Jaun Elia - Article No. 1121

Jaun Elia

جون ایلیا۔۔۔ - تحریر نمبر 1121

نادرِ روزگار تھے ہم تو: (حصہ چہارم)

ہفتہ 3 دسمبر 2016

جانا نہیں ہے گھر سے نکل کر کہیں، مگر
ہر ماہ رُو کے گھر کا پتہ چاہیے ہمیں
کیسی سچی کیفیت ہے۔ کتنی بار ایسا ہوتا ہے کہ ہم اس بات سے قطع نظر کہ ہمیں ان معلومات کی ضرورت ہے یا نہیں، کسی کے بارے میں سب کچھ جاننا چاہتے ہیں۔ کتنے اشعار اس موضوع پر اردو شاعری میں ملیں گے آپ کو؟ جون چھوٹے دائرے کا شاعر نہیں۔ جون ایک آفاقی شاعر ہے جس کا دائرہ پوری انسانی حسّیات پر محیط ہے۔

کیا تکلف کریں یہ کہنے میں
جو بھی خوش ہے، ہم اُس سے جلتے ہیں
ایسا سچا اور کھرا شاعر کوئی دوسرا نہ ہوا ہوگا۔ کس میں اتنی ہمت ہوگی جو یہ کہہ سکے؟ مگر کوئی ہے جو اس بات سے انکار کرے؟ حسد کا جذبہ جس شدت سے انسانی نفسیات میں گہرا اُترا ہوا ہے شاید اتنا کوئی اور جذبہ نہیں، خواہ ہم اس کا اعتراف کریں یا نہ کریں۔

(جاری ہے)

جو ن نے اعتراف بھی کیا اور ہمیں آئینہ بھی دکھا دیا۔

اسی طرح کی سچائی پر مبنی ایک اور شعر دیکھئے۔
ہاں ٹھیک ہے، میں اپنی انا کا مریض ہوں
آخر مرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی؟
بڑے بڑے اناگیر ہیں جو انکسار کا ڈھونگ رچاتے نہیں تھکتے، اور یہاں یہ شخص ہے جو کھل کر ایک ایسی انسانی کمزوری کا اعتراف کر رہا ہے، جو بیشتر انسانوں میں ہوتی ہے، مگر جسے قبول کرنے کی ہمت ان میں نہیں ہوتی۔

اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی
لاہور میں ایک بہت جیّد شاعر نے اس شعر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ”بتائیے صاحب۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی؟ شاعر تو وفا کا پرچار کرتا ہے،
یہ کیسا شاعر ہے جو وفا کا ذکر کرنے والے کا منہ نوچ لینا چاہتا ہے؟“ میرا جی چاہا کہ یا تو ان حضرت کا منہ نوچ لوں یا اپنے بال نوچ ڈالوں۔
وفا کی گھٹتی ہوئی قدر اور انسان کی اس بنیادی صفت کے ختم ہونے کا کرب ایسے طنزیہ انداز میں ایک باکمال شاعر کے ایک شاندار شعر کی صورت میں منتج ہوا، جس کو سمجھنے کی صلاحیت سے بھی بہت سے لوگ محروم ہیں۔ محسوس کرنا اور اس کرب میں شریک ہونا تو دور کی بات ہے۔
ہم موجہٴ شمیم کی صورت برہنہ ہیں
تُو رنگ بن کے آ کہ ردا چاہیے ہمیں
غالب نے کہا تھا کہ … چمن زنگار ہے آئینہٴ بادِ بہاری کا… کتنے قاری ہیں جنھیں یہ بات سمجھ آئی کہ جون ایلیا نے اس خیال کو ایسے personalize کر دیا ہے کہ مرزا نوشہ سنتے تو جون میاں کا ماتھا چوم لیتے۔

نظر پر بار ہو جاتے ہیں منظر
جہاں رہیو، وہاں اکثر نہ رہیو
Monotony کی صورت ِحال پر ایسا بڑا شعر اگر آپ نے کہیں پڑھا ہو تو میں سننا چاہوں گا۔ اس شعر کا تو پہلا مصرع ہی اتنا بڑا ہے کہ صرف اس پر ایک فلسفیانہ مقالہ تحریر کیا جا سکتا ہے۔
شکستِ اعتمادِ ذات کے وقت
قیامت آ رہی تھی، آ گئی کیا؟
اپنی ذات پر اعتماد ہی ہے جو جینے کا حوصلہ دیتا ہے، دنیا کو جھیلنے کی سکت دیتا ہے۔
جب یہ اعتماد ٹوٹتا ہے تو یہی گمان گزرتا ہے کہ وجود کا اب کوئی جواز نہیں۔ قیامت کا کوئی اور نہیں یہی دن ہے۔ اور پھر یہ سوال… قیامت آ رہی تھی، آ گئی کیا؟ کیا کہیے اس باب میں مزید۔
اس کی امیدِ ناز کا، ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجیے، عمر گزار دی گئی
میرے نزدیک یہ جون ایلیا کے بہترین اشعار میں سے ایک ہے۔ شدتِ احساس کی ترسیل کی ایسی اعلیٰ مثال بہت کم پڑھنے میں آتی ہے۔
کسی بھی شاعر کے لیے یہ سب سے مشکل کام ہوتا ہے کہ قاری تک اس احساس کو اسی شدت کے ساتھ منتقل کر دے جو اس خاص کیفیت کا آئینہ دار تھا۔ جون صاحب یہ کام ایسی سہولت سے کر جاتے ہیں کہ انھیں اس کی داد تک نہیں ملتی۔
ہم کہ اے دل سخن سراپا تھے
ہم لبوں پر نہیں رہے آباد
کیسا بڑا المیہ ہے آج کے انسان کا۔ کیبل ٹی وی، سیل فون اور انٹرنیٹ پر مصروف انسان کا المیہ۔
بولنے ہی سے تھے جو رشتے تھے۔ آج کا انسان کیا عجب ہے کہ بولتا ہی نہیں۔ لبوں پر آباد رہنے والے سخن سراپے آج خاموش ہیں۔ تبھی تو ایسی ویرانی ہے دنیا میں ہر طرف۔ مگر جون یہیں پر بس نہیں کر جاتا… وہ اس المیہ سے اتنا متاثر ہے کہ اس کا ذہن فوراً یہ سوال اٹھاتا ہے کہ…
جانے کیا واقعہ ہوا، کیوں لوگ
اپنے اندر نہیں رہے آباد
جدید حسیّت اگر یہ نہیں تو اور کیا ہے؟ اب پوچھے کوئی ان جیّد نقادوں سے جو جدید حسیّت کا راگ الاپتے ہیں مگر ان کی گفتگو میں کہیں جون ایلیا کا ذکر نہیں آتا۔
جدید عہد کا اس سے زیادہ الم ناک واقعہ کوئی نہیں کہ لوگ اپنے اندر آباد نہیں رہے۔ آج ہم اپنے اطراف میں پھیلی ہوئی اشیاء کے حوالے سے زندگی گزارتے ہیں۔ یہ انسان کے اندرون کی موت ہے۔ گویا انسان کی موت۔ ایک غیر انسانی طرزِ احساس کا مظہر۔ کسی اور مخلوق کی سمت Devolution کی بنیاد۔
بہت بے آسرا پن ہے، سو چپ رہ
نہیں ہے یہ کوئی مژدہ، خدا نئیں
جب مایوسی حد سے بڑھتی ہے، جب ایک حساس شاعر اپنے اطراف پھیلتی ہوئی بے گانگی، بھوک، افلاس، ناانصافی دیکھتا ہے تو کسی بھی سوچنے والے ذہن کی طرح خدا کے وجود پر سوال اُٹھاتا ہے، مگر ایک ایسے لہجے میں کہ دیوانے کی بڑ نہیں بلکہ جیسے کسی فلسفی کا قول شعر میں ڈھلتا ہے… بہت بے آسرا پن ہے، سو چپ رہ۔
نہیں ہے یہ کوئی مژدہ خدا نئیں!
تو ہے پہلو میں، پھر تری خوشبو
ہو کے باسی کہاں سے آتی ہے
یہ شعر کسی بے وفا محبوبہ کے جسم سے آنے والی مہک کا بیان نہیں۔ یہ ایک بٹے ہوئے انسانی تعلق کا نوحہ ہے۔ اس سے زیادہ تشریح کرنے کی بجائے صرف اتنا کہوں گا کہ جون ایلیا ایک ایسا شاعر ہے جسے بڑی بات کو بالکل سامنے کی بات بنا دینا آتا ہے، اور اس خوبی کا نتیجہ یہ ہے کہ
پڑھنے والا دھوکہ کھا جاتا ہے۔
سپردگی جب کامل سپردگی نہیں رہتی تو پھر تری خوشبو… ہو کے باسی کہاں سے آتی ہے… اور آج کے اس دور میں کامل سپردگی ہم بٹے ہوئے انسانوں کے نصیب میں بھلا کہاں؟
خوش ہو سینے کی ان خراشوں پر
پھر تنفّس کے یہ صلے بھی کہاں
ایک ایسا انسان جس کے پھیپھڑے چالیس سالہ پرانی ٹی بی، اور اس پر دی گئی برسوں پر محیط سگریٹوں کی دھونی نے چھلنی کر رکھے ہوں، اس کا اس تکلیف کو ایسا شعر بنا دینا کوئی معمولی بات ہے؟
کیوں ہمیں کر دیا گیا مجبور
خود ہی بے اختیار تھے ہم تو
جبر و اختیار پر کیا کیا مباحث قدما، متوسطین سے لے کر آج تک جاری ہیں۔
ایسی فلسفیانہ بحث کو کس سہولت سے دو مصرعوں میں سمیٹ دیا ہے جون ایلیا نے۔ یہ شعر محض ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ جون صاحب کے یہاں اس طرح کے فلسفیانہ موضوعات پر بے شمار اشعار ملتے ہیں۔

Browse More Urdu Literature Articles