Mirza Ghalib - Article No. 2154

Mirza Ghalib

مرزا غالب - تحریر نمبر 2154

ایک روز حافظ داؤد اور کنورابراہیم علی خان سویرے سویرے مرزا صاحب کے مکان پر پہنچے۔

ہفتہ 12 اکتوبر 2019

ایک روز حافظ داؤد اور کنورابراہیم علی خان سویرے سویرے مرزا صاحب کے مکان پر پہنچے۔ دیوان خانہ خالی تھا ۔ دونوں حضرات وہیں مونڈھوں پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگے۔ یکا یک مرزا صاحب ننگے سر، پاؤں میں کف پائیان پہنچے اور سیدھے ہاتھو میں برانڈی کی خالی بوتل لیے برآمد ہوئے ۔ مرزا کے ہاتھ میں خالی بوتل دیکھ کر ان دونوں صاحبان کی ہنسی روکے نہیں رکی۔

کنور صاحب نے کہا: آپ کا پینے کا شوق کیا اتنا بڑھ گیا ہے کہ بیت الخلا میں بھی بوتل ساتھ جانے لگی۔
مرزا نے جواب دیا،توبہ کیجیے تو بہ۔اپنے منہ پر تھپڑماریے۔شراب جیسی پاک چیز بیت الخلا میں نہیں جاسکتی ۔میں اس کی حرمت کو خوب پہچانتاہوں۔
امروسنگھ جوہر گوپال تفتہ کے عزیز دوست تھے ۔ ان کی دوسری بیوی کے انتقال کا حال تفتہ نے مرزا صاحب کو بھی لکھا تو انھوں نے جواباًلکھا : ”امرو سنگھ کے حال پر اس کے واسطے مجھ کو رحم اور اپنے واسطے رشک آتا ہے ۔

(جاری ہے)

اللہ اللہ ایک وہ ہیں کہ دوبار ان کی بیڑیاں کٹ چکی ہیں اور ایک ہم ہیں کہ پچاس برس سے اوپر جوپھانسی کا پھندا گلے میں پڑا ہے ، تو نہ پھنداہی ٹوٹتا ہے نہ دم ہی نکلتا ہے ۔“
ایک روز مرزا کے دوست حکیم رضی الدین خان صاحب جن کو آم پسند نہیں تھے ،مرزا صاحب کے مکان پرآئے ۔ دونوں دوست برآمدے میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے ۔ اتفاق سے ایک گدھے والا اپنا گدھا لیے سامنے سے گزرا۔
زمین پر آم کے چھلکے پڑے تھے ۔گدھے نے ان کو سونگھا اور چھوڑکر آگے بڑھ گیا۔ حکیم صاحب نے جھٹ سے مرزا صاحب سے کہا : ”دیکھے! آم ایسی چیز ہے جسے گدھا بھی نہیں کھاتا ۔“مرزا صاحب فوراًبولے ”بیشک گدھا، نہیں کھاتا“
ایک روز مرزا صاحب کے شاگرد میر مہدی مجروح ان کے مکان پر آئے۔ دیکھا کہ مرزاصاحب پلنگ پر پڑے کراہ رہے ہیں۔ یہ اُن کے پاؤں دابنے لگے۔
مرزا صاحب نے کہا ”بھئی توسیّد زادہ ہے، مجھے کیوں گنہگار کرتا ہے ؟“ میرمہدی مجروح نہ مانے اور کہا کہ” آپ کو ایسا ہی خیال ہے تو پیردابنے کی اُجرت دے دیجیے گا“ ۔ مرزا صاحب نے کہا ” ہاں اس میں مضائقہ نہیں ۔“جب وہ پیر داب چکے تو انھوں نے ازراہ مزاح مرزا صاحب سے اُجرت مانگی ۔ مرزا صاحب نے کہا ”بھیا کیسی اُجرت ؟ تم نے میرے پاؤں دابے، میں نے تمھارے پیسے دابے ‘ حساب برابر ہوگیا ۔

مرزا غالب ایک بار اپنا مکان بدلنا چاہتے تھے چنانچہ اس سلسلے میں کئی مکانات دیکھے ،جن میں ایک کا دیوان خانہ مرزا صاحب کو پسند آیا ،مگر محلسرادیکھنے کا موقع نہ مل سکا۔ گھر آکر بیگم صاحبہ کو محلسرا دیکھنے کے لیے بھیجا۔ جب وہ دیکھ کر واپس آئیں۔ مرزا صاحب نے پوچھا ، تو بیگم صاحبہ نے بتایا کہ
” اس مکان میں لوگ بَلابتاتے ہیں “
مرزا صاحب یہ سن کر بہت ہنسے اور ہنس کر کہا :
” کیا آپ سے بڑھ کر بھی کوئی اور بَلا ہے۔

ایک مرتبہ جب ماہ رمضان گزر چکا تو بہادر شاہ بادشاہ نے مرزا صاحب سے پوچھا کہ : ”مرزا! تم نے کتنے روزے رکھے ؟“ مرزا صاحب نے جواب دیا” پیرومرشد : ایک نہیں رکھا۔ “
ایک دفعہ ماہ رمضان کے مہینے میں مرزا غالب نواب حسین مرزا کے ہاں گئے اور پان منگاکر کھایا ۔ ایک متقی پرہیزگار شخص جوپاس ہی بیٹھے تھے بڑے متعجب ہوئے اور پوچھا، حضرت! آپ روزہ نہیں رکھتے ۔
مرزاصاحب نے مسکرا کرکہا ” شیطان غالب ہے ۔“
ایک دفعہ مرزا صاحب نے ایک دوست کو دسمبر1858ء کی اخیرتاریخوں میں خط ارسال کیا ۔ دوست نے جنوری 1859 ء کی پہلی یادوسری تاریخ کو جواب لکھا ۔ مرزا صاحب ان کو لکھتے ہیں ۔
” دیکھو صاحب یہ باتیں ہم کو پسند نہیں۔ 1858 ء کے خط کا جواب 1859 ء میں بھیجتے ہو اور مزا یہ کہ جب تم سے کہا جائے گا تو کہو گے کہ میں نے تو دوسرے ہی دن جواب لکھا تھا۔

ہنگا مہ غدر کے بعد جب مرزا غالب کی پنشن بند تھی ۔ ایک دن پنڈت موتی لال، میرمنشی لفٹنٹ گورنر بہادر پنجاب‘مرزا صاحب کے مکان پر آئے ۔ دوران گفتگو میں پنشن کا بھی ذکر آیا مرزا صاحب نے کہا ” تمام عمر اگر ایک دن شراب نہ پی ہو ‘ تو کا فر اور ایک دفعہ نماز پڑھی ہو تو گنہگار پھر میں نہیں جانتا کہ سرکار نے کس طرح مجھے باغی مسلمانوں میں شمار کیا۔

ایک دن کسی محفل شعرد سخن میں مولانا صہبائی کا ذکرآیا تو مرزا غالب نے کہا کہ ”مولانا نے بھی کیا عجیب وغریب تخلص رکھا ہے، عمر بھر میں ایک چلو بھی پینا نصیب نہیں ہوئی اور صہبائی تخلص رکھا ہے، سبحان اللہ قربان جائیے اس اتقا کے اور صدقے جائیے اس تخلص کے ۔“
مرزا غالب کو بھی غدرکے ہنگامے کے بعد جب پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو بلایا گیا ۔
یہ کرنل براؤن کے روبرو پیش ہوئے تو وہی کلاہ پپاخ جو یہ پہنا کرتے تھے حسب معمول ان کے سر پر تھی جس کی وجہ سے کچھ عجیب وغریب وضع قطع معلوم ہوتی تھی ۔ انھیں دیکھ کر کرنل براؤن نے کہا :
” ویل مرزا صاحب تو مسلمان ہے ؟ “
مرزاصاحب نے نہایت احترام سے جواب دیا۔
”آدھا مسلمان ہوں۔“
کرنل براؤن نے تعجب سے کہا ۔
”آدھا مسلمان کیا؟ اس کا مطلب ؟“
”شراب پیتا ہوں ،وٴرنہیں کھاتا۔
“مرزا صاحب فوراً بولے۔
یہ سُن کر کرنل براؤن بہت مخطوظ ہوا اور مرزا صاحب کو اعزاز کے ساتھ رخصت کردیا۔
جب مرزا قید سے چھوٹ کر آئے تو میاں کالے صاحب کے مکان میں آکر رہے تھے ۔ایک روز میاں صاحب کے پاس بیٹھے تھے کہ کسی نے آکر قید سے چھوٹنے کی مبارکباد دی۔مرزا نے کہا۔”کون بھڑواقید سے چھوٹا ہے !پہلے گورے کی قیدمیں تھا ،اب کالے کی قیدمیں ہوں۔

ایک شام مرزا کو شراب نہ ملی ،تو نماز پڑھنے چلے گئے۔اتنے میں ان کا ایک شاگرد آیا اور اسے معلوم ہواکہ مرزا کو آج شراب نہیں ملی ،چنانچہ وہ مسجد کے سامنے پہنچا اور وہاں سے بوتل دکھائی مرزا وضو کرنے کے بعد مسجد سے نکلنے لگے تو کسی نے کہا:”یہ کیا ؟کہ بغیرنماز پڑھے چل دیے۔“انھوں نے کہا جس چیز کے لیے دعا مانگنا تھی وہ تو یونہی مل گئی۔

ذرائع آمدنی مسدد ہوجانے کی وجہ سے مرزا غالب بیحد پریشان تھے اور لوگ روٹی کھاتے ہیں تو بقول غالب وہ خود کپڑا کھاتے تھے( ناداری کے باعث گھرمیں کپڑے اوڑھنابچھونا جو کچھ تھا سب بیچ بیچ کے کھانا پڑا)پریشانی کی اس حالت میں بھی وہ اپنی رگ ظرافت کو پھڑکنے سے باز رکھ سکے۔ایک خط میں میر مہدی مجروح کو لکھتے ہیں۔
”یہاں بے رزق جینے کا ڈھب مجھ کو آگیا ہے اس طرف سے خاطر جمع رکھنا۔
رمضان کا مہینہ روزے کھاکھا کر کاٹا۔آگے خدا رزق ہے کچھ اور کھانے کو نہ ملا تو غم تو ہے۔“
مرزا صاحب کھانا کھا رہے تھے، چھٹی رسان نے ایک لفافہ لا کر دیا۔لفافے کی بے ر بطی اور کا تب کے نام کی اجنبئیت سے ان کو یقین ہو گیا کہ یہ کسی مخالف کا ویسا ہی گمنام خط ہے، جیسے پہلے آچکے ہیں ۔لفافہ پاس بیٹھے شاگرد کو دیا کہ اس کو کھول کر پڑھو سارا خط فحش اور دشنام سے بھرا ہوا تھا ۔
پوچھا: کس کا خط ہے ؟اور کیا لکھا ہے؟شاگرد کو اس کے اظہار میں تائل ہوا فوراً اس کے ہاتھ سے لفافہ چھین کر خود پڑھا۔ اس میں ایک جگہ ماں کی گالی بھی لکھی تھی مسکراکر کہنے لگے کہ” اُلّو کو گالی دینی بھی نہیں آتی ۔بڈھے یا ادھیڑ عمر آدمی کو بیٹی کی گالی دیتے ہیں تاکہ اس کو غیرت آئے۔ جو ان کو جوردکی گالی دیتے ہیں۔ کیونکہ اس کو جورد سے زیادہ تعلق ہوتاہے۔
بچے کو مالی کی گالی دیتے ہیں کہ وہ ماں کے برابر کسی سے مانوس نہیں ہوتا۔یہ قرمساق جو بہتر برس کے بڈھے کو ماں کی گالی دیتا ہے،اس سے زیادہ کون بیوقوف ہو گا۔“
ایک مرتبہ ایک صاحب جو مٹزاصاحب سے ملاقات کے مشتاق تھے ،بنارس سے دلی تشریف لائے اور مرزا صاحب کے یہاں حاضر ہوئے اِدھر اُدھر کی باتیں کیں اور ساتھ ہی مرزا صاحب سے ان کے ایک شعر کی بہت تعریف کی ۔
مرزا صاحب کو جب تاب نہ ہوئی تو ان سے پوچھا کہ’ ’خفت وہ کون سا شعر ہے۔؟“
اسد!اس جفا پر بتوں سے وفا کی
مرے شیر‘شاباش رحمت خدا کی
مرزا صاحب نے شعر سن کر کہا۔
”اگر یہ کسی اور اسد کا شعر ہے تو اس پر خدا کی رحمت ہواور اگر مجھ اسد کا یہ شعر ہے تومجھ پر لعنت خدا کی۔“
ایک روز مرزا صاحب ،فتح الملک بہادر سے ملنے اُن کے یہاں گئے۔
جب غلام گردش میں پہنچے تو خد ستگاروں نے صاحب عالم کو اطلاع دی کہ مرزا نوشہ صاحب آرہے ہیں وہ کسی کام میں مشغول تھے اس لیے مرزا صاحب کو فوراً نہ بلا سکے۔مرزا صاحب کچھ دیر وہیں ٹہلتے رہے اتنے میں صاحب عالم نے پکار کر ملازم سے فرمایا۔
”ارے مرزا صاحب کہاں ہیں؟“
مرزا غالب نے یہ سُن کر وہیں سے جواب دیا۔
”غلام گردش میں ہے۔

یہ سُن کر صاحب عالم خود باہر تشریف لے آئے اور فوراً مرزا صاحب کو اپنے ساتھ اندر لے گئے۔
ایک باردلی میں رات گئے کسی مشاعرے یا دعوت سے مرزا صاحب مولانا فیض الحسن فیض سہارنپوری کے ہمراہ واپس آرہے تھے۔راستے میں ایک تنگ وتاریک گلی سے گزر رہے تھے کہ آگے وہیں ایک گدھا کھڑا تھامولانا نے یہ دیکھ کرکہا۔
”مرزا صاحب دلی میں گدھے بہت ہیں۔

”نہیں حضرت، باہر سے آجاتے ہیں۔“
مولانا فیض الحسن جھینپ کر چپ ہورہے۔
ایک دن جب کہ آفتاب غروب ہورہا تھا سیّد سردار مرزا ،مرزا غالب سے ملنے کو آئے جب تھوڑی دیر کے بعد وہ جانے لگے تو مرزا صاحب خود شمع لے کر کھسکتے کھسکتے فرش کے کنار ے تک آئے تا کہ سیّد صاحب اپنا جوتا روشنی میں دیکھ کر پہن لیں۔انھوں نے کہا”قبلہ ! آپ نے کیوں تکلیف فرمائی؟میں جوتا خود ہی پہن لیتا۔
“ مرزا صاحب بولے میں آپ کا جوتا دکھانے کو شمع نہیں لایا بلکہ اس لیے لایا ہوں کہ کہیں آپ میرا جوتا نہ پہن جائیں۔“
ایک دفعہ دہلی میں وبا پھیلی بمیر مہدی مجروح نے جو مراز صاحب کے شاگردوں میں سے تھے۔مرزا صاحب سے بذریعہ خط دریافت کیا کہ”حضرت اوبا شہر سے دفع ہوئی یا ابھی تک موجود ہے؟“
مرزا صاحب جواب میں لکھتے ہیں”بھئی کیسی وبا؟جب (مجھ جیسے)چھیا سٹھ برس کے بڈھے اور چوسٹھ برس کی بڑھیا (مرزا صاحب کی بیوی سے مراد ہے) کو نہ مارسکی تو، تُف بریں وبا۔

مرزا صاحب نے خسرومرزا الٰہی بخش خان پیری مریدی بھی کرتے تھے اور اپنے سلسلے کے شجر ہ کی ایک ایک کاپی اپنے مریدوں کو دیا کرتے تھے۔ایک دفعہ انھوں نے مرزا صاحب سے شجرہ نقل کرنے کے لیے کہا،مرزا صاحب نے نقل تو کردی مگر اس طرح کہ ایک نام لکھ دیا دوسرا چھوڑ دیا۔تیسرا پھرلکھ دیا چوتھا حذف کر دیا۔اُن کے خسر صاحب یہ نقل دیکھ کر بہت ناراض ہوئے کہ یہ کیا غضب کیا۔
مرزا صاحب بولے۔
”حضرت! آپ اس کا کچھ خیال نہ فرمائیے۔شجرہ دراصل خدا تک پہنچنے کا ایک زینہ ہے ،سو زینے کی ایک ایک سیڑھی اگر پیچ سے نکال دی جائے تو چنداں ہر ج واقع نہیں ہوتا۔آدمی ذرا اُچک اُچک کے اوپر چڑھ سکتاہے۔“
اُن کے خسر صاحب یہ سن کر برافرو ختہ ہوئے اور انھوں نے وہ نقل پھاڑ ڈالی اور پھر کبھی مرزا سے شجرہ نقل کرنے کی فرمائش نہیں کی۔

ایک دفعہ مرزا صاحب کی ہمشیرہ صاحبہ بیمارہوئیں ۔مرزا صاحب اُن کی عیادت کو گئے اور ان سے پوچھا ”کیا حال ہے۔ “انھوں نے کہا” مرتی ہوں۔ قرض کی فکر ہے کہ گردن پر لیے جاتی ہوں۔“ مرزا صاحب فرمانے لگے ”بوا! بھلا یہ کیا فکرکی بات ہے! کیا خدا کے ہاں بھی مفتی صدر الدین خان بیٹھے ہیں جو ڈگری کرکے پکڑوابلائیں گے۔
غدر کے بعد مرزا کی معاشی حالت دو برس تک دگر گوں رہی، آخر نواب یوسف علی خان رئیس رامپور نے سوروپیہ ماہانہ تاحیات وظیفہ مقرر کر دیا۔
نواب کلب علی خان نے بھی اس وظیفے کو عاری رکھا نو اب یوسف علی خان کی وفات کے چند روز بعد نواب کلب علی خان لیفٹنٹ گورنر سے ملنے بریلی کوروانہ ہوئے تو چلتے وقت مرزا صاحب سے کہنے لگی۔”خدا کے سپرد“
مرزا صاحب نے کہا۔”حضرت !خدا نے مجھے آپ کے سُپردکیا ہے آپ پھر اُلٹامجھ کو خدا کے سپرد کرتے ہیں۔“

Browse More Urdu Literature Articles