Punjabi Kahani Ki Kahani..Episode 2 - Article No. 1854

Punjabi Kahani Ki Kahani..Episode 2

پنجابی کہانی کی کہانی۔۔۔قسط نمبر2 - تحریر نمبر 1854

پھر ایک ایسا وقت آیا کہ پنجاب کی سرزمین کا نقشہ ہی بدل گیا۔1947 کو برصغیر پاک وہند کی تقسیم نے بہت کچھ بدل کے رکھ دیا۔اُس وقت پنجاب کی سرزمین پہ جو کچھ ہو رہا تھا پنجاب میں ہربسنے والا اور لکھنے والاحد سے زیادہ حساس انسان اس لہو میں ڈوبتے حالات اوربگڑتے معاملات کودیکھ کے خون کے آنسو بہانے کے علاوہ کچھ نہ کر سکتا تھا۔پنجاب کو دو حِصّو ں میں تقسیم کر دیا گیا اور یہ تقسیم مذہب کے نام پر ہونے کی وجہ سے دونوں طرف ہجرت کا ایک سلسلہ شروع ہوا تو جغرافیائی تبدیلی کے ساتھ ساتھ یوں لگنے لگا انسانیت کی تعریف بھی

Dr Kramat Mughal ڈاکٹر کرامت مغل جمعرات 3 جنوری 2019

پھر ایک ایسا وقت آیا کہ پنجاب کی سرزمین کا نقشہ ہی بدل گیا۔1947 کو برصغیر پاک وہند کی تقسیم نے بہت کچھ بدل کے رکھ دیا۔اُس وقت پنجاب کی سرزمین پہ جو کچھ ہو رہا تھا پنجاب میں ہربسنے والا اور لکھنے والاحد سے زیادہ حساس انسان اس لہو میں ڈوبتے حالات اوربگڑتے معاملات کودیکھ کے خون کے آنسو بہانے کے علاوہ کچھ نہ کر سکتا تھا۔پنجاب کو دو حِصّو ں میں تقسیم کر دیا گیا اور یہ تقسیم مذہب کے نام پر ہونے کی وجہ سے دونوں طرف ہجرت کا ایک سلسلہ شروع ہوا تو جغرافیائی تبدیلی کے ساتھ ساتھ یوں لگنے لگا انسانیت کی تعریف بھی جیسے بدلنے لگ گئی ہو۔
بڑے پیمانے پر جو لُوٹ مار اور قتل وغارت ہوئی وہ پوری دُنیا میں نہیں ہوئی تھی مذہب کے جنون نے خون کا پیاسا بنا دیا۔ یہ مشرقی اور مغربی پنجاب دونوں طرف ہو رہا تھا۔

(جاری ہے)

اس لُوٹ مار کے اثرات ایسے تھے کہ وہ ادب کا حِصّہ بن گیا ۔پنجاب کے باشندوں نے ہجرت کا یہ تجربہ پہلی بار دیکھا اور خون کی ہولی جو کھیلی گئی وہ بھی ناقابل فراموش بن گئی۔ عام انسان کی طرح لکھنے والوں نے بھی اس احساس کو محسوس کیا اور اسی واقعے کے بارے میں مغربی پنجاب میں بہت زیادہ لکھا جانے لگا اس کی ایک خاص وجہ یہ بھی تھی کہ قیام پاکستان کے بعد پنجابی کہانی لکھنے والے زیادہ تر ہجرت کر گئے ہوئے تھے اور یہاں پہ بسنے والوں نے پنجابی لکھنے کی طرف کوئی توجہ ہی نہ دی۔

47 کے بعد پنجابی میں لکھنے کی طرف کسی نے سنجیدگی سے کام نہ لیا کیونکہ نئی پنیری کے لیے کافی وقت درکار تھا ۔ایک جوشوافضل دین ہی پاکستانی پنجاب میں لکھنے والے رہ گئے تھے انہوں نے بھی اپنی زیادہ توجہ انجیل مقدس کا پنجابی ترجمہ کرنے میں لگائی اور کوئی نئی کہانی نہ لِکھ سکے۔ نئی راہیںبننے اور نئی منزلوں کی نشاندہی کرنے والوں کے بارے میں کچھ اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔
جوشوا فضل الدین واحد مصنف تھے جو پاکستانی پنجاب میں پنجابی لکھنے والے رہ گئے تھے جب کہ باقی سب نامی گرامی مصنفین بھارت جا کر لکھنے لگ چُکے تھے ۔وہاں پہ گُرمُکھی رسم الخط رائج ہونے سے دونوں طرف کی پنجابی پڑھنے کا سلسلہ بھی جاتا رہا ۔پاک و ہند کی تقسیم کے بعد دو حصوں میں پنجاب کی بھی تقسیم ہونے سے رسم الخط یکجا نہ ہونے سے بھی ایک دوسرے کی تحریر پڑھنا ناممکن ہو گیا۔
وہاں پر پنجابی زبان کو اہمیت دی گئی اور یہاں پر بالکل برعکس ہوا جس کی وجہ سے نئے لکھنے والے بھی ناپید ہو گئے۔دوسرا مسئلا یہ ہوا کہ پنجابی صحافت بالکل بھی نہ تھی کوئی ادبی میگزین بھی نہ تھا جہاں سے نئے لکھنے والے سامنے آ جاتے ۔ان حالات میں ایک دو اُردو اخبارات نے پنجابی صفحے کا اجراء کیا ’’روزنامہ امروز‘‘ اور ’’ روزنامہ آغاز‘‘ نے پنجابی کا ایک صفحہ مختص کیا جس سے پنجابی لکھنے والوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔
سجاد حیدر جیسے نامور لوگ پنجابی لکھنے کی طرف مائل ہوئے انہوں نے 1948 میں روزنامہ آغاز کے سپلی منٹ میںاپنی پہلی کہانی ’’ اُڈاری ‘‘شائع کی جس کو پنجابی کہانی میں پہلی کہانی کے طور پر لیا جا سکتا ہے کیوں کہ فنی اور ادبی لحاظ سے یہ ایک معیاری کہانی تھی ۔ ان اخبارات میںشاعری کے ساتھ ساتھ نثر لکھنے کا بھی رواج ہونے لگا ۔ حنیف چودھری نے جو پنجابی میںلکھی جانے والی ادبی کہانیوں کا ذکر کرتے ہوئے پاکستا ن کے قیام کے بعدپمفلٹ کی شکل میں چھپنے والی کہانیوں کا ذکرکیا ہے اُس میں’’ نوردین ‘‘کوپہلاادیب تسلیم کرتے ہیں جس کی کہانی ’’ شہید دالہو ‘‘ (شہید کا خُون) ہے۔
آگے وہ اپنی اس تحقیق کا خود ہی جواب دیتے ہیں کہ ’’ان کہانیوں کے معیار کی بحث الگ ہے۔‘‘اصل میں یہ پمفلٹ کی صورت میں چھپنے والی وہ کہانیاں ہیں جو فسادات کے واقعات کو بیان کرنے والی کہانیاں تھیں اور ان میں ادبی چاشنی نام کی بھی نہ تھی۔اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ادبی لحاظ سے یہ کہانیاں معیاری تو نہیں تھیں لیکن ان کو پمفلٹوں کی شکل میں گائوں گائوں اور قصبوں میں تقسیم کیا جاتا رہااور ان کو لکھنے والوں کے سامنے کوئی ادبی معیار بھی کارفرما نہیں تھا۔
’’امروز‘‘ کے ادارتی ممبران میں سے احمد ندیم قاسمی بھی تھے جو افسانوی ادب میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتے تھے انہوں نے پنجابی سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے نئے لکھنے والوں کو پنجابی میں لکھنے کی طرف راغب کیا۔ان کا اپنا پنجابی افسانہ ’’ وحوش‘‘ بھی چھپا جس میں پنجاب کی معاشرتی زندگی نظر آتی ہے، اسی طرح ان کے اُردو افسانوں کی بھی یہ خاصیت ہے کہ ان میں پنجاب میں بسنے والے لوگوں کی عادات،رسوم،رواج اور تہذیب کا ذکر ملتا ہے۔
ترقی پسند ادیبوں کی ایک بڑی تعداد کا سامنے آنا بھی اسی اخبار کا کارنامہ تھا۔عبدالمجید بھٹی نے اپنی کتاب ’’دل دیاں باریاں‘‘ مرتب کرتے ہوئے 1962میںاس افسانے کو اپنے انتخاب کا حصہ بھی بنایا تھا ۔نئے لکھنے والوں کی تعداد میں حوصلا افزا اضافہ ہونا ہی تھا کہ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی کوششوں سے پنجابی زبان میں ایک ادبی ماہنامہ’’ پنجابی‘‘ 1951ء میں جاری کیا تو لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد اُبھر کے سامنے آئی۔
جمیل احمد پال نے’’ پاکستانی ادب‘‘ میں لکھا ہے کہ 1951 میں ڈاکٹر فقیر محمد فقیر پنجابی میں ایک عملی کارکن تھے اس لیے انہوںنے پنجابی زبان میں جو رسالہ شروع کیا اس میں اردو لکھنے والوں کو پنجابی میں لکھنے پر آمادہ کیا جس سے مولانا ظفر علی خان‘ عبدالمجید سالک‘ صوفی تبسم‘ مجید لاہور‘ وقار انبالوی‘ حمید نظامی جیسے بڑے نام بھی پنجابی میں لکھنے لگے۔
کُچھ ادیبوں نے مستقل طور پر پنجابی میں لکھا اور دوسرے ایک دو تحریریں لکھنے کے بعد مزید نہ لکھ سکے۔ اس دوران جو لکھنے والے سامنے آئے ان میں سے اکبر لاہوری‘ آغا اشرف‘ افضل احسن رندھاوا‘ اختر سلیمی‘ حنیف باوا‘ حسین شاہد‘ ہاجرہ مشکور ناصری‘ رفعت‘ سمیع اللہ قریشی‘ اختر حسین اختر‘ تنویرمشہدی ‘ شفقت تنویر مرزا‘ کہکشاں ملک‘ محمد منشا یاد‘ محمد آصف خاں‘ نادر جاجوی‘ نواز‘ نسیمہ اشرف علی وغیرہ کا نام نمایاں ہے۔
یہ وہ نمایاں لکھنے والے تھے جنہوں نے پنجابی ادب کو نئی راہیں دیں اس طرح پنجابی ادب ایک نئے دور میں داخل ہوا بالکل اسی طرح جیسے معاشرتی طور پر نئے رنگ اُبھر رہے تھے۔1947ء کے فسادات میں جہاں سیاسی طور پر تبدیلی آئی تھی وہاں سماج نے بھی واضح تبدیلی دکھائی تھی،سماج میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری تھا ۔پنجاب کے لہلہاتے کھیتوں کھلیانوں میں جہاں سبزہ آنکھوں کو سُکون دیا کرتا تھا وہاں پہ خون ہی خون بکھرا ہوا دیکھا تو سوچنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوئی۔
نفسیاتی طور پر ایک ایسا جھٹکا لگا جس نے ایک دوسرے پر اعتبار ختم کر دیا ۔بھروسا ختم ہوا تو بے یقینی آ گئی،پڑوسی بھی آپس میں ایک دوسرے پہ یقین کرنا چھوڑ گئے۔ان سب عوامل کا ایسا اثر ہوا کہ ہر لکھنے والا حقیقت نگار ہو گیا اور معاشرتی طور پر حقیقت کی بھی جھلکیاں سامنے آئی جو آنے والے دور میں ادب کا حصہ بننے جا رہی تھیں۔نئے لکھنے والوںکی تحریریں پختہ ہو رہی تھیں وہ روایتی کہانی سے باہر نکلنے لگے تو تکنیک بھی بدلنے لگے۔
سنتالیس کے بعد جو خلا ء پیدا ہوا تھا اس کو پورا کرنے کے لیے سخت محنت کی ضرورت تھی۔بہت زیادہ کہانیکار پنجابی لکھنے میں جو بڑے جوش وخروش سے آئے تھے انہوں نے منہ موڑ لیا کیونکہ پنجابی پڑھنے والے بھی کم تھے اور اس وقت پنجابی لکھنا جیسے گھاٹے کا سودا ہو اس لیے نو آموز لکھنے والے آتے رہے تو نقاد تو سِرے سے کوئی موجود ہی نہ تھا ان دنوں پنجابی کہانی کی رفتار جُوں کی رفتار سے بھی کم رہی۔
سماج کی شکل بدلنے سے لوگوں کی سوچ بھی بدلنے لگی ۔ سجاد حیدر اورڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی کاوشوں کے ساتھ پنجابی کہانی لکھنے والوں کو ایک پلیٹ فارم مل گیا جس سے اکبر لہوری‘ سجاد حیدر‘ نذر فاطمہ‘ رفیق لودھی‘ سہیل یزدانی‘ نورکاشمیری و شفیع عقیل جیسے لکھنے والے شامل ہوئے تو پنجابی ادب کو ترقی دینے والے قافلے میںمرتضیٰ جیلانی‘ نظام الدین توکلی‘ قاصر امرتسری‘ آغا اشرف تے انورسجاد بھی شامل ہو گئے۔
1958ء میں چودھری محمد افضل نے ’’ پنج دریا‘‘ شروع کیا۔1947 سے 1958 تک کوئی مجموعہ سامنے نہ آیا پر یہ بھی حقیقت رہی کہ موضوعات میں تبدیلی آنے لگی۔ اخلاقی ‘ سماجی‘ جنسی کے ساتھ ساتھ سیاسی تحریکوں سے جنم لینے والے نظریات بھی موضوع بننے لگے۔ قیام پاکستان کے بعد پنجابی میںپہلا افسانوی مجموعہ جس ادیب کا شائع ہوا ان کا نام نواز ہے یہ مجموعہ ’’ ڈونگھیاں شاماں‘‘1960ء میں شائع ہوا۔
نواز کی کہانی میں زندگی کا کومل رنگ نظر آنے لگا اس کے ساتھ انہوں نے رومانوی جذبے میں ڈوبی کہانیاں بھی لکھیں۔1960ء کے بعد بہت سے نئے لکھنے والے جیسا کہ اختر حسین اختر‘ شمس نغمان‘ شفقت سلطانہ‘ حسین شاہد‘ رفعت‘ منصور قیصر‘ منشایاد‘ نذرفاطمہ‘ نادر جاجوی‘ انور علی اور افضل احسن رندھاوا بھی سامنے آئے۔پنجابی ادب کا کہانی نمبر اور عبد المجید بھٹی کا انتخاب ’’ دل دیاں باریاں‘‘ کے ساتھ ساتھ آصف خاں کی مرتب کی گئی کہانیوں کی کتاب ’’اجوکی کہانی‘‘ کا ذکر پنجابی کہانی کی ترقی میںبنیادی حیثیت رکھتاہے۔
اس میں 24 کہانیکار تھے ، ساتھ مغربی پنجاب سے بھی کئی ادیبوں کو اس انتخاب میںشامل کیاگیا۔ صوفی تبسم‘ راجندرسنگھ بیدی‘ نواز‘ سنت سنگھ سیکھوں‘ انورسجاد‘ نانک سنگھ‘ غلام علی چودھری‘ سبحان سنگھ‘ اکمل علیمی‘ کرتارسنگھ دُگل‘ مسز ستنام‘ محمود‘ امرتا پریتم‘ رشیدہ سلیم سیمیں‘ کلونت سنگھ ورک‘ شفقت تنویر مرزا‘ افضل احسن رندھاوا‘ اِس سورن‘ حنیف باوا‘ کلدیپ‘ حنیف چودھری‘ شمس نغمان‘ محمد آصف خاں‘ شہباز ملک‘ خالد لاہوری یہ وہ لکھنے والے تھے جو اس انتخاب میں شامل رہے۔
آغا اشرف کا ’’واء ورولے‘‘ ( گرداب ) 1965 ء میں یہ مجموعہ سماجی‘ اخلاقی‘ اصلاحی رنگ کو جگاتے ہوئے شائع ہوااس مجموعے میں انہوں نے زبان و بیان کے استعمال سے قاری کی توجہ حاصل کی۔اُن کی نمائندہ کہانی ’’ راجُو ‘‘ ہے جس میں پیشہ ور بدمعاش اور ایسا طاقتور انسان جو معاشرے میں بہتری کا خواہاں ہے اس کے درمیان چپقلش کو موضوع بنا یا گیا ہے۔
وہ معاشرے کے لیے بہتری کا خواہاں بنتے اپنی زندگی بھی قربان کر دیتا ہے۔ 1967 ء میں اختر سلیمی کی کتاب ’’لمیاں اُڈیکاں ‘‘ (طویل انتظار)چھپااور اس سے اگلے برس 1968ء میں رفعت اور نسیمہ اشرف علی کے مجموعے بالترتیب’’ اک اوپری کُڑی‘‘(ایک انجان لڑکی) تے’’ سکے پُتر‘‘ (سُوکھے ہوئے پتّے) چھپے۔ ان کے اندر عورتوں کا معاشرے میں کردار ہی زیر بحث رہا۔
نسیمہ اشرف نے زیادہ تر روایت کی کہانی ہی لکھی۔تقسیم کے بعد کے حالات کو دیکھتے اُس کو موضوع بناتے 1969 ء میں حنیف چودھری کی کہانیوں کا مجموعہ ’’کچ دی گُڈی‘‘ ( کانچ کی گڑیا) چھپا۔ رفعت نے پنجابی کہانی کے ابتدائی دور میں اہم کردار ادا کہا ہے وہ پاکستانی خواتین میں سب سے پہلی ہیں جن کا مجموعہ پنجابی کہانی میں پہلی با ر آیا تھا۔اکیسویں صدی کی ابتدا میں ہی ان کا بتیس کہانیوں کا ایک اور مجموعہ’’ بتّی والا چوک‘‘ (روشنی کا مینارہ) اس نوعیت سے اہم تھا کہ اس میں سترہ کہانیوں کے ساتھ پندرہ شعری کہانیاں بھی شامل کی گئی تھیں۔
آ پ کے چُنے گئے موضوعات کی وجہ سے آپ کو ایک دلیر افسانہ نگار کے طور پر بھی جانا جا تا ہے۔ رفعت نے عام انسان کا مشاہدہ کیا ہے۔’’ بتّی والا چوک‘‘(روشنی کا مینارہ) ایک ایسی کہانی ہے جس کا مرکزی کردار ’زہراں‘ ہے اور وہ بے زبان اور لاچار کردار میں نظر آتی ہے۔اس کی اپنی مراد تو پوری نہیں ہوئی لیکن وہ ایک ایسا گڑھ بن جاتی ہے جہاں پہ لوگ اپنی مرادیں لے کر آتے ہیں۔
جب وہ اپنے بانجھ پن کو دُور کرنے کے لیے مزاروں پہ دعائیں کر رہی ہوتی ہے تو ایک مزار پر دعا کرتے کرتے دھمال شروع کر دیتی ہے ،اسی دھمال کے دوران وہ گِر کر بیہوش ہو جاتی ہے۔جس کے بعد اس کا نیا جیون شروع ہو جاتا ہے توہم پرست عورتیں اس کو کوئی بہت پہنچی ہوئی پیرنی سمجھنے لگتے ہیں تو وہ ایک ایسا روشنی کا مینارہ بن جاتی ہے جس سے ہر کوئی روشنی لینے آنے لگتا ہے۔
رفعت کامجموعہ ’’امرت نواس ‘‘جنوری 2015 میں چھپا پر اِس مجموعے کی سب کہانیاں سویر انٹرنیشنل اورپندرہ روزہ رویل میگزین میں 2014 تک چھپ چُکی تھیں۔ اسی برس احسن واگھا کی کتاب ’’ تھل کرن دریا‘‘ (صحرا میں بنے دریا)چھپی۔1970ء ظہیر نیاز بیگی کا مجموعہ ’’ میرا دیس ‘‘ کے عنوان سے آیا۔ستّر کی دہائی تک پہنچتے پہنچتے پاکستانی پنجابی کہانی کی طرف خاصا دھیان دیا جانے لگ گیا تھا۔
رائٹرز گلڈ کے قیام سے ایک اچھا شگن ہونے کا احساس ہوا۔پنجابی کتابوں کو حکومت کی طرف سے انعامات دینے والی کتابوں میں شامل کیا جانے لگا اور نئی تنظیمیں بھی بننے لگی جو پنجابی کی ترقی کے لیے کام کر رہی تھیں۔ہفتہ وار اور مہیناوار تنقیدی ادبی اجلاس ہونے لگے جس سے پنجابی کہانی کو تکنیکی معیار پر پرکھنے کا کام شروع ہوا۔پنجابی صحافت کا بھی کسی حد تک باقاعدہ آغاز ہو گیا تھا اور نئے شامل ہونے والے ادیب جو باقاعدہ لکھ رہے تھے ان میں افضل احسن رندھاوا‘ محمد آصف خان‘ سید اکمل علی‘ انیس ناگی‘ احمد سلیم‘ انورسجاد‘ انور علی‘ اشفاق احمد‘ بانو قدسیہ‘ رشیدہ سلیم سیمیں‘ منصور قیصر‘ کہکشاں ملک‘ سلیم خاں گمی‘ ستار طاہر‘ ستنام محمود‘ چودھری محمد رفیق‘ ریاض بٹالوی‘ اعجاز حسین رضوی‘ عصمت جہاں‘ منظوراحمد قریشی‘ حسین شاد‘ لطیف منہاس‘ مشتاق باسط‘ ہاجرہ شکور ناصری‘ تنویر بخاری‘ آثم مرزا‘ پروفیسروقار بن الٰہی‘ راحت نسیم ملک‘ فوزیہ رفیق‘ کنول مشتاق اور غلام علی چودھری کے نام شامل ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ بہت سے وہ ادیب جو ابتدا سے لکھ رہے تھے انہوں نے پنجابی زبان میں لکھنا چھوڑ دیا تھا۔اِس عشرے میںبہت سے لکھنے والوں نے پنجابی میں لکھناچھوڑ دِیا۔ان میں شہبازملک‘ شفقت تنویر مرزا‘ اشفاق احمد اور انیس ناگی شامل ہیں۔ انور علی جوکہ ایک کارٹونسٹ کے طور پر ننھاکے نام سے پہچان رکھتے تھے اُن کی کہانیوں کا مجموعہ ’’کالیاں اِٹاں کالے روڈ‘‘ 1972ء میں شائع ہوا،انہوں نے معاشرے پہ طنز کرنے کے ساتھ ساتھ بھرپور تلخ حقائق کو اپنی کہانیوں میں دِکھانا شروع کیا۔
جب سیاسی بے چینی حد سے زیادہ ہوئی تو سارا سماجی نظام ہی بگڑنے لگا تھا اسی نظام نے ننھا کو کارٹون بنانے سے منع کیا تو انہوں نے برش کی جگہ قلم تھام لیا ۔انور علی کا دوسرا مجموعہ ’’ نوری‘‘ 1991 ء میں شائع ہوا جس میںتخلیقی عمل زبان اور ماحول کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے۔آصف خاں کہتے ہیں جب انور علی کے ہاتھ سے برش چھین لیا گیا تو انہوں نے قلم تھام لیا اور وہی کیا جو وہ اپنے برش سے ظالم کا مکروہ چہرہ دکھاتے تھے۔

Browse More Urdu Literature Articles