Saya Baap - Article No. 2428

Saya Baap

سایہ (باپ)‎ - تحریر نمبر 2428

لیکن شاعر اور ادیب ماں کی محبت میں محبوب کی محبت جیسے ہی گرفتار ملے۔ مدرزڈے پہ بھی ویلنٹاینز ڈے جیسی ہی رونق ملی اور باپ کی حثیت درجے کم ہی رہی

صباء فاطمہ جمعہ 4 ستمبر 2020

مجھے نہیں پتا ماں زیادہ قابل احترام ہے یا باپ۔ دونوں کی حثیت بہت سی کتابوں کہانیوں میں مختلف دیکھی گئی ہے۔ فرمان الہی ہے کہ جنّت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ لیکن فرمان رسول بھی ہے کہ قبولیت میں باپ کی دعا کو اولیت حاصل ہے۔ لہٰذا کوئی ترازو ان دونوں کی محبت کو تول نہیں سکتا اور نہ ہی کوئی حتمی فیصلہ دے سکتا ہے کہ کس کا پلڑا بھاری ہے۔

لیکن شاعر اور ادیب ماں کی محبت میں محبوب کی محبت جیسے ہی گرفتار ملے۔ مدرزڈے پہ بھی ویلنٹاینز ڈے جیسی ہی رونق ملی اور باپ کی حثیت درجے کم ہی رہی ۔کوئی ماں کو اتنے اعلی درجے پہ رکھتا ہے تو لگتا ہی نہیں کہ باپ ساری عمر وہاں اس درجے پہ پہنچ بھی سکتا ہے اور ماں کے قصیدے اتنے ہیں کے لگتا ہی نہیں باپ نام کی مخلوق بھی گھروں میں پائی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

اور کبھی کوئی باپ پہ چار لائنز لکھ دے توپڑھنے والوں کو نیچے کمینٹس میں باپ سے پیار امڈ ہی آتا ہے۔ اور کبھی کبھار سننے کو مل ہی جاتا ہے کے باپ جنّت کی کنجی ہے ۔ جسے منافقت تو نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن انصاف بھی نہیں کہا جا سكتا۔
اگر ماں کے قدموں تلے جنت ہے تو گھر میں سارا دن کا تھکا ہارا جو شخص داخل ہوتا ہے، کبھی بڑھ کر اس کے پاؤں کے نیچے دیکھو تو پھٹا پرانا جوتا ھو گا اور نہ جانے کتنی ہی خواھشیں وہ کچل کے بچوں کی پسند کے کھلونے اور کپڑے لایا ھو گااور پھر بھی آتے ہی سب کی نئی فرمائشیں سن کے اگلے دن زیادہ جوش سے کام پہ جائے گا۔
انسان کی زندگی میں اس انسان کی اہمیت کا اسے علم ہی نہیں ہوتا۔ آپ اکثر اس کے ساتھ زیادتی بھی کر جاؤ تو وہ انسان بھول کر آپ کے ساتھ پہلے جیسا ھو جاتا جس سے انسان کو لگتا کہ وہ بہت خاص ہے۔ لیکن وجہ یہ ہے کہ اس کا دل آپ کے لئے کبھی بدگمان نہیں رہ سکتا۔
خیر باپ تو بیچارہ اتنے میں بھی راضی رہا، وہ ماں بچوں کے بیچ نہ آیا اور نہ کبھی اس بات کا گلہ کیا۔
یہ دنیا کی وہ واحد مخلوق ہے جس سے ماں بچوں کو ڈراتی بھی رہتی ہےاور گھر آنے پہ پٹواتی بھی ہے اور آہستہ آہستہ اسکا امیج ایک ظالم تھانے دار سے بڑھ کر نہیں رہ جاتا، ماں خود صرف دھمکا کے اپنا کام چلاتی ہے اور باپ بیٹے کے درمیان بھی حائل رہتی ہے اور باپ کو کسی سازش کا بھی گمان نہیں گزرتا۔ لیکن باپ گھر میں ایک درخت کی ماند ہوتا ہے جس کی شاخیں پورے گھر کو لپیٹ میں لئے رکھتی ہیں اور کوئی مصیبت بھی گھر میں نہیں داخل ہونے دیتا۔

اسے اپنے بیٹے کے بڑھتے قد سے نہ مسئلہ ہوتا اور نہ ہی کوئی جلن۔ جب چلتے ہویے باپ کا سایہ بڑا ھو اور بچا اچھل اچھل کر اسے پار کرے تو تب بھی باپ خوش ہی ہوتا ہے کے میرا بیٹا میرے سے اگے ہی بڑھے گا۔ باپ کی باتیں بعض اوقات کڑوی ہوتی ہیں مگر بچوں کی اصلاح کے لئے۔ جس میں فائدہ ہی ہوتا ہے۔ ایک انسان کو بااعتماد ہونے کے لئے یہ حقیقت کافی ہے کے اس کا باپ اس کے سر پہ موجود ہے۔
اور وہ مظبوط بھی تب تک ہوتا ہے جب تک اسکے باپ کا ہاتھ کندھے تک آ جائے۔ لیکن محبت تو نشیب کی طرف بہتی ہے یہ بات سب سے پہلے باپ ہی سمجھتا ہے کہ جب اسکا ہاتھ تمهارے کندھے تک نہ پہنچا۔ اس دن سے باپ بیٹے کو ڈانٹنے سے کترانے لگتا۔بہت ہی عجیب انسان ہوتا۔ لگتا ہی نہیں کہ کوئی خواہش ان کے دل میں بھی ہے۔ جسے وہ قید میں رکھے بیٹھا ہوتا ۔ اور نہ جانے کتنی ہی خواھشیں اس نے اپنی عمر کے ہر گزرتے دن کے ساتھ دل میں سلائی ہوتی ہیں۔
اور نہ جانے کتنی ہی خواھشوں کے بے دردی سے گلے گھونٹے ہوتے ہیں۔ لیکن بچوں کی ہر خواہش پوری کی کرتا۔
وہ بچوں کی خواھشیں پوری کرتے جو اپنی ادھوری خواھشیں پوری نہیں کر پاتا تو انکو دفنانے لگتا ہے کہ اب تو میرے بیٹے کی بہت بڑی بڑی خواہشیں ہیں اور پھر سے انکو پورا کرنے کی سعی کرنے لگتا ہے اور اولاد یہ شکایت کرتی کہ ہمارے دل کو کوئی نہیں سمجھتا اور جو بنا کہے سب سمجھ جاتا تھا، وہ ایک دن بیٹے کی عدالت میں نہ سمجھ ھو جاتا ہے۔
وہ ٹوٹ سا جاتا ہے اور اسی دوران اسکی کشتی کسی کنارے ٹھہر سی جاتی ہے اور وہ اضافی چیز(بوجھ )بن جاتا ہے۔ پرانے گرنے والے درخت کی مانند۔
باپ بوجھ نہیں ہوتے، درخت ہوتے ہیں۔
اور سارے درخت پھل نہیں دے پاتے، کچھ کا صرف سایہ اس کے پھل سے بڑھ کے ہوتا ہے، کیا پتا اسکا پھل بہت کڑوا ہو لیکن سایہ بہت گھنا ہو، (جیسا کے برگد کا درخت)، اسی طرح کچھ والد بچوں کی ضروریات اور خواہشات پوری کرنے کی سکت نا بھی رکھتے ہوں،ڈھال ضرور ہوتے ہیں۔
اس لئے والد کا سایہ ضرور رہنا چاہیے یہ ہر طرح کے حالات میں انسان کی ڈھال ہوتا ہے۔۔ اور باپ کی دولت سے بڑھ کر اسکا سایہ ہی کافی ہوتا ہے۔ میرے خیال سے اب ہمیں سمجھنا ہی ھو گا کہ والد کی دھن دولت ہمارا اثاثہ نہیں بلکہ، تعلیم و تربیت، شعور، سمجھ ، معاشرے سے مطابقت، اور سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ ہی ہمارا اثاثہ ہے کیوں کہ ہم پڑھے لکھے شہری ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ پس ثبوت تو دینا پڑے گا۔
ان کے سائے میں بخت ہوتے ہیں
باپ گھر میں درخت ہوتے ہیں

Browse More Urdu Literature Articles