Nayi Alif Laila - Article No. 2506

Nayi Alif Laila

نئی الف لیلہ - تحریر نمبر 2506

خزاں کا موسم تھا ۔ درختوں سے پتے جھڑ رہے تھے ۔ اس دن مجھےکچھ فرصت تھی تو میں نے سوچا کیوں نہ کوئی کہانی لکھی جائے

جاوید بسام بدھ 24 مارچ 2021

خزاں کا موسم تھا ۔ درختوں سے پتے جھڑ رہے تھے ۔ اس دن مجھےکچھ فرصت تھی تو میں نے سوچا کیوں نہ کوئی کہانی لکھی جائے ، چنانچہ میں نے کاغذ قلم سنھبالا اور کرسی پر بیٹھ گیا ۔ بہت دیر تک میں سوچ میں گم بیٹھا رہا، لیکن کوئی نیا خیال دماغ میں نہیں آیا ۔ آخر میں قریبی پارک میں چلا گیا ۔ پارک کے کھلے ماحول میں بیٹھ کر میں نے اکثر اچھی کہانیاں لکھی تھیں ۔
اس وقت وہاں کوئی نہیں تھا ۔ بس کچھ دور مالی جھاڑو دے رہا تھا ۔ میں اپنی مخصوص نشست پر بیٹھ گیا ۔ مجھے دیکھ کر مالی نے دور سے ہاتھ ہلایا ۔ وہ مجھے جانتا تھا ۔
کچھ دیر تک میں باغ کی ہریالی اور پرندوں کے چہچہانے سے لطف اندوز ہوتا رہا پھر ٹانگیں پساریں اور اپنے ذہن کے گھوڑے دوڑانے لگا، لیکن وہ دوڑ دوڑ کر اتنا تھک چکے تھے کہ میرے ذہن میں کوئی نیا خیال نہیں آیا ۔

(جاری ہے)

میں کوئی ایسی کہانی لکھنا چاہتا تھا ۔ جو لوگوں کو چونکا دے ۔ آخر تھک کر میں نے سر پشت سے ٹکا دیا اور آنکھیں بند کر لیں ۔
کچھ دیر بعد اچانک مجھے بینچ پر ایک چیونٹی چلتی نظر آئی ۔ اس کے منھ میں اس سے کئی گنا بڑا روٹی کا ایک ٹکڑا دبا تھا ۔ میں نے کہا ۔ " بی چیونٹی ! تم ہی مجھے کوئی نئی بات بتاتی جاؤ ۔ آج کل تمہارے بل میں کیا ہو رہا ہے ۔
"
چیونٹی رک گئی ۔ اس نے گھوم کر غصے سے مجھے دیکھا اور ہانپتے ہوئے بولی ۔" ہم ، وہ کام کرتے ہیں ۔ جس کا ہمیں اللہ کی طرف سے حکم ہوتا ہے اور تم انسان اللہ کی نافرمانی کرتے ہو اور شہرت کے لیے ہم پر الٹی سیدھی کہانیاں لکھتے ہو ۔ " یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گئی ۔
میں نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا کہ کسی نے یہ بات سنی تو نہیں لیکن وہاں کوئی نہیں تھا ۔

پھر میری نظر قریب لگے نیم کے ایک درخت پر پڑی۔ میں نے کہا ۔ " میاں درخت ! تم برسوں سے یہاں کھڑے ہو سینکڑوں لوگ اس بینچ پر آ کر بیٹھے ہوں گے ۔ انھوں نے باتیں کی ہوگی تم ہی مجھے کوئی آئیڈیا دے دو ۔ "
درخت غصے سے بھنّا اٹھا ۔ اس کے پتے تیزی سے ہلنے لگے ۔ وہ گرجدار آواز میں بولا ۔" بے وقوف آدمی ! میں کسی کے رازوں سے پردہ نہیں اٹھا سکتا اور ہاں تم اپنی ہر کہانی میں ہمارا زکر کیوں لے آتے ہو ؟"
" مجھے درخت بہت پسند ہیں ۔
" میں نے شرما کر کہا ۔
" تم نے اب تک کتنے درخت لگائے ہیں؟ " اس نے پوچھا ۔
میں نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا اور آہستہ سے کہا۔ " ایک بھی نہیں ۔ "
" اونہہ بڑے آئے درختوں سے محبت کرنے والے ۔ "
میں نے شرمندگی سے منہ پر ہاتھ پھیرا اور گہری سانس لی ۔ پھر اچانک میری نظر ایک شاخ پر بیٹھی فاختہ پڑی ۔ جو اپنی چھوٹی چونچ سے نفاست کے ساتھ اپنے پر سنوار رہی تھی ۔
مجھے تمام پرندے اچھے لگتے ہیں ، لیکن میں فاختہ کی امن پسندی اور صلح جوئی کی وجہ سے سب سے زیادہ اسے پسند کرتا ہوں ۔ میں نے کہا ۔ " فاختہ بی بی ! میں نے کئی کہانیوں میں تمہارا ذکر اچھے لفظوں میں کیا ہے ۔ تم ادھر ادھر اڑتی پھرتی ہو ۔ تمہیں انسانوں کی دنیا اوپر سے کیسی لگتی ہے؟ "
میں نے پہلی دفعہ فاختہ کو غصے میں دیکھا ۔ وہ برہمی سے بولی ۔
" تم لوگ خود غرض اور لالچی ہو. زرا سے فائدے کے لیے دوسروں کو مارنا اور ان کو لوٹنا ۔ تمھارا کام ہے ۔ میں تم لوگوں کے ساتھ رہ کر تنگ آ چکی ہوں میں شہر سے جا رہی ہے ۔ " اس نے پر پھڑپھڑائے اور وہاں سے اڑ گئی ۔
میں اپنا سا منھ لے کر رہ گیا ۔ مجھے فاختہ سے اس رویہ کی امید نہیں تھی ۔ میں مایوسی بیٹھا تھا ۔
کچھ دیر ہی گزری تھی کہ میں نے ایک بوڑھے آدمی کو آتے دیکھا اس نے پرانی وضع کا لباس پہنا ہوا تھا ۔
اس کے ساتھ ایک گدھا بھی تھا ۔ جس پر لکڑیاں لدی تھیں ۔ جب وہ قریب آیا تو میں نے اسے سلام کیا اور پوچھا ۔ " بابا کہاں سے آرہے ہو؟ "
وہ بولا ۔ " جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر آرہا ہوں ۔ "
"جنگل سے ؟ شہر میں جنگل کہاں ہے؟ " میں نے حیرت سے پوچھا ۔
بابا خاموش رہا۔
" تمھارا نام کیا ہے ؟ " میں نے پوچھا۔
وہ بولا۔
" میرا نام علی بابا ہے ۔ "
" کیا تم الف لیلہ والے علی بابا ہو؟ " میں نے پوچھا۔
اس نے حیرت سے مجھے دیکھا اور بولا ۔ "پتا نہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ "
میں نے بے چینی سے پوچھا کیا تمہارے بھائی کا نام قاسم ہے ؟ "
" ہاں، مگر آپ کو میرے بھائی کا نام کیسے پتہ چلا؟ " اس نے تعجب سے پوچھا ۔
" میں تو تمھارے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں کیا تم مجھے ایک دن کے لیے اپنا مہمان بناؤ گے؟"
" کیوں نہیں میں غریب ضرور ہوں، لیکن مہمان نواز ہوں ۔
آپ میرے ساتھ میرے گھر چلیں ۔" وہ بولا ۔
میں اس کے ساتھ چل دیا پارک سے نکل کر ہم ایک گلی میں داخل ہوئے تو مجھے لگا کہ میں ماضی میں پہنچ گیا ہوں ۔ وہاں تمام گھر پرانی وضع کے بنے ہوئے تھے ۔ لوگوں کے لباس اور حلیے بھی کسی تاریخی فلم جیسے تھے ۔ میں حیرت سے انہیں دیکھ رہا تھا ۔ کچھ دور چل کر علی بابا نے ایک دروازے پر دستک دی ۔ ایک لڑکی نے دروازہ کھولا ۔

میں نے کہا ۔ " یہ تمہاری ملازمہ مرجینا ہے ۔ "
علی بابا بولا ۔ " آپ ہمارے بارے میں کیسے جانتے ہیں؟"
" میں ابھی بتاتا ہوں ۔ " میں نے کہا ۔
علی بابا نے مجھے اپنے دیوان خانے میں بٹھایا ۔ جلد ہی مرجینا ٹھنڈا اور میٹھا صندل کا شربت لے آئی ۔ کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی ۔ مرجینا نے دروازہ کھولا ۔ ایک آدمی اندر آیا ۔
وہ شکل سے ہی چالاک اور لالچی لگتا تھا ۔
میں نے کہا ۔" یہ شاید قاسم ہے؟"
" آپ ٹھیک پہچانے ۔ " علی بابا نے کہا ۔
" یہ کون ہے؟ سب کہہ رہے ہیں ۔ تمھارے گھر مہمان آیا ہے ۔ " قاسم نے علی بابا سے پوچھا ۔
علی بابا بولا ۔ " ہاں یہ ہمیں اچھی طرح جانتے ہیں۔ "
قاسم مجھے مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا۔
" آپ کہاں سے آئے ہیں اور ہمیں کیسے جانتے ہیں؟"
" یہ ایک لمبی کہانی ہے ۔
میں تمھیں مختصر لفظوں میں سناتا ہوں ۔ " میں نے انہیں علی بابا چالیس چور والی کہانی سنائی , حیرت سے ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے ۔
قاسم بولا ۔ " علی بابا روز جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا ہے اسے تو کبھی چور نظر نہیں آئے ۔"
میں نے کہا کہ شاید کچھ دنوں میں یہ واقعہ پیش آئے ۔ قاسم تیزی سے کچھ سوچ رہا تھا ۔ اس نے مجھ سے کئی سوالات کیے ۔

علی بابا بولا ۔ " اچھے ہوا ۔ ہمیں پہلے سے پتا چل گیا ۔ میری نظر میں زروجواہر کی کوئی اہمیت نہیں، مجھے اپنا بھائی عزیز ہے ۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں لکڑہارے کا کام چھوڑ دوں گا ۔ خلیفہ نے نئی جامع مسجد کی تعمیر کا اعلان کیا ہے میں مزدوری کرکے کے اپنی گزر بسر کروں گا ۔"
" بیوقوفی کی باتیں مت کرو میں بچہ نہیں ہوں کہ اتنے آسان الفاظ " کھل جا سم سم " بھول جاؤں ۔
ہم خزانہ حاصل کر کے امیر ہو جائیں گے ۔"
" نہیں ، میں لالچی نہیں ہوں ۔ میں حلال کی روکھی سوکھی کھا کر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں ۔ دولت ملنی ہو گی تو محنت سے مل جائے گی میں کل سے کام پر نہیں جاؤں گا ۔ " علی بابا دوٹوک لہجے میں بولا ۔
" تمہیں یہ کام کرنا پڑے گا ۔ " قاسم نے غصے سے کہا اور باہر نکل گیا ۔ اس کے تیور ٹھیک نظر نہیں آرہے تھے۔

رات میں نے علی بابا گھر میں گزاری اس نے اچھی طرح میری مہمان نوازی کی ۔ صبح ہوتے ہی قاسم وہاں چلا آیا اور بولا ۔ "چلو بھائی کام پر جاؤ ۔ "
" میں نے لکڑہارے کا کام چھوڑ دیا ہے ۔ "
" تمھیں یہ کام کرنا پڑے گا ۔ " قاسم چلایا ۔
دونوں آپس میں لڑنے لگے۔
میں انھیں چھڑانے کے لیے آگے بڑھا ۔ قاسم غصے سے پلٹا اور چلایا ۔
" تمہاری وجہ سے ہم ہاتھ آئی دولت کھورہے ہیں ۔ نہ تم آتے نہ علی بابا لکڑہارے کا کام چھوڑتا ۔ "
میں نے کہا ۔ " لیکن میری وجہ سے تمہاری جان بچ رہی ہے ۔ "
" تم مجھے بیوقوف سمجھتے ہو ۔ " اس نے میرا گریبان پکڑ لیا ۔ میں نے چھڑانا چاہا لیکن وہ طاقتور آدمی تھا ۔
علی بابا میری مدد کو آیا ۔ قاسم نے اسے دھکا دیا اور میرا گلا دبانے لگا ۔
میری چیخ نکل گئی اور ساتھ ہی آنکھ بھی کھل گئی ۔ میں بینچ سے لڑھک گیا تھا ۔
میری سانسیں تیزی سے چل رہی تھیں ۔ میں جلدی سے سیدھا ہوا ۔
دور کھڑا مالی حیرت سے مجھے دیکھ رہا تھا ۔ پھر اس نے پتے اٹھا کر ٹرالی میں ڈالے اور میری طرف آنے لگا ۔ قریب آکر وہ بولا ۔ " کیا ہوا صاحب آپ پریشان لگ رہے ہیں؟ "
" کچھ نہیں میں ٹھیک ہوں ۔
" میں نے بال درست کرتے ہوئے کہا ۔
مالی غور سے مجھے دیکھ رہا تھا اور انتظار میں تھا ۔ اس کی تنخواہ کم تھی ، پارک میں آنے والے اکثر لوگ اس کی مدد کر دیا کرتے تھے میں بھی ان میں شامل تھا لیکن اس دن میرا دل نہ چاہا کہ اسے کچھ دوں، کیوں کہ کچھ دیر پہلے خواب میں، مِیں نے علی بابا کی قناعت اور خود داری کا شاندار مظاہرہ دیکھا تھا ۔ اس نے جس طرح اپنی قوت بازو پر بھروسہ کیا تھا ۔ ایسا کم ہی لوگ کرتے ہیں ۔ میں اٹھ کر چل دیا ۔ میرا رخ پارک کے گیٹ کی طرف تھا ۔

Browse More Urdu Literature Articles