Mutalea Ka Shooq Zawal Pazir Kiyon - Article No. 2029
مطالعہ کا شوق زوال پذیر کیوں…! - تحریر نمبر 2029
اگرچہ آج ٹی وی، انٹرنیٹ، موبائل اور سوشل میڈیا نے لوگوں کے ذہنوں پر قبضہ کر لیا ہے لیکن کتاب کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔
رانا اعجاز حسین چوہان منگل 23 اپریل 2019
(جاری ہے)
آج جو نوجوان مطالعے سے گریز کر رہے ہیں، وہ ماضی سے بے خبر اور مستقبل کے لئے لایعنی ہوتے جارہے ہیں۔
کتابیں انسان کی بہترین دوست اور ساتھی ہی نہیں بلکہ معلومات کا خزانہ بھی ہیں۔ کتابوں سے دوستی میں اضافہ، اشاعتی اداروں کی حوصلہ افزائی اور کاپی رائٹس کے قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی اپیل پر ہر سال 23 اپریل کو کتابوں اور کاپی رائٹس کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں سیمینارز، کانفرنسیں، ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں حکومت کی جانب سے کتب بینی کے عالمی دن کو نہایت سادگی سے منائے جانے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں کتب خانوں اور کتب بینی کے رجحان میں کس قدر کمی واقع ہو رہی ہے اور حکومت کتب بینی کے فروغ کے اعتبار سے کس قدر سستی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں صرف 19 فیصد عوام کتب بینی کے شوقین ہیں، جبکہ 73 فیصد عوام نے کتب بینی سے دوری کا اعتراف کیا ہے، تاہم دانشور طبقے کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کی یلغار کے باوجود کتاب کی اہمیت کم نہیں ہوئی، مطالعے میں کمی کی بڑی وجہ کتاب کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں مطالعے کا اشتیاق تو ہے، مگر کتاب اب عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو گئی ہے۔کہتے ہیں کہ کتاب کا انسان سے تعلق بہت پرانا ہے اور یہ انسان کے علم و ہنر اور ذہنی استعداد میں بے پناہ اضافہ کرتی ہے اور خود آگاہی اور اپنے ارد گرد کے حالات و واقعات کا ادراک پیدا کرتی ہیں۔ کتاب سے دوستی شعور کی نئی منزلوں سے روشناس کراتی ہے، جس طرح ہوا اور پانی کے بغیر جینا ممکن نہیں، اسی طرح کتاب کے بغیر انسانی بقا اور ارتقاء محال ہے۔ کتاب نے علم کے فروغ اور سوچ کی وسعت میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ دنیا جب تحریر کے فن سے روشناس ہوئی تو انسان نے چٹانوں، درختوں کی چھالوں، جانوروں کی ہڈیوں اور کھالوں، کھجور کے پتوں ، ہاتھی دانت، کاغذ غرض ہر وہ شے لکھنے کے لئے استعمال کی ، جس سے وہ اپنے دل کی بات دوسروں تک پہنچا سکے۔ کتابوں کی داستان بھی عجب ہے۔ کبھی انہیں آگ لگائی گئی تو کبھی دریا برد کیاگیا ، کبھی چرا لیا تو کبھی دفنا دیا گیا۔ کبھی یہ شاہی دربار کی زینت بنیں تو کبھی فٹ پاتھ پر کوڑیوں کے دام فروخت ہوئیں۔ لیکن کتاب اور علم دوستی معاشی خوشحالی اور معاشرتی امن کی ضامن ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جس قوم نے علم و تحقیق کا دامن چھوڑ دیا، وہ پستی میں گر گئی۔ مسلم امہ کا زوال اس کی واضح مثال ہے، ساتویں صدی سے تیرہویں صدی تک بغداد علم و ادب کاگہوارہ رہا۔ سقوطِ بغداد ہوا تو مسلمانوں کے عظیم کتب خانے فرات میں بہا دیئے گئے۔ یہ اس قدر ضخیم ذخیرہ تھا کہ دریا کا پانی اس کی سیاہی سے سیاہ ہو گیا۔ جب اندلس میں پندرہویں صدی عیسوی کے آخر میں اسلامی حکومت ختم ہوئی تو غرناطہ کی بڑی لائبریری کو بھی ملکہ ازابیلا نے جلوا دیا۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمان کتابیں پڑھتے اور جمع کرتے تھے، مگر رفتہ رفتہ علم سے دوری مسلمانوں کو رسوائی کی طرف لے گئی۔ آج دنیا کے 28 ممالک ایسے ہیں، جہاں سب سے زیادہ کتابیں فروخت ہوتی ہیں، مگر ان 28ممالک میں ایک بھی مسلمان ملک نہیں۔ افسوس مسلمان اپنی علمی شان بھلا بیٹھے اور اہل یورپ نے مسلمانوں کے علمی مراکز، بالخصوص ہسپانوی مراکز سے استفادہ کر کے تحقیق کی دنیا میں قدم رکھا۔ ہمارے آباؤ اجداد کی محنت آج بھی لندن کی ”انڈیا آفس لائبریری“ میں موجود ہے۔ ان کتب کی تعداد 6لاکھ کے قریب ہے۔ ان میں عربی، فارسی، ترکی اور اردو میں قلمی کتابوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ لندن کے بعد پیرس لائبریری میں مشرقی زبانوں میں لکھی کتابوں کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ بلاشبہ کتابیں انسانی زندگی پر بہت اچھے اثرات مرتب کرتی ہیں، اور ادب انسانی مزاج میں نرمی پیدا کرتا ہے۔ آج بچوں اور نوجوان نسل میں مطالعہ کا شوق پیدا کرکے اور کتابوں کو فروغ دے کر معاشرے کے شدت پسندی کے جذبات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
Browse More Urdu Literature Articles
کتنے یگ بیت گئے
Kitne Yug Beet Gaye
پروین شاکر کی حادثاتی موت کی نامکمل تحقیقات
Parveen Shakir Ki Hadsati Maut Ki Namukammal Tehqiqat
جلتی ہوا کا گیت
Jalti Hawa Ka Geet
ماں اور پروین شاکر
Maan Aur Parveen Shakir
پروین شاکر کا رثائی شعور
Parveen Shakir Ka Rasai Shaoor
ریت
Rait
لا حاصل از خود
La Hasil Az Khud
فقیرن
Faqeeran
داستان عزم
Dastaan E Azm
محمد فاروق عزمی کا پرعزم اور پر تاثیر قلمی سفر
Mohammad Farooq Azmi Ka PurAzam Aur PurTaseer Qalmi Safar
حلیمہ خان کا تقسیم 1947 کے شہداء کو سلام
'Walking The Divide: A Tale Of A Journey Home'
جہیز
Jaheez