Khushi Kaise Bala Hai - Article No. 2263

Khushi Kaise Bala Hai

خوشی کیسی بلا ہے - تحریر نمبر 2263

اگر دیکھا جائے تو ۔۔ ہم نے بھی تو خوشی کو چیزوں کے ساتھ جوڑ لیا ہے اور سمجھ بیٹھے ہیں کہ جتنی چیزیں ہونگی اتنی خوشی ہو گی مگر ایسا نہیں ہوتا چیزیں آتی رہتی ہیں مگر خوشی نہیں آتی ۔

Asma tariq اسماء طارق پیر 17 فروری 2020

یونہی بیٹھے بیٹھے اچانک خیال آیا کہ بچپن کے دن بھی کتنے اچھے تھے۔ کیسے چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہو جاتے تھے تب تو کاغذ کا ایک جہاز بھی اتنی خوشی دیتا تھا جیسے پوری دنیا مٹھی میں ہو ۔ ایک چھوٹی سی گیند کے ساتھ سارا دن ہنسی خوشی گزر جاتا تھا۔ دوست یار سب اکٹھے کھاتے پیتے اور کھیلتے تھے نہ کچھ چھننے کا ڈر اور نہ کچھ کھو جائے کا خطرہ تھا ۔
نہ غیر ضروری سوچوں کا غبار ہوتا تھا اور نہ ادھر ادھر کی الجھنیں نام رہے سائیں کا بس سچے دل سے محبتیں بانٹتے تھے اور بدلے میں وہی سمیٹتے تھے۔۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ جانے کیا ہو جاتا ہے ۔۔جوں جوں بڑے ہوتے جاتے ہیں ۔۔خوشی سمیٹنا اتنا ہی مشکل ہو جاتا ہے ۔ جہاں پہلے چاندی کا سکہ بھی کسی خزانہ سے کم نہ تھا وہاں اب خزانہ بھی ہاتھ لگ جائے تو خوشی نہیں ہوتی ۔

(جاری ہے)

شاید وقت کے ساتھ ساتھ انسان کی لالچ اور چاہ بڑھتی جاتی ہے جس وجہ سے اسے کسی چھوٹی موٹی چیز سے خوشی نہیں ہوتی ۔ یہ تو حقیقت ہے کہ وقت کے ساتھ زندگی کی الجھنیں بھی بڑھتی جاتی ہیں اور پھر رسم دنیا بھی نبھانی ہوتی ہیں یہ سب مل کر انسان کا کباڑا نکال دیتی ہیں ۔ ایسے میں وہ بچپن جیسی انمول خوشی کو حاصل کرنا کسی کرم سے کم نہیں ۔ پھر کھو دینا کے خدشات بھی بڑھتے جاتے ہیں.. مقابلے اور دوسروں سے آگے بڑھنے کی چاہ بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتی.
اب بڑے ہو کر تو یہ حالت ہے کہ جب کسی شے کی چاہت پروان چڑھتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے بس اگر یہ شے مل جائے تو دنیا مل جائے گی ۔
۔مگر جو حاصل کر لو تو اہمیت ختم چاہت ختم ۔۔ خوشی بھی بس ایک دو پل کی تھی وہ بھی کچھ دیر میں ختم ۔۔ اب پھر کسی اور شے کی چاہت پنپنے لگتی ہے پھر اسے حاصل کرنے کی جستجو شروع ہو جاتی ہے پھر وہ بھی مل جاتی ہے مگر خوشی نہیں ملتی اور جوں کا توں مرتے دم تک یہ سفر جاری رہتا ہے مگر نہ خوشی ملتی اور نہ طمانیت بس تو پھر بقول جناب وزیراعظم عمران خان صاحب کے سکون صرف قبر میں ہی ملتا ۔

مگر اگر دیکھا جائے تو ۔۔ ہم نے بھی تو خوشی کو چیزوں کے ساتھ جوڑ لیا ہے اور سمجھ بیٹھے ہیں کہ جتنی چیزیں ہونگی اتنی خوشی ہو گی مگر ایسا نہیں ہوتا چیزیں آتی رہتی ہیں مگر خوشی نہیں آتی ۔ خوشی کوئی کھلونا تو نہیں نہ جسے بازار سے خرید لایا جائے یہ تو احساس ہے جو طمانیت سے نصیب ہوتا ہے اور طمانیت تو شکر گزاری کا انعام ہے ۔ یہی تو فرق ہے بچے اور بڑے میں کہ بچہ چھوٹے سے کھلونے سے بھی خوش ہو جاتا ہے وہی اسکی شکر گزاری ہے مگر بڑا چیزیں اکٹھا کرتا رہتا ہے مگر خوش نہیں ہوتا کیونکہ وہ شکرگزار نہیں ہوتا اس پر جو اسے دیا گیا... وہ تو بس بھاگتا رہتا ہے اور سے اور کی چاہ میں ۔
۔ایسے میں خوشی کیسے ملے ۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کی خوشی اور غم کا تعلق بھی اس کی سوچ کے ساتھ منسلک ہے یعنی کہ وہ کیا سوچتا ہے یہ بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ اچھا سوچے گا تو دماغ میں اچھے اچھے خیال آئیں گے ۔۔ ماحول پر مثبت اثرات مرتب ہونگے ۔۔۔پھر اسکا دماغ کام بھی کرے ۔۔کوشش کرے گا.. زندگی میں opportunities کی تلاش میں رہے گا اور زندگی بھی اس پر مہربان ہو گی کیونکہ وہ شکر گزار ہے اسکا جو اسے دیا گیا... اس لیے وہ اطمینان سے ہے اور اسے خوشی بھی ملے گی ۔
اور اگر انسان سارا دن خود کو مظلوم اور بیچار سمجھتا رہے تو وہ دماغی اور جسمانی طور کمزور ہوتا جائے گا۔ وہ کوشش ترک کر دے گا اور حالات کا مقابلہ کرنے کی بجائے، ہار مان لے گا۔ پھر نہ اطمینان ہوگا اور نہ ہی خوشی ملے گی ۔ ناشکری بری بلا ہے جو سب چھین لیتی ہے اور انسان کو بھگا بھگا کر تھکا دیتی ہے ۔ خوشی اور غم کا تعلق بھی اس کی سوچ سے ہے۔
خوشی بھی انسان کی سوچ سے پیدا ہوتی ہے۔ خوشی کوئی چیز تو نہیں، جو ہمیں مل جائے تو ہم خوش ہو جائیں گے ۔ جیسا کہ کہا گیا ہے یہ تو صرف اور صرف ایک احساس ہے اور ہر احساس کی بنیاد سوچ ہےتمام نعمتیں جو رسول اللہ ﷺ کو عطا کی گئیں آپکو بھی دی گئیں ہیں۔ اور وہ نعمتیں جن کے لیے ہم کوئی قیمت ادا نہیں کرتے اگر ہم یہ جان جائیں تو ہم خوشی سے مغلوب ہو جائیں گے ۔
ہمارا غم کم ہونا شروع ہو جائے گا اور حتی کہ مٹ جائے گا۔ ہماری پریشانی مسکراہٹ سے بدل جائے گی۔ اور خوشی وہ تو پھر بانٹنے سے بڑھتی ہے خود خوشی چاہتے ہو تو دوسروں کو خوش رکھنا شروع کر دو وہ کہتے نہیں ہیں کہ جس کی طلب ہو وہ دوسروں کو دینا شروع کر دو ۔
اور خوشی کوئی بلا نہیں جو مل نہیں سکتی اور نہ ہی یہ جادو ہے جو صرف جادوگر کے پاس ہو ۔
۔ نہ یہ امیروں کی وراثت ہے یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ اکثر امیر کے پاس سب کچھ ہوتا ہے.. دولت، خزانے، جائیدادیں مگر خوشی نہیں ہوتی، سکون نہیں ہوتا اور غریب کا گھر کچا ہو گا ۔۔سوکھی روٹی ہو گی مگر خوشی ہو گی پاس.. سکون ہو گا۔۔ گویا کہ خوشی کا تعلق کسی خزانہ سے نہیں اور نہ ہی اسے چیزوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔
خوشی چاہیے تو چیزوں کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت نہیں بس شکر گزاری سیکھ لو ۔
۔ لالچ سے دور رہو ۔۔کسی کا حق نہ مارو ۔۔ نیت کھوٹی نہ کرو ۔۔ جو ہے اسے بانٹنا شروع کردو پھر دیکھنا خوشی کیسے بھاگ کر آتی ہے تمہاری طرف ۔۔ کیسے اطمینان لاتی ہے ۔۔اور دکھ درد بھی پھر خودبخود کم لگنا شروع ہو جائیں گے ۔۔ زندگی مواقع بھی دے گی اور آگے بھی بڑھائے گی ۔۔۔بس ناشکری نہ کرنا ۔۔ اور نیت کھوٹی نہ کرنا ۔

Browse More Urdu Literature Articles