Kashmir Ko Bacha Lo - Article No. 2350
”کشمیر کو بچا لو “ - تحریر نمبر 2350
مصنف نے بھارتی برسراقتدار پارٹی’بھارت جنتیا پارٹی‘ نے بھارتی آرٹیکل 370کے خاتمے کے اعلان 5اگست 2019ء کو بھارتی راجیہ سبھا(ایوانِ بالا) میں پیش کیا، اعلان سے قبل انڈین صدر اس بل پر دستخط کر چکے تھے دفعہ370کا اعلان بھارتیہ سینیٹ میں وزیر داخلہ امیر شاہ نے بل پیش کیا
شاہد اعوان بدھ 27 مئی 2020
(جاری ہے)
کتاب میں آزادکشمیر سے مقبوضہ کشمیر کے پرچموں کے تقابلی جائزے سے لیکر مہاراجہ کشمیر کی بھارت سے الحاق کی درخواست اور ڈوگر شاہی کے شجرے تک تاریخی حوالوں اور خوبصورت الفاظ میں پرویا گیاہے ۔
مصنف کتاب میں رقمطراز ہیں ”کشمیریوں کے ساتھ جو ظلم وستم سکھوں کے عہد میں ڈوگرہ سامراج کے سامنے ہوتا تھا وہ آج بھی جاری ہے۔ مور کرافٹ انیسویں صدی کے حوالے سے 1824ء میں کشمیر کی سیاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے ” کشمیریوں کے ساتھ جانوروں جیسا بلکہ اس سے بھی بدتر سلوک ہوتا ہے، سکھ دور کی بات ہے کہ اگر کسی سکھ کے ہاتھوں کوئی مقامی قتل ہوجاتا تو قاتل پر 16سے لیکر 20روپے تک جرمانہ کیا جاتا تھا اور رقم سرکاری خزانے میں جمع ہو جاتی تھی۔ قتل ہونے والے کے لواحقین کو اگر کوئی غیر مسلم ہوتا تو چار وروپے اور اگر مقتول مسلمان ہوتا تو اس کے گھر والوں کو صرف دو روپے ملا کرتے تھے۔ “ 1947ء میں کشمیر میں 77%مسلمان تھے مگر2011ء کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی تعداد کم ہو کر 67.01%رہ گئی تھی، ہندو20.07%، سکھ 2.08%، بدھ مت 1.07%جبکہ دیگر قومیں 0.77%ہیں ۔ کشمیر پر پانچ سو سال تک مسلمان حکمران رہے، ایم اے خان کی کتاب ” کشمیر تاریخ کے آئینے میں“ کے مطابق 200سال تک(1360ء سے 1560ء تک) سلطان شہاب الدین غوری اور سلطان زین العابدین عرف بدھا شاہ یہاں حکمران رہے، 1560ء سے1587ء تقریباٌ 27سال چک خاندان کشمیر پر حکمران رہا اس کے بعد مغلوں نے 1587ء سے1752ء تک اقتدار اپنے پاس رکھا اور پھر1752 ء سے1819ء تک افغانوں کا اقتدار رہا اس کے بعد سکھوں نے1846ء تک حکمرانی کی۔ اس عرصے میں برصغیر میں انگریز کا اثرورسوخ قائم ہو چکا تھا لہٰذا انگریز نے کشمیر کو 9مارچ1846ء کو بیعہ نامہ امرتسرکے نام سے ڈوگرہ سامراج سے گلاب سنگھ کو75لاکھ تانک شاہی سکہ رائج الوقت کے عوض فروخت کر دیا تھا، جس پر علامہ اقبال نے کہاتھا: دہقان وکشت وجوئے وخیابان فروختند تومے فروختند وچوں ارزاں فروختند جبکہ حفیظ جالندھری پکار اٹھے: لوٹ لی انسان کی قسمت پچھتر لاکھ میں بک گئی کشمیر کی جنت پچھتر لاکھ میں بعد میں گلاب سنگھ کے پوتے مہاراجہ ہری سنگھ نے23دسمبر1826ء سے 26اکتوبر1847ء تک کشمیر پر حکمرانی کی، وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کا خواہاں تھا بالخصوص اس کا وزیراعظم پنڈت رام چندر کاک پاکستان کے ساتھ الحاق کا شدید خواہشمند تھا۔ الحاق ہوبھی گیاتھا مہاراجہ نے پاکستانی پرچم کو سلای بھی دے رکھی تھی صرف معاہدہ ہونا باقی تھا کہ بھارت نے ڈرا دھمکا کے برصغیر کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مہاراجہ ہری سنگھ سے پے در پے ملاقاتیں کر کے اسے دباؤ میں ڈال کر بھارت کے ساتھ الحاق کے لئے تیار کیا تھا۔ ”پاکستا ن میں تہذیب کا ارتقاءٴ‘ نامی کتاب کا مصنف لکھتا ہے کہ ماہرینِ ارضیات کے مطابق سرزمین کشمیر کو وجود میں آئے دس کروڑ سال گزرے ہیں کروڑوں برس پہلے یہ سارا کا سارا سمندر کے نیچے دبا ہوا تھا اور آہستہ آہستہ طبعی حالات کی تبدیلی سے کوہِ ہمالیہ کی چوٹیاں ظاہر ہونا شروع ہوئیں اور پھر رفتہ رفتہ گھاٹیاں اور وادیاں ظہور میں آ گئیں، جب کشمیر میں ہر طرف پانی اور منجمد پہاڑ تھے تو طبقات الارض کے ماہرین کے مطابق خشکی کا پہلا سرا جو آتش فشاں جزیرے کی صورت میں نمودار ہوا وہ کوہِ سلیمان تھا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پہاڑ اونچائی حاصل کرتے گئے اور وادیٴ کشمیر جھیل کی صورت اختیار کر گئی ۔ آزاد کشمیر سارے کشمیر کا 37%ہے جبکہ بھارت نے63%پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے ۔ کشمیر کو ’جنت ارضی‘ کہاجاتا ہے وہ زمینی جنت جسے دیکھنے دنیا بھر سے سیاح کشاں کشاں چلے آتے تھے ۔ یہ وہ وادی ہے جس کے بارے عرفی نے کہا تھا: اگر فردوس برروئے زمیں است ہمیں است، ہمیں است، ہمیں است کشمیر ایشیأ کے دل کی حیثیت رکھتا ہے اس کا کل رقبہ84,471مربع میل ہے کشمیر کی سرحدیں چار ممالک تک پھیلی ہوئی ہیں پاکستان، چین، افغانستان اور بھارت۔ سابق سوویت یونین کے درمیان افغانستان کی ایک تنگ سی پٹی”واخان“ حائل ہے۔ دنیا کے کم و بیش110ممالک سے کشمیر بڑا خطہٴ زمین ہے ، جغرافیائی لحاط سے کشمیر کی سرحدوں کا زیادہ علاقہ پاکستان سے جڑا ہوا ہے پاکستان سے ملنے والی کشمیر کی سرحد کم وبیش آٹھ سو کلو میٹر ہے ۔ قیام پاکستان سے قبل قائداعظم گرمیوں میں کشمیر جایا کرتے تھے، شیخ عبداللہ قائداعظم کے قریب جانے کی کوششوں میں رہتا تھا وہ خود کو شیرِ کشمیر کا خود ساختہ خطاب دیتا تھا۔ 1935ء میں جب قائداعظم محمد علی جناح سرینگر گئے تو شیخ عبداللہ مزرا محمد افضل بیگ کے ہمراہ انہیں ہاؤس بوٹ میں ملا، پھر گاہے بگاہے ملاقاتیں ہوتی رہیں انہی ملاقاتوں میں ایک موقع پر قائد نے شیخ عبداللہ سے کہا تھا ”ہندو پر کبھی اعتبار مت کرنا“۔ مصنف نے آگے چل کر بھارتی برسراقتدار پارٹی’بھارت جنتیا پارٹی‘ نے بھارتی آرٹیکل 370کے خاتمے کے اعلان 5اگست 2019ء کو بھارتی راجیہ سبھا(ایوانِ بالا) میں پیش کیا، اعلان سے قبل انڈین صدر اس بل پر دستخط کر چکے تھے دفعہ370کا اعلان بھارتیہ سینیٹ میں وزیر داخلہ امیر شاہ نے بل پیش کیا۔ اس خصوصی اجلاس کی منظوری بھارتی وزیراعظم مودی نے دی بل کے حق میں 125جبکہ مخالفت میں 61 ووٹ پڑے، اس بل کی منظوری نے کشمیر کی 70سال سے حاصل خصوصی حیثیت ختم ہو گئی ہے ۔ بھارت کے آئین کی شق 35اے کے تحت جموں وکشمیر کے جدی پشتی باشندوں کے لئے خصوصی حقوق اور استحقاق کا تعین کرنے کا اختیار ریاستی قانون ساز اسمبلی کو حاصل ہے، بھارت کی سپریم کورٹ میں دفعہ 35اے کے خلاف کئی درخواستیں زیر سماعت ہیں۔ 35Aکے خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں80لاکھ سے زائد کشمیری گھروں میں جبری قید میں ہیں، 13ہزار سے زائد نوجوان کشمیریوں کو گھروں سے اٹھا کر بیگار کیمپوں اور مسنگ پرسنز میں ڈال دئیے گئے ہیں جبکہ وادی میں دفعہ144 نافذ ہے۔ نیشنل کانفرنس کے یاسین ملک کو بدنام زمانہ تہاڑ جیل اور عمر عبداللہ ، پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کی محبوبہ مفتی، حریت کانفرنس کے سید علی گیلانی، جموں و کشمیر پیپلزکانفرنس کے صدر سجاد لون گھروں میں نظر بند ہیں۔ انڈیا کی9لاکھ فوج ہر قسم کے جدید اسلحے کے ساتھ کشمیریوں کے سروں پر بندوقیں تانے کھڑی ہے اور یہی حال اب انڈیا کے مسلمان آبادی کے شہروں میں بھی ہے ، 80لاکھ سے زائد کشمیری گھروں میں محصور ہیں، عورتیں اور بزرگ علاج معالجہ سے محروم ہیں ، بچے سکول نہیں جا رہے غرض زندگی عذاب بن چکی ہے اور کشمیری مسلمانوں کے دنیا بھر سے رابطے ختم ہو چکے ہیں، بقول ترک راہنما طیب اردگان ”پورا مقبوضہ کشمیر قید خانہ بن چکا ہے! “ مظلوم کشمیریوں پر غاصب بھارت کے ظالمانہ لاک ڈاؤن کو 9ماہ سے زائد ہو چکا ہے۔ قدرت نے اس کے بدلے کورونا وائرس کی صورت میں پوری دنیا کی تقریباٌ 8ارب آبادی کو عذاب میں گرفتار کر دیا ، کورونا دراصل مکافاتِ عمل ہے لاچار ومحکوم انسانوں کی آہ وبکا کا خمیازہ ہے وہ کشمیر میں ہوں ، افغانستان، برما، شام ، فلسطین یا انڈیا کے بے یارومددگار مسلمان ۔۔۔ خدا غارت کرے بھارتی وزیراعظم ”موذی“ کو، جس نے خطے کا امن برباد کرکے رکھ دیا ہے سارا ہندوستان میدان ِ جنگ بنا ہوا ہے 30کروڑ مسلمان سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں کورونا وائرس کی آڑ میں مسلمانوں کو اچھوت بنا دیا گیا ہے ۔21ویں صدی میں علامہ اقبال کا خواب اور قائداعظممحمد علی جناح کی انتھک کوششوں کو سلام پیش کرتے ہیں اگر ان اکابرین نے1947ء کو پاکستان کی تعبیر ممکن نہ بنائی ہوتی تو پاکستانیو!چشمِ تصور سے دیکھو تو حقیقت خود بخود تم پر آشکار ہو جائے گی کہ آج ہم کس حال میں ہوتے؟ ہمارے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جاتا؟ کیا آج ہم جو ہیں وہ ہو پاتے ؟ بقول اقبال اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیریBrowse More Urdu Literature Articles
کتنے یگ بیت گئے
Kitne Yug Beet Gaye
پروین شاکر کی حادثاتی موت کی نامکمل تحقیقات
Parveen Shakir Ki Hadsati Maut Ki Namukammal Tehqiqat
جلتی ہوا کا گیت
Jalti Hawa Ka Geet
ماں اور پروین شاکر
Maan Aur Parveen Shakir
پروین شاکر کا رثائی شعور
Parveen Shakir Ka Rasai Shaoor
ریت
Rait
لا حاصل از خود
La Hasil Az Khud
فقیرن
Faqeeran
داستان عزم
Dastaan E Azm
محمد فاروق عزمی کا پرعزم اور پر تاثیر قلمی سفر
Mohammad Farooq Azmi Ka PurAzam Aur PurTaseer Qalmi Safar
حلیمہ خان کا تقسیم 1947 کے شہداء کو سلام
'Walking The Divide: A Tale Of A Journey Home'
جہیز
Jaheez