Quaid E Azam Library - Article No. 939

Quaid E Azam Library

قائداعظم لائبریری - تحریر نمبر 939

کُتب بینی کا بڑا ذریعہ منٹگمری ہال وسعت میں لارنس ہال سے بڑا ہے اسکی تعمیر 66لاکھ میں عمل میں آئی

بدھ 19 اگست 2015

شاذیہ سعید:
کتب بینی کا شوق ذہن کو تازگی ، روح کو بالیدگی اور خیالات کو توانائی بخشنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔ کتاب سے زیادہ فادار دوست اور کوئی نہیں جوانسان کو قید تنہائی سے دور کرکے شعور کے اس دروازے پر لاکھڑا کرتی ہے جس کے ہر ایک پنے کو وہ زندگی کا زینہ بنا کر بلندی کی جانب سفر کرنے پر آمادہ ہوتا ہے۔ روزانہ کتاب پڑھنے سے نہ صرف ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے بلکہ معلومات میں اضافہ ، ذخیرہ الفاظ بہتر ، قوت حافظہ مضبوط اور فیصلے لینے میں آسانی پیدا ہوتی ہے ۔
ہمارے گھر میں دنیا جہاں کی پیش قیمتی اشیاء موجود ہوں لیکن اگر کتب خانہ نہ ہوتو گھر سونا سونا سا لگتا ہے ۔ گھروں کی اصل رونق تو یہ بولتی کتابیں ہی ہیں جو زندگی کو برقرار رکھتی ہیں ۔

(جاری ہے)


کتب خانوں کی بات کریں تو پنجاب خصوصاََ لاہور میں ” وائٹ ہاؤس “ نامی عمارت جسے ہم ” قائداعظم لائبریری “ کے نام سے جانتے ہیں لارنس گارڈن یا باغ جناح کی شان اور ہمارے نوجوان کا مان ہے ۔

اس سفید عمارت کو آج کی تاریخ میں ریسرچ اینڈ ریفرینس سنیٹر ( ادارہ تحقیق وحوالہ جات ) بھی کہا جاتا ہے ۔ ماضی کے دو عظیم منٹگمری اور لارنس اپنی قدامت اور خوب صورتی کے ساتھ چاروں اطراف سے سرسبزوشاداب لانوں کے درمیان خوب خوبصورت نظارہ دے رہے ہیں ۔ یہ مئی 1981ء کی بات ہے جب حکومت پنجاب کے حکم سے اس عظیم الشان کتب خانے کا قیام مغربی پاکستان تعلیمی وتربیتی اداروں کے آرڈیننس 1960ء کے تحت عمل میں آیا ۔
اس کتب خانے کا باقاعدہ افتتاح 25دسمبر 1984ء کو ہوا ۔ سابق گورنرپنجاب جناب غلام جیلانی مرحوم نے اس کتب خانے کے قیام میں اہم کردارادا کیا اور اس کی تزئین وآرائش کی براہ راست نگرانی کی ۔ اگر تاریخ میں جھاٹکیں تو ہم صاف صاف دیکھ سکتے ہیں کہ قائداعظم لائبریری کی عظیم الشان عمارت حکومت برطانیہ کے دور میں 19 ویں صدی کے وسط میں بنائی گئی ۔
یہ عمارت بنیادی طور پر دوبڑے بالوں ” لارنس ومنٹگمری “ پر مشتمل ہے۔ سرجان لارنس پنجاب کے پہلے لیفٹیننٹ گورنر ( 1859ء ) اور سر رابرٹ منٹگمری پنجاب کے دوسرے لیفٹیننٹ گورنر (65-1859ء ) کی یاد گار میں یہ دو وسیع ہال انگریز حکام اور مخیرحضرات درؤسا کے چندے سے مال روڈ اور لارنس گارڈن کے سنگم پر تعمیر کئے گئے ۔ سرجان لارنس پنجاب کا پہلا لیفٹیننٹ گورنر تھا ۔
جس کا تقر ر1859ء میں عمل میں آیا لیکن اپنی علالت کی بنا پر اسی سال واپس انگلستان چلاگیا ۔ بعد میں سرجان لارنس لارڈلارنس کے نام سے وائسرائے ہندمقرر ہوا چنانچہ منٹگمری ہال اور منٹگمری روڈ لاہور کے ساتھ اس کا تعلق ثابت کرتی ہیں ۔ لارنس ہال ومنٹگمری ہال ، دو الگ الگ یادگاریں ہیں جنہیں ایک درمیانی تعمیر کے ذریعے آپس میں ملادیا گیا ہے ۔
لارنس ہال 1861-62ء میں سرجان لارنس کی یادگار کے طور پر تعمیر کیا گیا ۔ اس عمارت کا خاکہ مسٹرسٹون (Stone) سول انجیئر نے تیار کیا تھا اس میں ایک بڑا کمرہ ساڑھے 32فٹ لمبا ساڑھے 30فٹ چوڑا اور 33فٹ اونچا ہے اس کا فرش لکڑی کا ہے اس کے مشرق اور مغرب میں ایک ایک چھوٹا کمرہ ہے۔ پوری عمارت کی لمبائی 53فٹ ہے جبکہ تینوں کمروں کی چھت ایک ہی ہے ۔ لارنس ہال کو جلسہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔
پہلے زمانے میں یہاں سٹیج ڈرامے بھی پیش کئے جاتے تھے اس عمارت کی تعمیر پر 34000 روپیہ صرف ہوا تھا جس کا بیشتر حصہ یورپین صاحبان اقتدار کے چندہ سے فراہم ہوا تھا ۔ لیفٹیننٹ کرنل نیول کی گائیڈ بک متعلقہ لاہور میں ایک عجیب غلطی کا زالہ کرنل گولڈنگ نے اپنی کتاب قدیم لاہور میں کیا ہے نیول نے لارنس ہال کو ”سرخ انیٹوں “ کی بنی ہوئی ایک خوبصورت عمارت بتایا ہے ۔
حقیقت میں سرخ انیٹوں کی بنی ہوئی عمارت نہیں ہے ۔ منٹگمری ہال وسعت میں لارنس ہال سے بھی بڑا ہے ۔ منٹگمری ہال کی تعمیر 1866ء میں عمل میں آئی عمارت کا خاکہ مسٹرگورڈن ( Gurdon) سول انجنیئر نے تیار کیا ۔ رؤسائے پنجاب نے اس ہال کی تعمیر کے لئے دل کھول کر چندہ دیا اس عمارت پر ایک لاکھ 74ہزار روپے خرچ ہوئے جس میں 66ہزار روپے مرمت کی مدمیں شامل ہے اصل عمارت ایک لاکھ 8ہزار روپے میں تیار ہوئی تھی لیکن اس کی چھت بعد میں ناقص ثابت ہوئی اور بڑے پیمانے پر مرمت کرانی پڑی یہ مرمت رائے بہادر کنہیالال مصنف تاریخ لاہور وایگزیکٹو انجنیئر کے زیر نگرانی 1875ء میں ہوئی۔
منٹگمری ہال کا بڑا کمرہ ایک سوچھ فٹ لمبا ، چھیالیس فٹ چوڑا اور اڑتیس فٹ اونچا ہے اس ہال کے چار گوشوں پر جاردومنزلہ کمرے ہیں ستونوں پر اعلیٰ درجہ کاماہی پشت کاکام ہے لارنس ہال ومنٹگمری ہال کی دیوار اور چھتیں روغنی ہیں برآمدے میں ایک دارالمطالعہ ہے ۔ لارنس ہال کی طرح منٹگمری ہال بھی پبلک اور سرکاری تقاریب کے کام آتا تھا ۔ انگریز بہادر اس عمارت میں دربار لگایا کرتے تھے ، قیام پاکستان کے بہت بعد تک لارنس اور مونٹگمری ہال سماجی تقریبات اور دوسری محفلوں کے مراکز رہے ۔
یہاں جم خانہ کلب رہا ، انگریزی دور میں کپلنگ صاحب بھی ٹینس کھیلنے اور چائے پینے یہاں آتے تھے ۔ پاکستان بننے کے بعد اس عمارت میں سول سروسز اکیڈمی قائم کردی گئی کچھ عرصہ کے لئے یہاں مارشل لاء کاہیڈ کوارٹر بھی رہا ۔
پاکستان کے دل شہر لاہور میں واقع یہ کتب خانہ ایک ٹیم خود مختار ادارے کی حیثیت سے کام کررہا ہے اس کا نظم ونسق چلانے کے لئے ایک سیکرٹری پنجاب ہیں سیکرٹری ایجوکیشن ، سیکرٹری فنانس ، سیکرٹری انفارمیشن بالحاظ عہدہ آفیشل ممبر ہیں اس کے علاوہ دس غیر سرکاری ممبر ہیں ڈائریکٹر جنرل پبلک لائبریریز پنجاب بالحاظ عہدہ ممبر اور سیکرٹری بورڈ ہیں ۔
چیف لائبریرین اپنے فنی اور تکنیکی فرائض کے علاوہ انتظامی افسر کے طور پر فرائض سرانجام دیتے ہیں ۔ لارنس ہال جسے اقبال ہال کہا جاتا ہے میں مختلف تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ بیسمنٹ میں بھی بالزبنا کر اردو اور انگریزی سیکشنز میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ انگریزی سیکشن کو ” سرسید احمد ہال “ جبکہ اردو سیکشن کو ” مولوی عبدالحق ہال “ کا نام دیا گیا ہے ۔
80کمپیوٹرز موجودہیں جن میں 16ہزار کمپیوٹرائزڈکتب موجود ہیں جنہیں آن لائن بآسانی پڑھا جاسکتا ہے ۔ اس وقت لائبریری کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ظہیر بابر نے لائبریری وزٹ کرنے کی دعوت دی ہمیں نہ صرف لائبریری کی تاریخ بلکہ آنے والے پراجیکٹس کے حوالے سے بھی معلومات فراہم کیں ۔ انہوں نے بتایا کہ باغ جناح لاہور کے خوشگوار ماحول میں یہ خوبصورت کتب خانہ ہمارے شاندار ماضی ، تاریخی ورثے اور درخشاں روایت کی عکاسی کرتا ہے صوبہ پنجاب کے اعلیٰ ترین اداروں میں زیر تعلیم طلباء وطالبات کی ذہنی نشوونما میں یہ تب خانہ اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔
وطن عزیز کی عدالت عالیہ کے جج صاحبان ، مسلح افواج کے اعلیٰ افسران ودیگر شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین اپنے تحقیقی وتکنیکی منصوبہ جات کی تکمیل کے لئے اس کتب خانے کے وسائل سے بھرپور استغفادہ کر رہے ہیں ۔ کتب خانے کی خصوصی اہمیت کے پیش نظر مختلف تعلیمی اداروں کے وفود بھی اکثر کتب خانے کا مطالعاتی دورہ کرتے رہتے ہیں اس طرح یہ کتب خانہ ایک تعلیمی ، تفریحی اور ثقافتی مرکز کاروپ دھار چکا ہے ۔ اپنی جدید تکنیکی ومعلوماتی خدمات کی بناء پر یہ کتب خانہ وطن عزیز کے دیگر کتب خانوں سے منفرد ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles