Marsiya - Article No. 2142

Marsiya

مرثیہ - تحریر نمبر 2142

خالی تھے اور عزتوں کے بغیر تھے مگر پھر بھی وہ مست تھے کیونکہ آئندہ سے خوفزدہ نہ تھے۔ قافلے تھے کہ چلے آرہے تھے، بڑھتے آرہے تھے

Syed Sardar Ahmed Pirzada سید سردار احمد پیرزادہ جمعرات 3 اکتوبر 2019

ہم نے بزرگوں کی لکھی کتابوں میں پڑھا ہے کہ اُس موسم گرما میں لوگ زخمی تھے، خالی تھے اور عزتوں کے بغیر تھے مگر پھر بھی وہ مست تھے کیونکہ آئندہ سے خوفزدہ نہ تھے۔ قافلے تھے کہ چلے آرہے تھے، بڑھتے آرہے تھے۔ بیل گاڑیوں پر، پیدل اور ٹرینوں پر۔ جب کوئی ٹرین پلیٹ فارم پر رکتی تو ڈبے کی سیڑھیوں سے انسانوں کی بجائے سسکیاں، درد اور غم بہہ کر اترتا۔
جب پیدل چلنے والے چھپتے چھپاتے درجنوں کی تعداد میں آگے بڑھتے تو چند میل دور جاکر ان میں سے ایک آدھ ہی بچتا۔ بیل گاڑیوں کا راستہ کٹے پھٹے جسموں سے ناہموار ہوچکا تھا۔ انسانی خون اتنا بہہ رہا تھا کہ بیلوں کے پاؤں اکثر لال رنگ کی دلدل میں پھنس جاتے۔ انسانی تاریخ کی بہت بڑی ہجرت جاری تھی۔ لوگ تھے کہ چلے آرہے تھے، بڑھتے آرہے تھے۔

(جاری ہے)

ہم نے بزرگوں کی لکھی کتابوں میں پڑھا ہے کہ اُس موسم گرما میں لوگ زخمی تھے، خالی تھے اور عزتوں کے بغیر تھے مگر پھر بھی وہ مست تھے کیونکہ آئندہ سے خوفزدہ نہ تھے۔

پھر اِدھر انہیں ملک کی بجائے کیمپوں میں رکھا گیا۔ بہادر، غازی یا شہید کی بجائے مہاجر کہا گیا۔ دن کو تیز دھوپ، رات کو اندھیرا اور ہر وقت اردگرد منڈلاتے کالے سائے ان کے ساتھ ساتھ رہتے۔ لٹے ہوئے اور لٹتے رہے، مرے ہوئے اور مرتے رہے۔ اس برس حبس کے موسم میں صدیوں کی حبس اکٹھی ہوچکی تھی۔ کیمپوں کے باہر شہر کی اونچی دیواروں کے اندر بھی انہیں اپنایا نہیں گیا، اچھوت بنا دیا گیا۔
بہت سے اِدھر رہنے والے بھی انہی جیسے سلوک سے دوچار تھے۔ ان سب کو جگہ جگہ وعدے دیے جارہے تھے، دھوکے مل رہے تھے۔ ہم نے بزرگوں کی لکھی کتابوں میں پڑھا ہے کہ پھر بھی وہ مست تھے کیونکہ آئندہ سے خوفزدہ نہ تھے۔ پوری بستی پر کسی مکڑی نے اپنا جالا تان رکھا تھا۔ جالے میں پھنسے لوگ بھوکے تھے، پیاسے تھے، بیمار تھے۔ اگر کسی نے ہمت کرکے اِس پر لکھا تو ننگا منٹو کہہ کر اسے خاک پہنا دی گئی۔
اگر کسی نے آواز بلند کی تو اس کا گلہ جالب کہہ کردبا دیا گیا۔ اگر کوئی بولا تو اسے فیض کہہ کر دفنا دیا گیا۔ اگر کسی نے مترنم سکون دینے کی کوشش کی تو فراز کہہ کر اس کے خلاف پراپیگنڈہ کیا گیا۔ کچھ فکرمندوں کے علاوہ زیادہ تر نے اقبال فراموشی کو فیشن بنالیا۔ بس یوں ہی گلاب چہرے کیکر کے کانٹوں میں بدلتے رہے۔ انگ انگ آگ لیے جوانیاں پرانے قبرستان میں پڑے ڈھانچوں میں تبدیل ہوتی گئیں مگر پھر بھی وہ مست تھے کیونکہ آئندہ سے خوفزدہ نہ تھے۔
وقت نے خوش فہمی میں مبتلا اِس نسل پر مٹی بچھا دی۔ جو اُس موسم گرما میں زخمی تھے، خالی تھے اور عزتوں کے بغیر تھے۔ مست تھے اور آئندہ سے خوفزدہ نہ تھے۔ پھر یوں ہوا کہ لوگ ذات پات، رنگ نسل اور مذہب کی تقسیم سے بڑھتے بڑھتے ضلع ضلع میں بٹ گئے۔ چھوٹے بڑے صوبے کی بات ہونے لگی۔ قبائلی اور پہاڑوں والوں کا ذکر ہونے لگا۔ جنوبی اور شمالی کی باتیں پھیلائی گئیں۔
بات یہاں تک جاپہنچی کہ بڑوں کے مفادات کی لڑائی میدانِ جنگ سے نکل کر گھروں اور سکولوں میں داخل ہوگئی۔ چاند بچوں اور ستارا گڑیوں کو مختلف مفادات کے تحت یتیم کیا جانے لگا۔ عید دنوں میں بھی ننھی پریاں اور رنگ برنگی لڑکیاں شربتی چوڑیوں اور مہندی کے لیے بازار نہ جاتیں اور بے پروا بانکے لڑکے بھی مارکیٹوں میں منڈلاتے نظر نہ آتے۔ ننھے منے ہاتھ عیدی لینے کی بجائے اپنے تحفظ کی دعا مانگتے اور اپنوں کی یاد میں آنسو صاف کرتے رہتے۔
اب اکھیاں صرف پردیسیوں کا انتظار نہیں کرتیں بلکہ سکول جانے اور گھر سے باہر جاکر روزگار کمانے والوں کی راہ تکتی رہتی ہیں اور خیریت سے واپسی کی دعائیں مانگتی ہیں۔ اب مستی کی جگہ تشویش نے لے لی ہے کیونکہ آئندہ کا خوف لاحق ہوگیا ہے۔ عجیب رواج عام ہوگئے۔ اقتدار حاصل کرنے کے لیے سازشوں کا سہارا لیا جانے لگا۔ دوسروں کی زبان بولنا اور ان کی ایجنٹی کرنا فخریہ اقدامات بن گئے ہیں۔
کبھی کسی کو ایجنٹ یا غدار کہہ کر سیاست میں مات دینے کا چلن ہوگیا تو کبھی اپنوں کو مرواکر یا جیل بھجوا کر سیاست کی جانے لگی۔ جتنی بڑی موت یا قیدی اتنی بڑی سیاست۔ ہم نے بزرگوں کی لکھی کتابوں میں جو پڑھا تھا کیا وہ دھوکا تھا یا بعد میں کتاب کے اصل صفحات تبدیل کردیے گئے؟ نہ جانے کیا ہوا۔ ایک زمانہ تھا جب چور آدھی رات کو چھپتے چھپاتے چوری کرتے پکڑے جانے پر ڈرکر معافیاں مانگتے۔
موجودہ ترقی یافتہ عہد میں ڈاکو دن دیہاڑے سب کے سامنے آتے ہیں۔ گھر والے انہیں اپنی تمام قیمتی چیزیں اور چابیاں خود پیش کرتے ہیں اور ان سے ہاتھ جوڑکر جان بخشی کی درخواست کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس میں رپورٹ درج نہ کروانے اور محفوظ راستہ دینے کا پکا وعدہ بھی کرتے ہیں۔ ہم بھی دست بستہ ہوکر منت کرتے ہیں کہ سب کچھ لے لیں صرف جان بخش دیں۔ معصوم بچوں کو نہ ماریں، ان کے گھروں کو یتیم خانہ نہ بنائیں، انہیں مہاجر کیمپوں میں نہ بھیجیں، انہیں اپنا بچپن اودھم مچاتے اور اٹکھیلیاں کرتے گزارنے دیں۔ آپ سب کچھ لے لیں۔ ورنہ کہیں بعد میں آنے والی نسلیں ان برسوں کو پاکستان کی جدوجہد والی تاریخ کی بجائے تاریخ کی کتابوں میں لکھا گیا ایک مرثیہ نہ کہیں۔

Browse More Urdu Literature Articles