Mehngi Kabootarian - Article No. 1128

Mehngi Kabootarian

مہنگی کبوتریاں - تحریر نمبر 1128

اکبرے کو ایک ہی ڈرتھا کہ کبوتریاں راستہ نہ بھول جائیں

پیر 19 دسمبر 2016

زویا حسین :
زرینہ اُٹھ جااب ذرونکی سرپہ کھڑی ہے متحرمہ ابھی تک شیخ چلی بنی ہواؤں میں جھونپڑیاں بنانے میں مشغول ہیں۔ ہوں “ اکبرے نے مسواک کو زنگ آلود دانتوں پہ رگڑتے ٹیڈی پھلجڑی کی پرواز کو آنکھوں کی مسکراہٹوں سے سراہتے بے رازی سے کہا تھا۔
نہ اٹھ کر کیا کرنا ہے میں نے ۔ وہ ہی دن ہیں وہ ہی راتیں۔ زندگی یوں آکر کسی نقطے پہ رک جائے گی کب سوچا تھا میں نے ۔

چل تیری وہ ہی بکواس شروع ہوگئی ۔ اٹھ میری شہزادیوں کے لیے یخنی تیار کردیسی چوزوں کی جوتیری ماں نے بھیجے ہیں تجھے ۔ ناں تھجے کیا ضرورت ہے ہٹی کٹی پوری بھینس ہے تو۔ میری شہزادیوں نے انڈے دینے ہیں۔ انڈے میں طاقت ہوگی تو کبوتریاں کی تعداد بڑھے گی ۔
وہ بہت اہم کبوتری تھی۔

(جاری ہے)

پینتیس ہزار کی رام پوری کی جوڑی مہنگی تو نہ تھی۔وارت نیارے کروانے کی طاقت رکھتی تھی وہ ۔

خیرای خیر تھی ۔ ” اکبر کیا میری اوقات تیری کسی سست کا ہل اور نیچی پروازوں والی کبوتری سے بھی کم ہے ؟ کیا میں تیری نظر میں جہاں خوشیاں دھمالیں ڈالتی ہیں کسی کوش کی رنگینیوں کی وجہ بنتی ہوں ؟ یا میری اوقات تیری کبوتریوں کے ٹوٹے پروں کی سی ہے جنہیں تو روز بیکار جان کر جھاڑو سے نکال باہر کرتا ہے ۔
ہاہاہا ۔ تو رہی ہمیشہ کی جھلی ۔
زرینہ بھلا تیرا اور میری کبوتریوں کا کیا مقابلہ ؟ تیرے تو کوئی پر نہیں کہ اڑہی سکے چاہے ایک گزہی سہی ۔ میری کبوتریاں اُڑتی ہیں تونظر سے اوجھل ہوجاتی ہیں یہ جو گاما، شہد اور سارو گجر ہیں نہ انگلیاں دے لیتے ہیں حیرت سے اپنے دانتوں تلے ۔ ان کی یہ پرواز دیکھ ۔ پچھلے مقابلے میں پورے 80ہزار روپے کمائے ہیں۔ میں نے میری یہ کبوتریاں جواڑی ہیں تو باقی مقابلے میں شامل کبوتریوں سے آدھ گھنٹہ بعد واپس آئی ہیں ۔
ہاہاہا۔ اور تو ؟ تیری تو ٹانگیں بھی کام نہیں کرتیں اتنی کہ تو ذرا چھت پہ چڑ کر دانہ ہی ڈال دے انکو۔ لنگڑی زرینہ ہاہاہا۔
زرینہ نے بے اختیار چھت کی منڈ پر پہ کھڑے اکبرے کے جگری دوست بابر آرائیں کو دیکھا تھا جو منہ اندھرے ہی انکے گھر آٹپکتا تھا۔ گھر کی نیچی دیواروں سے چھلانگیں لگاتا وہ چھت پہ چڑھ جاتا قد کاٹھ اور شکل صورت میں بابر آرائیں کاثانی پورے گاؤں میں نہ تھا۔
اکبرے کی اپاہج بیوی کے ناشتہ بنانے تک یہ برباہی تھا جو اکبرے کی کبوتریوں کو پچکارتالا ڈاُٹھاتا اور زرینہ کوتا کتا رہتا۔
غربت کے ساتھ شاہی ذوق رکھنے والوں کے گھروں میں پردہ اور حجاب کہ مفہوم غیرواضح ہوتے ہیں۔ اکبرے کے دوست سارا دن بلاروک ٹوک چھت پہ آتے جاتے تھیت مگر بابر کی تو بات ہی الگ تھی ۔ وہ تو زرینہ کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ بھی لگالیتا تھا اور اکبرے کی غیر موجودگی میں زرینہ کے آنسو بھی پونچھتا تھا۔
زرینہ نے اکبر سے محبت کی شادی کی تھی ۔ مگر کچھ ہی دنوں کے چونچلوں کے بعد اکبرے نے اسے بتا دیاتھا کہ اسکی اصل محبت تو اسکی کبوتریاں ہیں۔ جوانکا سگادہ اکبرے کاسگا۔
زرینہ نے اکبر کی توجہ خاطر کی کبوتریاں کو بھی اپنا سب کچھ بنالیا۔ رات کو تین بار کبوتریاں کو دیکھنے چھت پہ چڑھ جاتی ۔ انکے لیے ہاتھ کی کڑھائی کے غلاف چڑھا کرموم جامے تیار کیے جن پہ وہ بیٹھیں کرتی تھیں اکبرے کو کبوتریوں سے عشق تھا اور زرینہ کو اکبرے سے ۔
اکبرے کے پاس اتنا وقت نہ تھا کہ کبوتریوں کہ علاوہ کچھ دیکھتا۔ زرینہ انکو پانچ روپے والے شیمپو کے اس ساشے سے نہلاتی جو وہ اپنے لیے خریدتی تھی ۔ دوپہر او ررات کے کھانے کا اپنا آدھا حصہ انکو ڈال دیتی تو اور ٹھنڈمیں اپنے گھر کے اکلوتے کمرے میں انہیں اپنے ساتھ لٹائے انہیں گرم رکھتی مگر پھر ایک رات بارش میں وہ جواندھا دھند چھت کی طرف بھاگ نہ سکی۔
گری اور دونوں ٹانگیں بیکار کربیٹھی ۔ اکبر اجو اسکو کبوتریوں کی دیکھ بھال میں مصروف دیکھ کر نرم لہجے میں بات کرتاتھا اب زرینہ کی سسکیاں ، آہیں توجہ کی منتظر آنکھیں کچھ بھی اسکی زبان کی کڑواہٹ کو کم نہیں کرسکی تھیں۔ وہ اکرکہتا :
اکبرے کو اگر کبھی پوری زندگی کسی بات سے ڈرلگا ہے تو بس یہ کہ اسکی کوئی کبوتری راستہ نہ بھول جائے زرینہ توبتا تو کدھرجائے گی ؟ اکبر نے ہمیشہ کی طرح وہ ہی طعنہ دیا توزرینہ کی آنکھیں چھت کی منڈیر پہ کھڑے بابر آرائیں کی طرف اٹھیں جسکی نگاہیں زرینہ کو دلاسہ دیتی تھیں۔
زرینہ نے بے اختیار نگاہوں کا زاویہ بدلا۔
اکبرے میں اڑنا ہی نہیں چاہتی جہاں تو وہاں میں۔ نہیں خدا کی قسم میری اپاہج ٹانگیں وجہ نہیں ہیں کہ میں اڑتی نہیں تیری محبت مجھے روکتی ہے ۔ اور زرینہ مخول نہ کر۔ نہ اڑنا کدھر ہے تو نے ؟ چل شرط لگاتے ہیں آج۔ اوبابرادھر آتیری بھابھی کی چٹیا کاٹتاہوں۔ میں اور ذراسکے جسم کو سگریٹ سے سینکتا ہوں دیکھ تو یہ اڑتی ہے ہاہاہا۔

اکبرے نے آن کی آن میں قینچی پکڑی اور زرینہ کے بال کاٹ دیئے ۔ وہ روتی رہی چیختی رہی مگر وہ کبوتری تو نہ تھی کہ اڑجاتی ۔ سگریٹ کے انگاروں نے اسکی ٹانگوں کو داغ دیا تھا۔ بابر آرائیں اکبرے کے پاس ہی خاموش بیٹھارہا۔ زرینہ جانتی تھی بابرجیت گیا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ خواہ اسکے من میں محبت نہ ہے زرینہ کے لیے مگر وہ ساری زندگی اسے خوش رکھ سکتا ہے اور ایک دن زرینہ جواسکے جذبات سے انکاری ہے خود اسکے پاس چل کر آئے گی ۔
زرینہ نے بابر آرائیں کے ساتھ اسی شب لمبی اُڈاری بھری تھی ۔ اکبرے اور اپنے تین بچوں کو چھوڑ چھاڑ وہ بابرآرائیں کے ساتھ منظرے سے غائب ہوگئی تھی ۔ اکبرے کی کبوتری اڑگئی تھی اور وہ منڈیروں پہ انتظار کی بھٹی میں جلتا روتا رہتا تھا۔

Browse More Urdu Literature Articles