Punjabi Kahani Ki Kahani,episode 4 - Article No. 1911

Punjabi Kahani Ki Kahani,episode 4

پنجابی کہانی کی کہانی۔۔۔قسط نمبر4 - تحریر نمبر 1911

رفعت نے پنجابی کہانی کے ابتدائی دور میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ پاکستانی خواتین میں سب سے پہلی ہیں جن کا مجموعہ پنجابی کہانی میں پہلی با ر آیا تھا

Dr Kramat Mughal ڈاکٹر کرامت مغل بدھ 13 فروری 2019

آغا اشرف نے ”واء ورولے“ ( گرداب ) 1965 ء میں یہ مجموعہ سماجی‘ اخلاقی‘ اصلاحی رنگ کو جگاتے ہوئے شائع ہوااس مجموعے میں انہوں نے زبان و بیان کے استعمال سے قاری کی توجہ حاصل کی۔اُن کی نمائندہ کہانی ” راجُو “ ہے جس میں پیشہ ور بدمعاش اور ایسا طاقتور انسان جو معاشرے میں بہتری کا خواہاں ہیں اس کے درمیان چپقلش کو موضوع بنا یا ہے۔ وہ معاشرے کے لیے بہتری کا خواہاں بنتے اپنی زندگی بھی قربان کر دیتا ہے۔
1967 ء میں اختر سلیمی کی کتاب ”لمیاں اُڈیکاں “ ( طویل انتظار) چھپی اور اس سے اگلے برس 1968 میں رفعت اور نسیمہ اشرف علی کے مجموعے بالترتیب” اک اوپری کُڑی“(ایک انجان لڑکی) تے” سکے پُتر“ (سُوکھے ہوئے پتّے) چھپے۔ ان کے اندر عورتوں کا معاشرے میں کردار ہی زیر بحث رہا۔ نسیمہ اشرف نے زیادہ تر روایت کی کہانی ہی لکھی۔

(جاری ہے)

تقسیم کے بعد کے حالات کو دیکھتے اُس کو موضوع بناتے 1969 ء میں حنیف چودھری کی کہانیوں کا مجموعہ ”کچ دی گُڈی“ ( کانچ کی گڑیا) چھپا۔

رفعت نے پنجابی کہانی کے ابتدائی دور میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ پاکستانی خواتین میں سب سے پہلی ہیں جن کا مجموعہ پنجابی کہانی میں پہلی با ر آیا تھا۔اکیسویں صدی کی ابتدا میں ہی ان کا بتیس کہانیوں کا ایک اور مجموعہ” بتّی والا چوک“ (روشنی کا مینارہ) اس نوعیت سے اہم تھا کہ اس میں سترہ کہانیوں کے ساتھ پندرہ شعری کہانیاں بھی شامل کی گئی تھیں۔
آ پ کے چُنے گئے موضوعات کی وجہ سے آپ کو ایک دلیر افسانہ نگار کے طور پر بھی جانا جا تا ہے۔ انہوں نے عام انسان کا مشاہدہ کیا ہے۔” بتّی والا چوک“(روشنی کا مینارہ) ایک ایسی کہانی ہے جس کا مرکزی کردار ’زہراں‘ ہے اور وہ بے زبان اور لاچار کردار میں نظر آتی ہے۔اس کی اپنی مراد تو پوری نہیں ہوئی لیکن وہ ایک ایسا گڑھ بن جاتی ہے جہاں پہ لوگ اپنی مرادیں لے کر آتے ہیں۔
جب وہ اپنے بانجھ پن کو دُور کرنے کے لیے مزاروں پہ دعائیں کر رہی ہوتی ہے تو ایک مزار پر دعا کرتے کرتے دھمال شروع کر دیتی ہے ،اسی دھمال کے دوران وہ گِر کے بیہوش ہو جاتی ہے۔جس کے بعد اس کا نیا جیون شروع ہو جاتا ہے توہم پرست عورتیں اس کو کوئی بہت پہنچی ہوئی پیرنی سمجھنے لگتے ہیں تو وہ ایک ایسا روشنی کا مینارہ بن جاتی ہے جس سے ہر کوئی روشنی لینے آنے لگتا ہے۔
رفعت کامجموعہ ”امرت نواس “جنوری 2015 میں چھپا پر اِس مجموعے کی سب کہانیاں سویر انٹرنیشنل اورپندرہ روزہ رویل میگزین میں 2014 تک چھپ چُکی تھیں۔ اسی برس احسن واگھا کی کتاب ” تھل کرن دریا“ (صحرا میں بنے دریا)چھپی۔1970ء ظہیر نیاز بیگی کا مجموعہ ” میرا دیس “ کے عنوان سے آیا۔ستّر کی دہائی تک پہنچتے پہنچتے پاکستانی پنجابی کہانی کی طرف خاصا دھیان دیا جانے لگا۔
رائٹرز گلڈ کے قیام سے ایک اچھا شگن ہونے کا احساس ہوا۔پنجابی کتابوں کو حکومت کی طرف سے انعامات دینے والی کتابوں میں شامل کیا جانے لگا اور نئی تنظیمیں بھی بننے لگی جو پنجابی کی ترقی کے لیے کام کر رہی تھیں۔ہفتہ وار اور مہیناوار تنقیدی ادبی اجلاس ہونے لگے جس سے پنجابی کہانی کو تکنیکی معیار پر پرکھنے کا کام شروع ہوا۔پنجابی صحافت کا بھی کسی حد تک باقاعدہ آغاز ہو گیا تھا اور نئے شامل ہونے والے ادیب جو باقاعدہ لکھ رہے تھے ان میں افضل احسن رندھاوا‘ محمد آصف خان‘ سید اکمل علی‘ انیس ناگی‘ احمد سلیم‘ انورسجاد‘ انور علی‘ اشفاق احمد‘ بانو قدسیہ‘ رشیدہ سلیم سیمیں‘ منصور قیصر‘ کہکشاں ملک‘ سلیم خاں گمی‘ ستار طاہر‘ ستنام محمود‘ چودھری محمد رفیق‘ ریاض بٹالوی‘ اعجاز حسین رضوی‘ عصمت جہاں‘ منظوراحمد قریشی‘ حسین شاد‘ لطیف منہاس‘ مشتاق باسط‘ ہاجرہ شکور ناصری‘ تنویر بخاری‘ آثم مرزا‘ پروفیسروقار بن الٰہی‘ راحت نسیم ملک‘ فوزیہ رفیق‘ کنول مشتاق اور غلام علی چودھری کے نام شامل ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ بہت سے وہ ادیب جو ابتدا سے لکھ رہے تھے انہوں نے پنجابی زبان میں لکھنا چھوڑ دیا تھا۔اِس عشرے میں بہت سے لکھنے والوں نے پنجابی میں لکھناچھوڑ دِیا۔ان میں شہبازملک‘ شفقت تنویر مرزا‘ اشفاق احمد اور انیس ناگی کے نام شامل ہیں۔ انور علی جوکہ ایک کارٹونسٹ کے طور پر ننھاکے نام سے پہچان رکھتے تھے اُن کہ کہانیوں کا مجموعہ ”کالیاں اِٹاں کالے روڈ“ 1972 میں شائع ہواانہوں نے معاشرے پہ طنز کرنے کے ساتھ ساتھ بھرپور تلخ حقائق کو اپنی کہانیوں میں دِکھانا شروع کیا۔
جب سیاسی بے چینی حد سے زیادہ ہوئی تو سارا سماجی نظام ہی بگڑ گیا لگنے لگا تھا اسی نظام نے ننھا کو کارٹون بنانے سے منع کیا تو انہوں نے برش کی جگہ قلم تھام لیا ۔انور علی کا دوسرا مجموعہ ” نوری“ 1991 ء میں شائع ہوا جس میں تخلیقی عمل زبان اور ماحول کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے۔ 1973 میں افضل حسن رندھاوا کامجموعہ”رن تلوار تے گھوڑا“ میں پنجاب کی تہذیب وثقافت ملتی ہے۔
آپ کی کہانیوں میں ایسا پنجاب ملتا ہے جس میں مسلم سکھ اکٹھے رہ رہے ہیں ان کی کہانیاں بھی جیسے ایک سی تہذیب میں گندھی ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ لکھنا اصل میں محبت بانٹنا ہی ہے۔آپ کے اور مجموعے ” مُنّا کوہ لہور“( 1989)اور ” الہی مہر تے ہور کہانیاں “ آخری کتاب میں انہوں نے صرف پانچ کہانیاں شامل کی ہیں ۔آپ کی کہانیاں اس درد کی کہانیاں ہیں جو انسان کے اندر بھی ہے اور باہر بھی ہے،اسی لیے وہ پچھلی صدی کے سب سے بڑے المیے اور کرب کو لکھنے میں اپنی مثال آپ ہی ہیں۔
یہ شاید اسی لیے بھی ہے کہ یہ المیہ وہ خود دیکھ چُکے ہیں اور ان پر گزرا ہے۔موضوع کے لحاظ سے وہ اپنی دھرتی سے جُڑی کہانی لکھتے ہیں جس میں دکھوں اور سکھوں میں سانجھا رشتہ نظر آتا ہے۔حسین شاہد کی کہانیوں کی کتاب ”لاپریت‘ ‘میں علامتی اورتجریدی رنگ ملتا ہے۔ ”لہو دی خشبو“ (خون کی مہک)میں سلیم خاں گَمی سماج کے جدید رنگ کو اور نئے پیدا ہوتے مسئلے کو موضوع بناتے ہوئے دلچسپ انداز اپناتے ہیں۔
سلیم خاں گِمیبھی ایسے کہانیکار ہیں جنہوں نے کہانی کے فن کو ترقی دی ”لہو دی خوشبو“(خون کی مہک) کے بعد ان کا دوسرا مجموعہ 1994ء میں ”تُردے پیر “(سفر میں پاؤں) آیا جس میں انہوں نے سائنس و ٹیکنالوجی سے آنے والی تبدیلی کو موضوع بنایا ہے اور انسان کے نئے نئے مسائل بھی بیان کیے ہیں۔ پھر 1974ء میں مشتاق باسط کامجموعہ ” سچ دے ورقے “ اور 1975 میں آغا اشرف نے ”تُبکے تریل دے“ کے علاوہ اعجاز الحق نے اپنی کہانیوں میں کہیں کہیں سماجی رنگ میں بکھرنے والے نئے رنگوں کو بیان کیا ہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک اپنی کتاب ” گویڑ“ میں لکھتے ہیں کہ اِس دہاکے (1971-80) میں کہانی رومانیت کی فضاسے نکل کے عقلیت کی فضا میں آ جاتی ہے۔ ان میں جہاں دُکھوں، دردوں کی داستان ہے وہاں معاشرتی اصلاح کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔1976ء میں غلام مصطفی بسمل کا مجموعہ ”ہسدیاں سُولاں“ (مسکراتے کانٹے)’ شفقت سلطانہ کا ”چاننی دے روپ“ ( چاندنی کے روپ )اکبر لاہوری کا ”اکبرکہانیاں“ خالد حسین کا ”جہلم وگدا رہیا“(جہلم بہتا رہا) مسرت کلانچوی کا ”اُچی دھرتی جھکا آسمان“ (اونچی دھرتی جھکا آسمان) اور قاسم جلال کا مجموعہ”ہنجو تے ہیرے“ (آنسو اور ہیر ے ) چھپے۔
یہ کُل چھے مجموعے اس برس چھپ کے جدید کہانی کی رفتار تیز کر دیتے ہیں۔ 1977 میں ”ز لفاں چھلے چھلے“ لے کے خالدہ ملک بھی عورتاں کے حقوق کیلئے لڑتی نظرآئی۔ اِس توں اگلے برس عامر فہیم نے ”جاگدی اکھ داخاب“ (جاگتی آنکھوں کا خواب) لکھا۔اقبال صلاح الدین نے 1979 میں ااپنی کہانیوں کا مجموعہ”کونج کہانی“ میں سیاسی اور سماجی لحاظ سے نئے موضوع چُنے اور ان سے انصاف بھی کیا۔
1980 میں سرائیکی لہجے میں سجاد حیدر پرویز کا مجموعہ”سوجھلا اندھاری رات“ میں روایتی انداز میں لکھی گئی کہانیاں ہیں اور اسی برس ہی شاہین آراء نے ”آہلنا (آلھنا)تے اُڈاری“ (گھونسلہ اور پرواز)میں عورت اور اس کے گھر کوموضوع بنایا ہے۔ 1981 میں کہکشاں ملک کا مجموعہ”چڑیاں دی موت“ (چڑیوں کی موت )میں بھی جدید دور کے مسئلے کوسامنے لایا گیا ہے ۔ان کی کہانیوں میں زمینی حقائق بیان کرن والے کردار ہیں جو اِسے ہی سماج کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔

Browse More Urdu Literature Articles