Phoolon Se Sajay Khawab - Article No. 1337

Phoolon Se Sajay Khawab

پھولوں سے سجے خواب - تحریر نمبر 1337

بیٹی کو دھوم دھام سے بیاھنا اسکی سب سے بڑی خواہش تھی، وہی پھول جو وہ ریڑھی بر بیچتا تھا اُسکی قبر پر پڑے تھے

جمعہ 9 جون 2017

انیلا طالب:
دین محمد پکا دیہاتی تھا اور شہر میں پھولوں کی ریڑھی لگاتا۔اسکی ریڑھی مختلف اقسام کے پھول پڑے ہوتے۔جب شادی بیاہ کا سیزن ہوتا تو دین محمد کا کام بن جاتا،گیندے کے زیور،کلیوں کے زیور،سرخ گلابوں کے گجرے سب سے ہی تو دلہن کا پہناوا ہوتا ہے۔فلائی اوور کے نیچے سڑک کے دائیں طرف جہاں مختلف دکانیں تھیں وہیں چند لوگ پھولوں کی ریڑھی بھی لگاتے،ان میں دین محمد بھی شامل تھا۔

دین محمد کی واپسی رات دیر سے ہوتی ۔شادی بیاہ کے سیزن میں تو اکثررات کو شہر میں اپنے قریبی دوست کے پاس رک جاتا،اس کی ایک ہی بیٹی تھی جسے اس نے بہت لاڈ پیار سے پالاپوسا تھا۔اس کا نام حبیبہ تھا اوروہ اٹھارہ سال کی تھی۔حبیبہ نے میٹرک کرنے کے بعد گھر کے تمام کام سیکھ لئے تھے۔

(جاری ہے)

دین محمد جب رات کو گھر آیا تو حبیبہ نے باپ کو کھانا پیش کیا۔

دال چاول کھانے کے بعد دین محمد چار پائی پر بیٹھ گیا۔اتنے میں رشیداں اپنے شوہر کے پاس آئی اور کہنے لگی”دیکھ میں کہتی ہو تو اب حبیبہ کی شادی کردے۔“اس نے رشیداں کی طرف دیکھا اور بولا چار پیسے تو ہونے دے پاس،پھر دیکھ کیسے بیاہ رچاتا ہوں اپنی بیٹی کا،میری کوئی اور اولاد تو ہے نہیں۔حبیبہ کیلئے تو بڑے ارادے ہیں میرے کہ میں اس سے اتنا پیارکروں کہ ساری دنیا دیکھے اور تو کہتی ہے اسکی شادی کردے تاکہ میں اسے پھوٹی کوری بھی نہ دے سکوں۔
جب وقت آئیگا تو سب کچھ ہو جائے گا۔دین محمد کے اس طرح کہنے سے رشیداں چپ ہو گئی،اگلے دن جیسے ہی صبح کی سفیدی ظاہر ہوئی دین محمد پھولوں کی ریڑھی لگا کر فلائی اوور سے کچھ ہٹ کر بیٹھ گیا۔دین محمد نے تازہ،گلاب ریڑھی پر سجائے،ٹھنڈے پانی کے چھینٹے پھولوں پر مارے،صبح صبح آنے والے راہ گیر اسکی ریڑھی پر سجے تازہ پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو سے تازہ دم ہوجاتے۔
فلک شیر دین محمد کا پرانا گاہگ تھا۔وہ اکثر پھول کی پتیاں اور ہار اس سے خریدتا تھا۔”کیسے ہو تم فلک شیر!“دین محمد نے اپنے کمزور بوڑھے وجود کو سنبھالتے ہوئے کہا۔
فلک شیر جلدی میں تھا بولا”بس کچھ نہ پوچھ بابا․․․․میں جلدی میں ہوں۔مجھے جلدی سے پھولوں کی پتیاں شاپنگ بیگ میں ڈال دے اور ساتھ چار پانچ گلابوں کے ہار بھی․․․․گھر میں میلاد ہے۔
“دین محمد نے پھول اور ہار فلک شیر کو پکڑا دیے۔فلک شیر نے پیشے دین محمد کو ادا کئے اور خود اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔سارا دن اس کے پاس گاہک آتے رہے۔وہ بہت خوش تھا کہ اگر ایسے ہی اس کے پاس گاہک آتے رہے تو وہ بہت جلد اپنی بیٹی کا فرض ادا کریگا۔رات کو وہ ریڑھی سے سارا سامان سمیٹ کر گھر آیا۔حبیبہ نے اسے کھانا پیش کیا،تھوڑا ساکھانا کھا کردین محمد سوگیا۔

”اُٹھ جاؤ اب تو بہت دیر ہوگئی ہے“رشیداں نے دین محمد کے وجود کو جھنجوڑتے ہوئے کہا۔مگر اسے کوئی جواب نہ ملا۔حبیبہ بھی اتنی دیر میں آگئی جب باپ کو اس قدر گہری نیند میں دیکھا تو ڈر سی گئی کیونکہ دین محمد تو صبح سویرے اُٹھنے کا عادی تھا۔کافی دیر اسے آوازیں دینے،پانی کے چھینٹے مارنے پر بھی دین محمد کے بوڑھے جسم میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہوئی۔
ڈاکٹر کو بلایا گیا پتا چلا کے دین محمد کا انتقال ہو گیا ہے۔حبیبہ اور اسکی ماں کا کوئی حال نہیں تھا۔حبیبہ پر بار بار غشی کے دورے پڑرہے تھے۔اس کے ابا کی نماز جنازہ ادا کردی گئی اور اسے منوں مٹی تلے دفن کردیا گیا۔وہی پھول جن پر ہرروز وہ پانی کے چھینٹے مار کے اپنی ریڑھی سجایا کرتا تھا اسکی قبر پرپڑے تھے۔
کچھ دنوں بعد جب فلک شیر دوبارہ فلائی اوور کے نیچے سڑک کے دائیں طرف دین محمد کی پھولوں کی ریڑھی کی طرف بڑھا تو اسے پھولوں کی ریڑھی تو نظر آئی مگر دین محمد نظر نہ آیا۔
اسے دین محمد کے دوست نے بتایا کہ یہ ریڑھی اس نے دین محمد کی یاد میں سجائی ہے۔ اور دین محمد کے دوست نے روتے روتے فلک شیر سے کہا۔”اگر وہ اس دنیا میں ہوتا ناں تو پتہ کیا کہتا․․․․پھول ریڑھی پر بہت ہیں دعا کر گاہک زیادہ ہوں ۔اگر گاہک زیادہ ہوں گے ناں تو میں سارے پیسے اپنی حبیبہ کی ہاتھ میں رکھ دوں گا اور کہوں گا․․․․․دیکھ حبیبہ میں کتنا پیار کرتا ہوں تم سے!“فلک شیر کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔اس نے جی بھر کر دین محمد کی ریڑھی کو دیکھا جہاں گیندے کے زیور،گجرے گلابوں کی پتیاں سب کچھ تھا مگر دین محمد نہیں تھا!

Browse More Urdu Literature Articles