Punjabi Kahani Ki Kahani..Episode 1 - Article No. 1847

Punjabi Kahani Ki Kahani..Episode 1

پنجابی کہانی کی کہانی۔۔۔قسط نمبر1 - تحریر نمبر 1847

کہانی سنسکرت کے لفظ کتھانکم سے کتھا پھر کشا اور ’کہا ‘سے ہوتا ہوا کہانی بنا۔پنجاب کا نام جب بھی لیا جاتاہے تو اس کے ساتھ ہی ذہن میں کئی کہانیوں کے رنگ اُبھر آتے ہیں۔اسے کہانیوں کا دیس کہا جاسکتا ہے۔پنجاب میں صدیوں سے کہانیاں موجود ہیں یا ایسا کہنا بھی بجا ہو گا کہ پنجاب کہانیوں میں بسنے والا دیس رہا ہے۔ان کہانیوں کے آثار آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ پائندہ ہیں۔ کہیں رگ وید کی کہانیاں ہیں تو کئی جاتک کہانیوں کی جھلکیاں موجود ہیں تو کہیں قصہ کہانی کی شکل موجود رہی،’بات پانا‘ کو پنجاب کی ہی ایجاد کہا جا تا ہے یہی ’بات پانا‘ کہانی کی ابتدا ہے۔بات پانا کو کسی طرح بھی پرکھا جائے تو وہ کہانی کی ہی شکل میں دیکھائی دے گی۔مغرب سے کہانی ہندوستان پہنچی تو سب سے پہلے اس کو بنگالیوں نے اپنایا تے اور عظیم کہانیکار سامنے آئے۔آج بھی بنگلا کہانی دنیائے ادب مین اپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہیں۔

Dr Kramat Mughal ڈاکٹر کرامت مغل ہفتہ 29 دسمبر 2018

کہانی سنسکرت کے لفظ کتھانکم سے کتھا پھر کشا اور ’کہا ‘سے ہوتا ہوا کہانی بنا۔پنجاب کا نام جب بھی لیا جاتاہے تو اس کے ساتھ ہی ذہن میں کئی کہانیوں کے رنگ اُبھر آتے ہیں۔اسے کہانیوں کا دیس کہا جاسکتا ہے۔پنجاب میں صدیوں سے کہانیاں موجود ہیں یا ایسا کہنا بھی بجا ہو گا کہ پنجاب کہانیوں میں بسنے والا دیس رہا ہے۔ان کہانیوں کے آثار آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ پائندہ ہیں۔
کہیں رگ وید کی کہانیاں ہیں تو کئی جاتک کہانیوں کی جھلکیاں موجود ہیں تو کہیں قصہ کہانی کی شکل موجود رہی،’بات پانا‘ کو پنجاب کی ہی ایجاد کہا جا تا ہے یہی ’بات پانا‘ کہانی کی ابتدا ہے۔بات پانا کو کسی طرح بھی پرکھا جائے تو وہ کہانی کی ہی شکل میں دیکھائی دے گی۔مغرب سے کہانی ہندوستان پہنچی تو سب سے پہلے اس کو بنگالیوں نے اپنایا تے اور عظیم کہانیکار سامنے آئے۔

(جاری ہے)

آج بھی بنگلا کہانی دنیائے ادب مین اپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہیں۔ بنگلا زبان سے کہانی اُردو اور ہندی زبان میں آئی اس کے بعد اور دیسی زبانوں سے ہوتی ہوئی پنجابی تک بھی پہنچ گئی۔پنجاب پر انگریزوں کا صیحح معنوں میں قبضہ 1849 ءء کو ہوا ۔اس کے بعد پنجاب کی سر زمین پہ انگریز نے اپنے اثرات کو بہت زیادہ مضبوط کرنے کے لیے اپنی زبان کو فروغ دینا شروع کیا اس میں ان کے کئی پوشیدہ مقاصد پنہاں تھے جس میں ایک کا ذکر خصوصی طور پر یوں کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی زبان یعنی انگریزوں کو اپنی زبان کے طور پر نہیں سیکھنے کا حکم دیا بل کہ یوں کہا کہ یہ ہی تمہاری زبان ہے اس کو سیکھو گے تو مہذب کہلا پاؤ گے نہیں تو نہ نوکری ملے گی اور نہ ہی پہچان۔
ایک ایسا مقصد بھی تھا جس سے وہ اپنی رعایا میں اپنے ہم مذہب کا بھی اضافہ کرنا چاہتے تھے اس کے لیے باقاعدہ اہتمام کیا جانے لگا۔انگریزی سیکھانے کے ساتھ ساتھ مسیحیت کی تبلیغ بھی ان کے اولین ایجنڈے میں تھی۔آج بہت زیادہ آزاد خیال اور ہر لحاظ میں آزادی کا نعرہ لگانے والا انگریز ہی ہے جس نے ہندوستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا۔
انگریزی سیکھانے کے ساتھ انہوں نے مقامی زبان سیکھنے کا بھی اہتمام کیا تا کہ مذہبی تبلیغ کو اور زیادہ موثر کیا جا سکے اس لیے لسانی حوالے سے مطالعہ کیا جایا تو عیاں ہوتا ہے کہ یہاں پہ جتنا کام پادریوں نے لسانی حوالے سے کیا ہے کسی اور شعبہ سے تعلق رکھنے والے انگریزوں نے نہیں کیا اس کی ایک ہی وجہ تھی اور وہ تھی مسیحیت کی تبلیغ اور تعلیم۔
یہاں کی زبان سیکھنے کو ترجیح دی تا کہ مقامی باشندوں کے تہذیب و تمدن کو سمجھا جائے اور پھر ان کو مکمل طور پر سمجھ کر حکمرانی کے مزید اقدامات کیے جائیں۔ان میں ایک خاص اقدام یہ بھی تھا کہ یہاں کہ باشندوں کو اپنا ہم خیال کرنے کے ساتھ ساتھ ہم مذہب بھی بنالیا جائے۔ہم مذہب بنانے کے لیے ضروری تھا کہ مقامی باشندوں کو انگریز اپنے مذہب کے بارے میں بتاتے اس خاص مقصد کے لیے مبلغ بلائے گئے یہ مسیح تعلیمات کے لیے آنے والے وہ پادری ہی تھے جنہوں نے یہاں کے لسانی نظام کا جائزہ لیا اور ابتدائی لسانیات کے حوالے سے تحقیق بھی کی ان میں چاہے ان کے اپنے مقاصد بھی ہوں گے لیکن دیسی زبانوں کے لیے ان کے کام کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
پنجابی لسانیات کے حوالے سے جب بھی ذکر ہو گا تو انگریزوں کی لسانیات کے حوالے سے کام کا ہی حوالہ سامنے آئے گا۔مذہب کی تبلیغ کے لیے انگریز نے یہاں پریس لگانے شروع کر دیے اور ریاست کے چوتھے ستون کی مانند اس کی کڑی نگرانی بھی کی جانے لگی تو ایک مربوط صحافتی نظام کی بنیاد بننے لگی۔اس ساری بنیاد میں مقصد کو انہوں نے ہمیشہ ملحوظِ خاطر رکھا۔
یہاں سے ان حکمرانوں کی دُور اندیشی کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے صحافتی نظام کے لیے یہاں کی دیسی زبانوں میں لکھوانا شروع کر دیا۔اس طرح کرنے سے مقامی باشندے ان کی طرف متوجہ ہونے لگے کیوں کہ انگریز اصل میں ان سے ہی مخاطب تھے۔صحافت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ انہوں نے پریس کو بروئے کار لاتے ہوئے کتابیں شائع کرنے کا بھی بِیڑا اُٹھایا۔
اس طرح انہوں نے مقامی زبان میں بائبل مقدس کے ابواب تبلیغی مقاصد کے ساتھ شائع کرنا شروع کر دیئے جس کے نتیجے میں یہاں کے لوگ نئے حکمران کے مذہب کی پیروی کرنے لگے دیکھتے دیکھتے انگریز اپنے مذہب کو پھیلانے کے لیے پورے پنجاب میں پھیل گئے۔مسیحیت کی تعلیم کے لیے مشنری اداروں کو بنایا گیا جو اپنے قابو میں کیے گئے علاقہ جات کی لوک کہانی اور قِصّے کو بھی اپنے مذہب کی تبلیغ کے لیے استعمال کرنے لگے۔
بات کہانیوں سے آگے نکلی تو یہاں کے رسم و رواج کو بھی سمجھا گیا تا کہ مقامی باشندے کی سماجی نفسیات کو قریب سے سمجھا جائے اور یہ سب کچھ تب ہی ممکن تھا کہ انگریز یہاں کی زبان سیکھے ۔انہوں نے خاص طور پر پادریوں کے ذمہ یہ ڈیوٹی لگائی کہ وہ ایک تو یہاں کی زبان اور رسم ورواج کا بغور مطالعہ کریں دوسا وہ مقامی زبانوں میں کہانی اور قِصّے کی طرز میں مقدس بائبل کے قصے کہانیاں اُسی انداز میں بیان کریں جس انداز میں یہاں کے لوگ کرتے ہیں۔
ان ” خاص “ لوگوں نے یہ بخوبی کیا۔کچھ عرصے بعد لوگ مسیحیت کی طرف آنا شروع ہو گئے۔ پنجاب کے اندر بھی لوگوں کو کرسچن بنانے کے واسطے الگ الگ قصے کہانیاں چھاپنا شروع کر دیئے گے جس کے لیے پنجابی زبان کو ہی استعمال کیا گیا دیکھتے دیکھتے بہت سارے پنجاب کے باشندوں نے اپنامذہب چھوڑکے ان کے مذہب کو اپنا لیا۔ سِکھوں نے اِس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپنے مذہب کو بچانے کے لیے اپنے دھرم کے دھارمک مذہبی قصے کہانیاں کو پنجابی میں شائع کر کے اس کو چھاپنے کا فیصلہ کیا۔
ان میں ایک بڑا مقصد اپنے مذہب کا دفاع اور لوگوں کو مسیحی ہونے سے بچانا بھی تھا۔ اس بارے انہوں نے دن رات کام کرنا شروع کیا جب کہ انگریز 1849 سے اپنے قدم پنجاب میں جما چُکا تھا اور یہاں کے لوگوں کو ہم مذہب بھی بنا رہا تھا۔ مشنری اداروں نے اپنا کام بخوبی سنبھال لیا تھا یہ تنظیمیں جو اپنا کام احسن طریقے سے کر رہی تھیں وہ درج ذیل تھیں: 1- The Morrian‘ The Church of Scot Land 2- Medical Mission 3-Chirstian literary society 4- Punjab Religious book society 5- The American tract society ,Ludhiana یہ تنظیمیں کچھ عرصے میں ہی پورے پنجاب میں پھیل چُکی تھیں اور انگریزوں نے سرکاری طور پر ان کو اچھی خاصی گرانٹ بھی دینا شروع کر دی تھی اگرچہ کچھ تنظیمیں فلاح کے کام پہ بھی مامور رہیں پر اس طرح بھی انہوں نے مسیحیت کا پیغام لوگوں تک پہنچانا شروع کیا تھا۔
پنجاب میں مسیحیت کی تبلیغ کی روایت نے اپنا کام دِکھانا شروع کر دیا تھا کرسچن لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ لُدھیاناکی تنظیم The American tract society نے اپنا لیتھو چھاپا خانہ لگایا اورکُتب بڑے پیمانے پرشائع ہونے لگ گئیں۔ اِس سلسلے میں انہوں نے جو کتب شائع کی تحقیق سے یہ صیحح ہوتا ہے کہ وہ پنجاب رلیجس بک سوسائٹی نے 1877 میں لدھیانا مشن پریس سے ”بائبل دیاں کہانیاں“ ( بائیبل کی کہانیاں)کے عنوان سے ”چوپترے“ چھپوائے تھے ۔
ان کہانیوں کے ذریعے مذہبی مقاصد پورے کیے گئے اور اس سہارے کو انگریز تلاش کرنے میں کافی عرصے سے سرگرم عمل تھے۔ یہ حالات سکھ مت کے لوگوں کے لیے ناقابل قبول تھا وہ اپنے مذہب کے بچاؤ کے لیے سامنے آنا چاہتے تھے ۔کیوں کہ سارے حالاے سے ان کے مذہب کو خطرہ لاحق تھا ۔انگریزوں کی طرح سکھوں کو بھی اپنے مذہب کی تبلیغ کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ناگزیر تھا۔
بھائی وِیر سنگھ نے 1872 میں سب سے مذہبی کہانیوں کو تخلیق کیا اور اس میں انہوں نے اصلاح کے پہلو کو نمایاں رکھا۔اس طرح کی کہانیوں میں اپنے مذہب کے ساتھ محبت کے مقصد کو اجاگر کیا گیا تھا۔ان میں کوئی ادبی رنگ نہیں موجود تھا اور نہ ہی سماج کے حوالے سے کوئی خاص بحث سامنے آتی تھی۔یہ پنجابی زبان میں لکھی جانے والی ابتدائی کہانیاں تھیں ان کے بعد سادھو سُندر سنگھ کی لکھی کہانیاں بھی Tract (مذہبی رسالا) میں چھپنے لگی۔
اس کے ساتھ دوسری طرف انگریز بھی اپنے کام کو جاری رکھے ہوئے تھا ”بائبل دیاں مورتاں اُتے کہانیاں“ (بائبل کی تصویریں اور کہانیاں)بھی چھپ چُکی تھیں۔جس بارے ڈاکٹر گرچرن سنگھ عرشی کہتے ہیں کہ اُس میں تخلیق کی گئی کہانیوں کی کل گنتی چار ”سیلیاں دی کتھا‘ کرار داتن تے ابراہام دی کتھا‘ پتل دے سپ دی کتھا تے بلد دی کتھا “ (سلیمان کی کہانی۔
ابراہام کی کہانی۔پیتل کے سانپ کی کہانی اور بیل کی کہانی ۔کرار داتن کی کہانی) ہے۔ جب عیسائیت کا پرچار ہو رہا تھا تب دوسرے مذاہب کے رہنماؤ ں نے اس بات کی کمی کو بھی محسوس کیا کہ یہاں کی زبان کو تبلیغ کے لیے آگے لیجایا جائے جس کے لیے 1873میں ”سنگھ سبھا“ بنائی گئی جس نے سب سے زیادہ پنجابی نثری ادب پر اپنا اثر چھوڑا۔ لالا بہاری لال نے پنجابی زبان میں چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھنا شروع کر دی جو عام فہم زبان میں ہوتی تھیں اور ان میں صرف مذہبی رنگ ہی موجود ہوتا تھاجس سے اخلاقی درس کا کام لیا جاتا اور اصلاح کے حوالے سے کام کرنے کی طرف آمادہ کیا جاتا۔
بھائی پریم سنگھ نے بھی پرانی مذہبی کہانیوں کو لے کر نئے انداز میں لکھنا شروع کر دیا۔ان کے اس خاص اسلوب کو سراہا جانے لگا۔ انہوں نے ” بُدھی باردھ “ کے عنوان سے ان کہانیوں کے مجموعے کو 1905 میں چھاپ دیا جس سے پنجابی کہانی میں ایک بالکل نیا اسلوب شامل ہوا جو پہلے موجود نہ تھا۔ اس میں زندگی کے نئے رنگ شامل ہونے لگے۔جب اس میں زندگی کے نئے رنگ شامل ہونے لگے تو زندگی کے نئے نئے رجحانات بھی آ گئے۔
اس کے علاوہ پرانے گرنتھ بھی ترجمہ ہونے لگے ان کہانیوں میں پنجابی کے ساتھ ساتھ اُردو کا ملاپ بھی دیکھا جا سکتا ہے کیوں کہ اس وقت تک دوسری زبانوں سے پنجابی میں ترجمہ کرنے کا رواج بھی شروع ہونے والا تھا اس کو پنجابی میں ترجمہ کرنے کا ابتدائی دور بھی کہا جا سکتا ہے جس سے یورپی مصنفین کی تحریریں پنجابی میں پڑھی جانے لگی ایسا کرنے سے پنجابی میں نئے رنگ کا امتزاج آنے سے سیکھنے کے بھی مواقع پیدا ہونے لگے اور تحریر کا رنگ بھی بدلنے لگا رنگا رنگی کے ساتھ ساتھ تکنیکی طور پر بھی بہتری کی گنجائش محسوس ہونے لگی۔
جب بہتری کی گنجائش نظر آنے لگے تو فنی لحاظ سے بھی ترجمہ شدہ تحریروں سے سیکھنے کے لیے کافی کچھ ملنا ایک فطری امر ہے۔ پنجابی کہانی لکھنے والوں میں سب سے پہلے لال سنگھ کملا اکالی کا نام سب سے پہلے نظر آتا ہے انہوں نے 1911ءء میں لکھنا شروع کیا ۔ان کہ پہلی کہانی کا نام بھی اکالی ہی تھا جو بعد میں ان کے نام کا حصہ ہی بن کے رہ گیا۔لال سنگھ کملا اکالی کے دو برس بعد گُربخش سنگھ نے پنجابی میں لکھنا شروع کیا وہ یورپ سے تعلیم حاصل کر کے آ ئے تھے اس لیے ان کہ تحریر میں بھی مغربی انداز اور تکنیک آنا بھی فطری ہی تھا۔
گربخش سنگھ نے اپنا زیادہ وقت امریکامیں گزارہ تھا وہاں کی تہذیب اور ثقافت کو بھی گہری نگاہ سے دیکھا تھا جو اُن کی تحریروں میں بھی نظر آئی ۔انہوں نے”پریت لڑی“ کے نام سے ایک ماہنامہ کا بھی اجراء کیا جس کا مقصد کہانی کے فن کی ترویج تھا اور اس فن کو نئی راہوں کی طرف گامزن کرنابھی تھا۔اس مقصد میں وہ کافی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔ان دو نوں کے دور میں ہی بھائی وِیر سنگھ (1872-1952) نے بھی باقاعدہ پنجابی کہانی لکھنا شروع کی۔
ان کے علاوہ موہن سنگھ وید نے بھی اپنے تین مجموعے ” ہیرے دیاں کنیاں“ (1927)‘ رنگ برنگے پھُل‘ قسمت دا چکر (1934) چھاپے۔ آپ نے سماجی اصلاح پر زور دیا اور مذہبی پرچار کو موضوع بنائے رکھا۔سماج کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ سیاست پر بھی لکھا جانے لگا اور اس میں پہل کرنے والے موہن سنگھ جوش کا مجموعہ ”آزادی دے پروانے“ شائع ہوا۔ہیرا سنگھ درد‘ موہن سنگھ جوش اورگُرمکھ سنگھ مسافر نے بھی اپنی کہانی میں سیاست اور حکومت کے اہلکاروں کو موضوع بنانا شروع کیا۔
پہلی بار پنجابی میں عوام کے حقوق کے حوالے سے نثر میں لکھا جانا تحسین کے قابل سمجھا جانے لگا۔ یہ سب انفرادی احساس کے ساتھ ساتھ اجتماعی احساس اور شعور کی بھی بات کر رہے تھے جس سے پڑھنے والوں نے ان کو توجہ دینا شروع کی۔نانک سنگھ کی کتاب ” رکھڑی “ سے ایک نئے دور میں کہانی شامل ہونے لگی اس کے علاوہ انہوں نے پانچ مجموعے اور لکھے ’تصویراں دے دوویں پاسے“ ایسی کہانیاں تھیں جن کو ترجمے کی وجہ سے نئی زندگی سی مل گئی۔
جوشوا فضل الدین کا تعلق لائل پور (موجودا فیصل آباد) سے ہے پر انہوں نے اپنی زیادہ تر زندگی لاہور میں ہی گزاری۔1929ء میں انہوں نے ”پنجابی دربار“ نام کا ایک رسالہ شروع کیا جس میں نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی درکار تھی۔جوشوا فضل الدین پنجابی زبان کے ابتدائی کہانیکاروں میں اہم ہیں انہوں نے ” ادبی افسانے “ کے عنوان سے اصلاح کے حوالے سے کہانیاں لکھی ہیں۔
فضل شاہ،ہر کرشن لال پرشاد،کپور سنگھ تے اظہر حیدر جیسے نئے لکھنے والے بھی سامنے آئے لیکن ان کا کوئی بھی مجموعہ نہ چھپ سکا۔یہ وہ لکھنے والے تھے جنہوں نے اپنی تحریروں مین الگ الگ رنگ بکھیرنے کی سعی کی اوء نئے دور کے رجحانات کو قبول کرنے والوں میں پہل کی۔یہ معیاری لکھنے کو ترجیح دینے والے لوگ اپنے سفر کو تیز کرتے دیکھائی دینے لگے۔جوشوا فضل الدین کا مجموعہ ”اخلاقی کہانیاں“ چھپ کے سامنے آیا تو معاشرتی مسائل کو بھی کہانی کا مضمون بنایا جانے لگا۔
اِس مجموعے میں کل 31کہانیاں شامل کی گئی تھیں۔جوشوا نے سماج کی اصلاح کو ہی سامنے رکھتے ہوئے اخلاقیات کا سہارا لیا۔تخلیقی کام کے ساتھ ساتھ وہ انگریزی سے پنجابی میں ترجمے کی ضرورت کو بھی سمجھتے تھے ان تراجم کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی کچھ پنجابی کہانیوں کو انگریزی میں بھی ترجمہ کیا۔ سنتوکھ سنگھ دھیر دیاں کی تخلیق کی گئی کہانیاں معاشرتی ناہمواری کو بیان کرتی ہیں، ”سویر ہون تیکر“(صبح ہونے تک) مجموعے میں انہوں نے معاشرے کے کئی رنگ بیان کیے ہیں۔
آئیندہ برس میں نورنگ سنگھ نے رومان کو نئے انداز سے اپنی کہانیوں میں بیان کرنا شروع کیا۔1941 میں کرتار سنگھ دُگل کے مجموعے سامنے آنے کے ساتھ اگلے برس آٹھ نئے مجموعے بھی چھپے۔ان میں سے جیت سنگھ سیتل‘ جے اِس شاد‘ امرجیت کور‘ ہرنام سنگھ‘ گنگا سنگھ‘ گورنام سنگھ‘ سبحان سنگھ کے نام نمایاں رہے۔ یہ بھی سماج کی مختلف اشکال بیان کرنے میں مصروف نظر آئے۔
ان لکھنے والوں نے اس وقت کے انسان کی صیحح صورت حال بھی لکھی اور حقیقت نگاری کی صورت میں ایک اور انداز پنجابی لکھنے والوں میں اجاگر ہونا شروع ہوا۔ اس سفر میں امرتا پریتم بھی شامل ہو گئیں انہوں نے جذبات پر زور دیا ان کہ کہانی میں اتنی انفرادیت تھی کہ وہ پڑھنے والوں میں بے حد پسندیدہ ہو گئیں۔وہ انسانی نفسیات کو کہانی میں بیان کرنے لگیں تو اپنی الگ حیثیت بنانے میں کامیاب رہیں ان کے مجموعے ” کُنجیاں“ (چابیاں) اور ” چھبی ورھے بعد“ (چھبیس برس بعد) ایک ہی برس میں شائع ہوئے یہ برس تھا 1943ء کا جس سے ایک ایسی کہانی لکھنے والی سامنے آئیں جن کی کہانی نے پورے ہندوستان میں اپنی ایک الگ شناخت بنا لی جس سے اور زبانوں میں بھی ان کا لکھا ہوا ترجمہ ہوا۔
امرتا پریتم نے سماج میں موجودعورت کی حیثیت اور کردار کوکہانیوں کا موضوع بنایاجب کہ نانک سنگھ معاشرے میں جنم لینے والے نئے مسائل سے واقفیت کروا رہے تھے۔اِس سے اگلے برس مہندرسنگھ سرنا کا شگناں بھری سویر‘ موہن سنگھ کا پراندی تے سنت سنگھ سیکھوں کا” سماچار“ سامنے آیا۔ 1945میں امرسنگھ نے اپنے مذہب کا پرچارکرتے ہوئے ”آخری پیشوا“ لکھا۔
کلونت سنگھ بھی اپنی پہچان بنانے میں جلد کامیاب ہوئے ’ ’ تُوڑی دی پنڈ“ 1946 میں دیہاتی حیاتی کی تصویریں لے کے آیا۔ پھر پنجاب کی سرزمین کا نقشہ ہی بدل گیا۔1947 کو برصغیر پاک وہند کی تقسیم نے بہت کچھ بدل کے رکھ دیا۔اُس وقت پنجاب کی سرزمین پہ جو کچھ ہو رہا تھا پنجاب میں ہربسنے والا اور لکھنے والاحد سے زیادہ حساس انسان اس لہو میں ڈوبتے حالات اوربگڑتے معاملات کودیکھ کے خون کے آنسو بہانے کے علاوہ کچھ نہ کر سکتا تھا۔
پنجاب کو دو حِصّو ں میں تقسیم کر دیا گیا اور یہ تقسیم مذہب کے نام پر ہونے کی وجہ سے دونوں طرف ہجرت کا ایک سلسلہ شروع ہوا تو جغرافیائی تبدیلی کے ساتھ ساتھ یوں لگنے لگا انسانیت کی تعریف بھی جیسے بدلنے لگ گئی ہو۔بڑے پیمانے پر جو لُوٹ مار اور قتل وغارت ہوئی وہ پوری دُنیا میں نہیں ہوئی تھی مذہب کے جنون نے خون کا پیاسا بنا دیا۔ یہ مشرقی اور مغربی پنجاب دونوں طرف ہو رہا تھا۔
اس لُوٹ مار کے اثرات ایسے تھے کہ وہ ادب کا حِصّہ بن گیا ۔پنجاب کے باشندوں نے ہجرت کا یہ تجربہ پہلی بار دیکھا اور خون کی ہولی جو کھیلی گئی وہ بھی ناقابل فراموش بن گئی۔ عام انسان کی طرح لکھنے والوں نے بھی اس احساس کو محسوس کیا اور اسی واقعے کے بارے میں مغربی پنجاب میں بہت زیادہ لکھا جانے لگا اس کی ایک خاص وجہ یہ بھی تھی کہ قیام پاکستان کے بعد پنجابی لکھن کہانی لکھنے والے زیادہ تر ہجرت کر گئے ہوئے تھے اور یہاں پہ بسنے والوں نے پنجابی لکھنے کی طرف کوئی توجہ ہی نہ دی۔
47 کے بعد پنجابی میں لکھنے کی طرف کسی نے سنجیدگی سے کام نہ لیا کیوں کہ نئی پنیری کے لیے کافی وقت درکار تھا ۔ایک جوشوافضل دین ہی پاکستانی پنجاب میں لکھنے والے رہ گئے تھے انہوں نے بھی اپنی زیادہ توجہ انجیل مقدس کا پنجابی ترجمہ میں لگائی اور کوئی نئی کہانی نہ لِکھ سکے۔ نئی راہیں بننے اور نئی منزلوں کی نشاندہی کرنے والوں کے بارے میں کچھ اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔
جوشوا فضل الدین واحد مصنف تھے جو پاکستانی پنجاب میں پنجابی لکھنے والے رہ گئے تھے جب کہ باقی سب نامی گرامی مصنفین بھارت جا کر لکھنے لگ چُکے تھے ۔وہاں پہ گُرمُکھی رسم الخط رائج ہونے سے دونوں طرف کی پنجابی پڑھنے کا سلسلہ بھی جاتا رہا ۔پاک و ہند کی تقسیم کے بعد دو حصوں میں پنجاب کی بھی تقسیم ہونے سے رسم الخط یکجا نہ ہونے سے بھی ایک دوسرے کی تحریر پڑھنا ناممکن ہو گیا۔
وہاں پر پنجابی زبان کو اہمیت دی گئی اور یہاں پر بالکل برعکس ہوا جس کی وجہ سے نئے لکھنے والے بھی ناپید ہو گئے۔دوسرا مسئلا یہ ہوا کہ پنجابی صحافت بالکل بھی نہ تھی کوئی ادبی میگزین بھی نہ تھا جہاں سے نئے لکھنے والے سامنے آ جاتے ۔ان حالات میں ایک دو اُردو اخبارات نے پنجابی صفحے کا اجراء کیا ” روزنامہ امروز“ اور ” روزنامہ آغاز“ نے پنجابی کا ایک صفحہ مختص کیا جس سے پنجابی لکھنے والوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔
سجاد حیدر جیسے نامور لوگ پنجابی لکھنے کی طرف مائل ہوئے انہوں نے 1948 میں روزنامہ آغاز کے سپلی منٹ میں اپنی پہلی کہانی ” اُڈاری “شائع کی جس کو پنجابی کہانی میں پہلی کہانی کے طور پر لیا جا سکتا ہے کیوں کہ فنی اور ادبی لحاظ سے یہ ایک معیاری کہانی تھی ۔ ان اخبارات میں شاعری کے ساتھ ساتھ نثر لکھنے کا بھی رواج ہونے لگا ۔ حنیف چودھری نے جو پنجابی میں لکھی جانے والی ادبی کہانیوں کا ذکر کرتے ہوئے پاکستا ن کے قیام کے بعدپمفلٹ کی شکل میں چھپنے والی چ کہانیوں کا ذکرکیا ہے اُس میں” نوردین “کوپہلاادیب تسلیم کرتے ہیں جس کی کہانی ” شہید دالہو “ہے۔
آگے وہ اپنی اس تحقیق کا خود ہی جواب دیتے ہیں کہ ”ان کہانیوں کے معیار کی بحث الگ ہے۔“اصل میں یہ پمفلٹ کی صورت میں چھپنے والی وہ کہانیاں ہیں جو فسادات کے واقعات کو بیان کرنے والی کہانیاں تھیں اور ان میں ادبی چاشنی نام کو بھی نہ تھی۔اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ادبی لحاظ سے یہ کہانیاں معیاری تو نہیں تھیں لیکن ان کو پمفلٹوں کی شکل میں گاؤں گاؤں اور قصبوں میں تقسیم کیا جاتا رہااور ان کو لکھنے والوں کے سامنے کوئی ادبی معیار بھی کارفرما نہیں تھا۔
”امروز“ کے ادارتی ممبران میں سے احمد ندیم قاسمی بھی تھے جو افسانوی ادب میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتے تھے انہوں نے پنجابی سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے نئے لکھنے والوں کو پنجابی میں لکھنے کی طرف راغب کیا۔ان کا اپنا پنجابی افسانہ ” وحوش“ بھی چھپا جس میں پنجاب کی معاشرتی زندگی نظر آتی ہے اسی طرح ان کے اُردو افسانوں کی بھی یہ خاصیت ہے کہ ان میں پنجاب میں بسنے والے لوگوں کی عادات،رسوم،رواج اور تہذیب کا ذکر ملتا ہے۔
ترقی پسند ادیبوں کی ایک بڑی تعداد کا سامنے آنا بھی اسی اخبار کا کارنامہ تھا۔عبدالمجید بھٹی نے اپنی کتاب ”دل دیاں باریاں“ مرتب کرتے ہوئے 1962میں اس افسانے کو اپنے انتخاب کا حصہ بھی بنایا تھا ۔نئے لکھنے والوں کی تعداد میں حوصلا افزا اضافہ ہونا ہی تھا کہ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی کوششوں سے پنجابی زبان میں ایک ادبی ماہنامہ” پنجابی“ 1951ء میں جاری کیا تو لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد اُبھر کے سامنے آئی۔
جمیل احمد پال نے ” پاکستانی ادب“ میں لکھا ہے کہ 1951 میں ڈاکٹر فقیر محمد فقیر پنجابی میں ایک عملی کارکن تھے اس لیے انہوں نے پنجابی زبان میں جو رسالہ شروع کیا اس میں اردو لکھنے والوں کو پنجابی میں لکھنے پر آمادہ کیا جس سے مولانا ظفر علی خان‘ عبدالمجید سالک‘ صوفی تبسم‘ مجید لاہور‘ وقار انبالوی‘ حمید نظامی جیسے بڑے نام بھی پنجابی میں لکھنے لگے۔
کُچھ ادیبوں نے مستقل طور پر پنجابی میں لکھا اور دوسرے ایک دو تحریریں لکھنے کے بعد مزید نہ لکھ سکے۔ اس دوران جو لکھنے والے سامنے آئے ان میں سے اکبر لاہوری‘ آغا اشرف‘ افضل احسن رندھاوا‘ اختر سلیمی‘ حنیف باوا‘ حسین شاہد‘ ہاجرہ مشکور ناصری‘ رفعت‘ سمیع اللہ قریشی‘ اختر حسین اختر‘ تنویرمشہدی ‘ شفقت تنویر مرزا‘ کہکشاں ملک‘ محمد منشا یاد‘ محمد آصف خاں‘ نادر جاجوی‘ نواز‘ نسیمہ اشرف علی وغیرہ کا نام نمایاں ہے۔
یہ وہ نمایاں لکھنے والے تھے جنہوں نے پنجابی ادب کو نئی راہیں دیں اس طرح پنجابی ادب ایک نئے دور میں داخل ہوا بالکل اسی طرح جیسے معاشرتی طور پر نئے رنگ اُبھر رہے تھے۔1947ء کے فسادات میں جہاں سیاسی طور پر تبدیلی آئی تھی وہاں سماج نے بھی واضح تبدیلی دکھائی تھی،سماج میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری تھا ۔پنجاب کے لہلہاتے کھیتوں کھلیانوں میں جہاں سبزہ آنکھوں کو سُکون دیا کرتا تھا وہاں پہ خون ہی خون بکھرا ہوا دیکھا تو سوچنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوئی۔
نفسیاتی طور پر ایک ایس جھٹکا لگا جس نے ایک دوسرے پر اعتبار ختم کر دیا ۔بھروسا ختم ہوا تو بے یقینی آ گئی،پڑوسی بھی آپس میں ایک دوسرے پہ یقین کرنا چھوڑ گئے۔ان سب عوامل کا ایسا اثر ہوا کہ ہر لکھنے والا حقیقت نگار ہو گیا اور معاشرتی طور پر حقیقت کی وی جھلکیاں سامنے آئی جو آنے والے دور میں ادب کا حصہ بننے جا رہی تھیں۔نئے لکھنے والوں کی تحریریں پختہ ہو رہی تھیں وہ روایتی کہانی سے باہر نکلنے لگے تو تکنیک بھی بدلنے لگے۔

Browse More Urdu Literature Articles