Jab Tak Punjab Tab Tak Punjabi - Article No. 1926

Jab Tak Punjab Tab Tak Punjabi

جب تک پنجاب تب تک پنجابی - تحریر نمبر 1926

غرض پنجابی زبان ہمارے رگ وپے میں شامل ہے اورکیوں ناہوکہ وہ توہماری ماں بولی ہے بھلاماں بولی کو کوئی بھلاسکتا ہے

Muhammad Sohaib Farooq محمد صہیب فاروق بدھ 20 فروری 2019

ماہرلسانیات کاکہناہے کہ کسی بھی زبان کوباقی رکھنے کے دوطریقے ہوتے ہیں پہلی بات یہ کہ وہ کسی مذہب سے جڑی ہواوردوسرایہ کہ اس سے لوگوں کوملازمت اورمعاش کے مواقع میسرہوں لہذااگرصرف ان دوباتوں کابغورجائزہ لیاجائے توپاکستان میں یہ دونوں کسی حدتک موجودہیں۔پنجاب اوردیگرصوبوں میں پنجابی زبان کے صوفی شعراء کاکلام زبان زدعام ہے بلکہ اگردیکھا جائے توقرآن کریم اوراحادیث کامنظوم پنجابی ترجمہ اورانبیاء علیہم السلام کے قصص پنجابی شعروں کے صورت میں آج بھی دستیاب ہیں اورہمارے صوفی شعراء میں سے بارھویں اورتیرھویں صدی میں بابافریدالدین گنج شکر،سولہویں صدی میں شاہ حسین ،اورسلطان باہو،سترہویں صدی میں بابابلھے شاہ ،اٹھارویں صدی میں خواجہ غلام فرید،انیسویں صدی میں بابورجب علی ،میاں محمدبخش ،بیسویں صدی میں استاد دامن اوران کے علاوہ بیسیوں غیرمعروف صوفی شاعرہیں جنہوں نے اپنے صوفیانہ پنجابی شاعری سے جہاں ماں بولی کوزندہ وجاوید رکھا وہیں دین اسلام کی تبلیغ کے فریضہ بھی انتہائی خوبصورتی کے ساتھ سرانجام دیا۔

(جاری ہے)

مجھے اچھی طرح یادہے کہ میری دادی اماں مرحومہ جنکی سکول کی تعلیم توواجبی سی تھی لیکن اس کے باوجودوہ اچھی طرح پڑھنالکھناجانتی تھیں اوروہ ہمیں اکثرمنظوم پنجابی قصص الانبیاء پرمبنی کتاب پڑھ کرسنایا کرتی تھیں جسے ہم بڑے شوق سے سناکرتے تھے اورحضرت سلطان باہوکامعروف کلام الف اللہ چنبے دی بوٹی ہمارے گاؤں کے ایک کہنہ مشق درویش منش استاد رفاقت شاہ صاحب جوویسے توکم گوہیں لیکن گاؤں کی مسجدمیں کبھی کبھاربڑے سرورووجدمیں آکرسلطان باہوکایہ کلام پڑھاکرتے ہیں جس سے سارے گاؤں کے لوگ بہت محظوظ ہوتے ہیں ۔
اس کے علاوہ میرے ایک بہت ہی پیارے دوست اوربھائی محترم عبیدالرحمن جن کی ماں بولی سے محبت اورعشق کی میں مثال دیتا ہوں پاکستان میں بولے جانے والے سبھی پنجابی لہجوں پرانہیں عبورحاصل ہے اوراس قدرخوبصورت لہجہ میں پنجابی بولتے ہیں کہ پنجابی کو بھی اس پررشک آتا ہے ۔ غرض پنجابی زبان ہمارے رگ وپے میں شامل ہے اورکیوں ناہوکہ وہ توہماری ماں بولی ہے بھلاماں بولی کو کوئی بھلاسکتا ہے جس زمانہ میں مدرسہ میں پڑھتا تھا اس مدرسہ میں کچھ پٹھان لڑکے بھی ہماری جماعت میں پڑھاکرتے تھے جوآپس میں پشتوزبان میں ہی بات کرتے تھے جس کی وجہ سے انکی اردوزبان خاصی کمزورتھی اوراستاد محترم انکو اس بات پرسرزنش کرتے ہوئے اکثرکہاکرتے تھے کہ مادری زبان تمہیں کبھی نہیں بھولے گی لیکن اردوبغیربولے نہیں آئے گی ۔
پنجابی زبان کی ترقی کے حوالہ سے پنجاب بھرمیں بہت سی ادبی تنظیمیں اپناکرداراداکررہی ہیں ۔پاکستان کی سب سے بڑی آن لائن نیوزاردوپوائنٹ کے پروگرام ’سوہنی دھرتی پاکستان‘ کے میزبان ایم۔ فل پنجابی سکالرولکھاری جناب چاندشکیل اپنے پروگرام کی وساطت سے ملک بھرسے پنجابی زبان وادب میں نمایاں خدمات سرانجام دینے والی شخصیات کے کام سے پنجابی زبان کی سوشل میڈیا پرترویج میں مرکزی کرداراداکررہے ہیں جو لائق تحسین ہے اس کے علاوہ پنجابی زبان سے جنونی حدتک وارفتگی رکھنے والے شعراء ادباء اورلکھاری جنہوں نے ہرپلیٹ فارم پراس کی اہمیت کواجاگرکیا ان میں سے سائیں حیات پسروری ،فقیرمحمدفقیراحمدراہی ،انورمسعود ، پروفیسر حفیظ صدیقی،یسین اطہرصدیقی، ڈاکٹرعادل صدیقی مرحوم ،منیرنیازی ،پروفیسر اکبرعلی غازی ،زاہدہ صدیقی ، ڈاکٹراے جی خان ،علی احمدگجراتی ،ڈاکٹرمحمدایوب ،ڈاکٹرسعید الفت ،اکرم قلندری ،اشفاق طاہر،شہبازدانش، عبداللہ توحیدی ،ندیم افضل ندیم ،صغیرحسین صغیر، نواب ناظم میو، وغیرہ پنجابی زبان کے مایہ نازشاعر استاددامن نے پنجابی زبان کے حوالہ سے کہا تھاکہ ۔
۔۔ ایہدے لکھ حریف پئے ہون پیدا دن بدن ایہدی شکل بندی رہیگی ادوں تیک پنجابی تے نہیں مردی جدوں تیک پنجابن کوئی جندی رہیگی لیکن اس کے باوجودپنجابی ہماری ماں بولی زبان ہے اورپاکستان ہماراوطن ہونے کے ناطے ماں کے قائم مقام ہے توماں اپنی زبان سے سوتیلی ماں ساسلوک کرے تویہ کچھ مناسب نہیں پنجابی زبان کے ساتھ قیام پاکستان کے بعدسرکاری سرپرستی نہ ملنے کہ وجہ سے بہت زیادتی ہوئی ہے اورمزیدالمیہ یہ ہے کہ صوبہ پنجاب میں پنجابی علاقائی زبان ہونے کے باوجود بھی ہمارے تعلیمی نصاب میں بطورلازمی مضمون کے نہیں پڑھائی جاتی جس کی وجہ سے پنجابی زبان وادب پڑھنے والوں کو ملازمت سے بھی محروم رکھا جارہاہے سکول کی سطح پرپنجابی کی سرے سے بھرتی ہی نہیں کی جاتی جبکہ کالجوں میں بھی ناہونے کے برابرسیٹیں ہیں جسکی وجہ سے پنجابی پڑھنے کے خواہشمندبھی اس کی تعلیم سے محروم ہیں ۔
ضلع سیالکوٹ اورنارووال جس میں چھپن لاکھ 5600000آبادی کی ماں بولی زبان پنجابی ہے لیکن اس کے باوجودوہاں موجود لڑکوں کے کالجزمیں سے کوئی ایک بھی کسی بھی سطح پرپنجابی مضمون کوپیش نہیں کرتا جوکہ انتہائی تشویش ناک بات ہے ۔ پنجابی کے فروغ کے لئے اس میں ملازمت کے مواقع فراہم کرناحکومت وقت کا فریضہ ہے ۔ اس سے جہاں لوگوں کو روزگارملے گاوہیں ہم اپنی ہزارہاسال پرانے تاریخی ورثہ کوبھی محفوظ کرسکیں گے جنہیں پڑھ کرہماری نسل اپنے درخشندہ ماضی سے سبق حاصل کرکے اپنے مستقبل کو تابنا ک بنا سکے گی ۔
لیکن ایک بہت ضروری بات کہ اردووپنجابی دونوں کی اہمیت مسلمہ ہے کسی ایک کی اہمیت سے انکارناممکن ہے لیکن بدقسمتی سے کچھ عرصہ سے ان دونو ں کوہی تختہ مشق بنادیاگیاہے اردوزبان کے نفاذمیں پنجابی توپنجابی کے نفاذمیں اردوسے کدورت بھرتی جاتی ہے جس کا فائدہ انگریزی زبان نے اٹھایا اوراب وہ دفتری زبان بنی بیٹھی ہے اوراردووپنجابی باہم دست وگریبان ہیں ایک تنظیم کہتی ہے کہ اردوہی ہودوسری کہتی ہے پنجابی ہوحالانکہ ان دونوں زبانوں سے متعلقہ ادبی تنظیموں کا باہمی مشاورت سے چلناچاہئے اورانکی ترویج میں ایک دوسرے کادست وبازوبننا چاہیے تاکہ ان دونوں زبانوں کوان کا جائزمقام مل سکے ۔

Browse More Urdu Literature Articles