Mera Kashmir - Article No. 2180

Mera Kashmir

میرا کشمیر - تحریر نمبر 2180

ماں ! دروازہ کھولیں جلدی۔ یافر نے زور زور سے دروازہ کھٹکٹاتے ہوے پکارا۔اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔ دروازہ کھلتے ہی وہ اندر داخل ہوا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ ماں ! میں اب سکول نہیں جاؤں گا۔ انہوں نے میرے دوستوں کو مار ڈالا۔

پیر 4 نومبر 2019

میمونہ رحمت

'وہ دیکھیں نا باقی بچے بھی تو سکول جا رہے ہیں'۔ یافر نے کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے کہا۔
ماں! مجھے بھی جانا ہے، آپ ہی تو کہتی ہیں 'میرا یافر پڑھ لکھ کر بڑا انسان بنے گا، اس وادی میں رہنے والوں کو اس کے حقوق دلوائے گا'۔
یافر نے ماں کے کہے گئے الفاظ ہو بہو دہرائے۔
پچھلے تین ہفتوں سے وادی میں کرفیو نافذ تھا۔
تعلیمی ادارے بند تھے اور نظام زندگی معطل ۔
اس ہفتے تین چار دن ہوچلے تھے کہ کرفیو اٹھا لیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود مائیں اپنے بچوں کا گھر سے نکلنے پر ڈرتی تھیں۔
ماں! یافر کے بلانے پر ناشتہ بناتی سدرہ بیگم سوچوں سے باہر آئی ۔ جی بیٹا؟؟
ماں ! مجھے سکول جانے دیں پلیز۔
اچھا چلو پہلے ناشتہ کرو پھر تیار ہو جاؤ۔

(جاری ہے)

سدرہ بیگم نے نہ چاہتے ہوے بھی اسے اجازت دے دی۔


'یہ ہوئی نا بات'۔۔ یافر نے خوشی کا اظہار کیا۔
اس نے جلدی سے ناشتہ ختم کیا۔ یونیفارم اور شوزپہنے اور آ کر آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر بال سنوارنے لگا۔
سدرہ بیگم نے دیکھا تو زیر لب ماشاءاللہ کہا۔
اچھا ماں! اللہ حافظ۔
اللہ حافظ بیٹا! سدرہ بیگم نے آیت الکرسی پڑھ کر یافر پر پھونکی۔
اور وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

یافر کے والد کو اس دنیا سے گئے دو برس ہو گئے تھے لیکن سدرہ بیگم کے لیے یہ دو برس کسی اذیت سے کم نہ تھے۔ اب یافر ہی اس کی کل کائنات تھا۔
اس نے یافر کو سکول تو بھیج دیا تھا لیکن دل میں طرح طرح کے وسوسے آرہے تھے۔ اس نے وضو کیا اور جائے نماز بچھا کر اللہ سے یافر کی سلامتی کی دعائیں مانگنے لگی۔
دل کو کچھ اطمینان حاصل ہوا تو وہ اٹھی اور دوپہر کے کھانے کا انتظام کرنے لگی۔

ابھی پیاز فرائی بھی نہ ہوا تھا کہ باہر گولی چلنے کی آواز سنائی دی۔ اور پھر متواتر گولیوں کے چلنے کی آواز آنے لگی۔
یااللہ خیر۔۔۔سدرہ بیگم گھبرا گئیں۔
لب پر ڈھیروں دعائیں تھیں۔
ماں ! دروازہ کھولیں جلدی۔ یافر نے زور زور سے دروازہ کھٹکٹاتے ہوے پکارا۔اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔
دروازہ کھلتے ہی وہ اندر داخل ہوا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ ماں ! میں اب سکول نہیں جاؤں گا۔ انہوں نے میرے دوستوں کو مار ڈالا۔
نظام زندگی پھر معطل ہو چکا تھا،کرفیو ایک بار پھر نافذ ہو چکا تھا۔
فضا سوگوار تھی جیسے کہہ رہی ہو کہ شہر اماں کے رہنے والو، تم وادی کے رہنے والوں کا درد نہیں جان پاؤ گے، کبھی نہیں!

Browse More Urdu Literature Articles