انقلابی ادیب کا مطمحِ نظر اور منشور ِ حیات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:زندگی قائم و دائم ہے اور انسان لاشریک لہ  اس کا مالک ہے۔
انسا ن اور قدرت کی کشمکش کا نام تہذیب ہے اور انسانیت کی ترقی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے کس حد تک قدرت پر فتح حاصل کر لی ہے۔ انسان سب سے افضل اور اکمل ہے۔ دین ِ حق کا مطلب ہے ہر قسم کے ظلم کا سدِباب اور اخوت و مساوات کا قیام، قومیت ، سرمایہ داری، تمیز رنگ و نسل اور تفریق ِ مذاہب کو وہ انسانیت کے لیے سمِ قاتل سمجھتا ہے۔
اس کے خیال میں ایک نسل کو دوسری نسل کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ہر آنے والی نسل زندگی کی محافظ اور ضامن ہے۔
اس بات سے انقلابی ادب کی راہ متعین ہوتی ہے کہ انقلابی ادب گوشہ نشینی کے بجائے عوام سے باہم دگر ملنے اور پیار کو ترجیح دیتا ہے۔ جنگلوں اور پہاڑوں کی چاہت سے دل بہلانے کے بجائے انسان کی خدمت پر اکساتا ہے۔ اپنی ہی ذات کے نشے میں مخمور رہنے کے بجائے خیالات کا بہتراستعمال اور طریقہ سکھاتا ہے۔
قدرت کے سامنے ہتھیار ڈالنے اور تسلیم کرنے کے بجائے اپنے ضمیر کے پاتالوں کو کھنگال کھنگال کر جینے کے ذرائع ڈھونڈنے کی ترغیب دیتا ہے۔ جبر نہیں بلکہ اختیار کو مانتا ہے۔ تقدیر نہیں بلکہ تدبیر پر تکیہ رکھتا ہے۔ قسمت پر نہیں ہمت پر مان کرتا ہے۔ قدرت کے سامنے مجبور ہونے کی بجائے قدرت پر حکومت کرنا سکھاتا ہے۔ انقلابی ادب ہی سکھلاتا ہے کہ آرٹ فقط آرٹ کے لیے نہیں بلکہ انسان کے لیے استعمال کرو۔ آسمان کے دیومالائی قصوں کو بالائے طاق رکھو اور زمین کو سنوارنے کا سوچو ، خود کو سمجھنے پر توجہ دو۔ دوسروں سے منافقت یا دوئی نہیں بلکہ باہمی ربط اور یگانگی سے دنیا فتح کرو۔ بڑے چھوٹے کی تفریق کو ختم کرو اور عام محبت اور بھائی چارے کا پرچار کرو۔

Browse More Urdu Literature Articles