Naiki Ka Sila - Article No. 1409

Naiki Ka Sila

نیکی کا صلہ - تحریر نمبر 1409

صدیوں پہلے کی بات ہے ،کسی ملک پر ایک انصاف پسند بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ رعایا خوشحالی کی زندگی بسر کررہی تھی۔ اُس کے پاس ایماندار دانا قاضی تھے جو رعایا کو بروقت انصاف مہیا کرتے رہتے تھے۔ کبھی کبھار کوئی فریادی یا مقدمہ بادشاہ کے پاس آجاتا تھا۔

منگل 1 اگست 2017

محمد ابوبکر ساجد :
صدیوں پہلے کی بات ہے ،کسی ملک پر ایک انصاف پسند بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ رعایا خوشحالی کی زندگی بسر کررہی تھی۔ اُس کے پاس ایماندار دانا قاضی تھے جو رعایا کو بروقت انصاف مہیا کرتے رہتے تھے۔ کبھی کبھار کوئی فریادی یا مقدمہ بادشاہ کے پاس آجاتا تھا۔ ایک دن بادشاہ دربار لگائے بیٹھا تھا،کوئی فریادی نہ تھا،کوئی مقدمہ نہ تھا،بس درباری تھے یا پھر بادشاہ کے قصیدے سنانے والے۔
اُس نے دربار برخاست کردیا۔ صرف اُس کا وزیر اُس کے ساتھ تھا۔ اُس وزیر نے کہا:”یہ کیسی زندگی ہے نہ کوئی ضرورت مند نہ کوئی مظلوم،کوئی فریادی ہم تک نہیں پہنچتا ہم بادشاہ ہی نہیں ہیں، آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ وزیر نے کہا:”بادشاہ سلامت اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے عوام خوشحال ہیں،ملک میں امن وامان ہے،لوگ تنگدست ہوں فاقے میں ہوں یا لالچ میں، پھر ہی اللہ کے گھر یا بادشاہ کے دربار میں آتے ہیں ۔

(جاری ہے)

کیا مطلب ہے، میں تمہاری بات سمجھا نہیں؟ بادشاہ نے حیرت سے پوچھا۔ بادشاہ سلامت“ اگر طلب ہوگی تو فریادی بھی آئیں گے اور ضرورت مند بھی آئیں گے۔ آپ دیکھ لیں، رمضان شریف میں مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں۔ اُن دنوں ایک نیکی کا اجر سات سو گنا تک ہوتا ہے، جونہی رمضان ختم ہوتا ہے ،وہی چند بوڑھے نمازی کھانستے ہوئے مسجد میں موجود ہوتے ہیں۔
اللہ کے گھر کا جب یہ حال ہے، جو کہ ہر گلی محلہ میں ہے،آپ کے دربار میں لوگ اتنی دور کیونکر آئیں گے؟ آپ کے قاضی انصاف دیتے ہیں، لوگوں کو آپ کی پروا نہیں، نہ ضرورت نہ فریادی․․․․؟”میں تمہاری اس مثال سے مطمئین نہیں ہوں کسی عملی کام سے ثابت کرو“ بادشاہ نے کہا۔ وزیر سوچ میں پڑگیا،آخر اُسے ایک ترکیب سمجھ میں آگئی۔ ایک دن دربار لگا ہوا تھا ،وزیر نے بادشاہ کے کان میں کچھ کہا؛ بادشاہ نے چند منٹ بعد وزیر برخاست کردیا اور خود وزیر کیساتھ محل کی بالکونی پر چلا گیا۔
وہاں بیٹھ کر جھرو کے سے باہر دیکھا تو کانٹوں بھری ایک جھاڑی محل کے سامنے پڑی تھی ،وزیر امراء تاجر اور معززین شہر اُس سے بچ کر مگر اُس پر تبصرہ کرتے ہوئے گزرتے رہے، کسی نے اُسے ہٹانے کی کوشش نہ کی۔ اس پر وزیر نے بادشاہ سے کہا؛ ”دیکھا بادشاہ سلامت یہ سب خوشحال لوگ تھے، انہیں پتہ بھی ہے کہ راستے سے کنکر پتھر وغیرہ ہٹانا نیکی ہے مگر․․․․․ اتنی دیر میں ایک بوڑھا شخص آتا دکھائی دیا، اُس نے جھاڑی کودیکھا تو اسے بڑی مشکل سے راستے سے ہٹا دیا۔
اس دوران کچھ کانٹے بھی اُسکے ہاتھ پر لگے مگر اُس نے ہٹا کر ہی دم لیا اور راستہ صاف ہو گیا۔ اس بوڑھے کو دیکھ لیں جس نے یہ نیکی کمائی ہے کیونکہ عمر کے لحاظ سے اُسے نیکیوں کا احساس ہے جبکہ دوسرے لوگوں کے نزدیک ابھی زندگی پڑی ہے۔ بادشاہ نے کہا؛ ”اے وزیر تیری بات میں وزن ہے،واقعی انسان خوشحال ہو،صحت مند ہو،نوجوان ہو، اُسے یہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں حقیر لگتی ہیں۔
تمہاری بات میں سچائی ہے کہ ضرورت مند ہی دیوانہ ہوتا ہے۔ یہی حال اللہ اور میرے دربارکا ہے ۔ اچھا اب ایسی ترکیب کرو کہ نیکی کرنے والے کو انعام ملے مگر اسے لینے کی خبر بھی نہ ہو۔ وزیر نے کچھ دن کی مہلت طلب کی اور ترکیب سوچنے لگا۔ آخر ایک ترکیب اُس کے ذہن میں آگئی۔ ایک دن دربار لگا ہوا تھا، وزیر نے بادشاہ کے کان میں کچھ کہا۔ بادشاہ نے دربار برخاست کرنے کا حکم دیا،اورخود وزیر کیساتھ محل کی بالکونی میں چلا گیا،وہاں ایک جھروکے میں بیٹھ گیا۔
اُس نے دیکھا کے راستے کے درمیان میں ایک بھاری پتھر پڑا ہے ،بادشاہ کے وزراء امراء اور معززین شہر اُس پتھر پر تبصرہ کرتے گزر رہے ہیں، کسی نے اُسے ہٹانے کی کوشش نہ کی۔ تھوڑی دیر بعد اتفاقاََ وہی بوڑھا اُدھر آتا دکھائی دیا۔ اُس نے راستے میں پڑا پتھر دیکھا تو پہلے اُس کو ہاتھ سے ہٹانے کی کوشش کی پھر دھکیل کر ہٹانے کی کوشش کی،آخر تھک کر ہٹانے کی کوشش کی، آخر تھک ہار کر ایک طرف کو چلا گیا۔
بادشاہ نے کہا؛ ”لو بھئی اس بوڑھے کو بھی نیکیوں کی ضرورت نہیں“ وزیر نے کہا؛ ”بادشاہ سلامت ! جس جذبے سے اُس نے پتھر ہٹانے کی کوشش کی ہے لگتا ہے وہ پھر آئیگا،کچھ دیر گزری ،وہ بوڑھا ایک لکڑی کا لمبا سا ٹکڑا لیکر آیا۔ اُس نے اُس ٹکرے کے ساتھ پتھر ہٹانے کی کوشش شروع کردی۔ بہت سے لوگ اُسے دیکھ رہے تھے مگر کسی نے آگے بڑھ کر اُس کی مدد نہ کی۔
وہ پسینہ سے شرابور ہوگیا مگر اُس نے ہمت نہ ہاری۔ آخر لگاتا ر کوشش وہمت سے وہ اُسے ہٹانے میں کامیاب ہوگیا۔ لوگ حیران رہ گئے جب اس پتھر کے نیچے سے دیناروں سے بھری تھیلی ملی۔ اس کا حق داروہ اکیلا بوڑھا شخص تھا۔ بعض لوگ کف افسوس مل رہے تھے ،کاش اُنہوں نے بوڑھے کی مدد کی ہوتی مگر اب پچھتانے سے کیا فائدہ؟ بادشاہ وزیر کی ترکیب ست بہت خوش ہوا، اُس نے کہا؛ اے وزیر تمہارا کہنا بالکل درست ہے کہ ضرورت کے وقت لوگ بادشاہ کے دربار اور اللہ کے گھر آتے ہیں مگر پانچوں انگلیاں ایک جیسی نہیں۔ دیکھا بچو! نیکی کرنے کا اجر ضرور ملتا ہے، اسلئے ہمیں نیکیاں کرتے رہنا چاہیے۔

Browse More Urdu Literature Articles