Tasbee K Danoon Per Batain Parona - Article No. 2188

Tasbee K Danoon Per Batain Parona

تسبیح کے دانوں پر باتیں پرونا - تحریر نمبر 2188

ہمارے معاشرے کا انتہائی شرمناک پہلو ہے کہ وہ لوگوں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں وہ لوگوں کے دکھوں میں اضافہ کرتے ہیں

جمعہ 15 نومبر 2019

صفورا خالد

ہائے بے چاری سمیعہ چلی گئی دنیا چھوڑ گئی بڑی نیک عورت تھی ہائے یہ معصوم سی بچی رہ گئی اس بن ماں کی بچی کی پرورش کیسے ہوگی۔مرد کا کیا ہے دوسری شادی کرلے گا مرنے والی تو چلی گئی مرد نے تو زندگی گزارنی ہے۔ ہائے اس کی بوڑھی ماں بھی تو اسی کے رحم و کرم پر تھی۔ ان آوازوں میں سے ایک آواز ابھری،ارے بہن آخر کو ہوا کیا تھا اک لگی کیسے تسبیح کے دانوں کو تیز تیز گھماتی عورت نے بڑے تجسس سے پوچھا تھا جس کے جواب میں دوسری کلمہ کے دانے پڑھتے ہوئے بتانا شروع کیا کہ خالہ ہونا کیا تھا بیچاری صبح اٹھی ہے ماں کے وضوکے لیے پانی گرم کرنے کے لیے چولہا جلایا تھا تو آگ لگ گئی گیس کہیں پہلے سے کھلی پڑی تھی یہ کہتے ہوئے خواتین نے سمیعہ کی ماں پر نظر ڈالی جو ایک بت کی طرح ساکت بیٹھی تھی اسے بار بار دہرائی جانے والی کہانی سے اسے چبھن ہو رہی تھی جو اس کی تکلیف بڑھا رہی تھی وہ خود کو مجرم سمجھ رہی تھی کہ کہ ہر بار دہرائی جانے والی اس کہانی میں اس کے ذکر پر زور دیا جاتا تھا اور وجہ وہی تھی وہ منہ سے تو کچھ نہیں بول رہی تھی مگر ہاں اس کا دل غم سے نڈھال تھا۔

(جاری ہے)

بڑھاپے کی دہلیز پر جوان بیٹی کی موت اور نہایت دردناک موت کا صدمہ کم تو نہیں تھا کہ ہر آنے والا اس کے زخم ہرے کر دیتا تھا۔بظاہر توخواتین وہ دعا اور مرنے والی کے ایصال ثواب کے لئے دانے پڑھنے آئی تھی مگر درحقیقت وہ ان دانوں پر کلمہ کے بجائے باتیں پڑھ رہی تھیں۔ موت کی وجہ اور اسباب ایک دوسرے کے گوش گزار کرنے کے بعد دوسرا اہم موقف سمیعہ کی آٹھ سالہ بیٹی تھی۔
ایک عورت نے بچی کو بلا کر اپنی گود میں بٹھایا اور اسے پیار کرتے ہوئے کہنے لگی امی یاد آتی ہیں چل اپنی امی کے لئے دعا کر اب وہ کبھی واپس نہیں آئے گی۔اور پھر اس نے باقی بیٹھی عورتوں کو داد طلب نظروں سے دیکھا اور اس بچی سے کچھ اور بیچارگی بھری باتیں کی گئی گی اس آٹھ سالہ بچی کو ان سب باتوں کا شعور کہا تھا پڑھائی کے دانے ایک بار ختم ہوچکے تھے اور اب دوسرا چکر شروع ہوگیا تھا اور باتیں بدستور جاری تھیں۔
ایک بوڑھی ماں جو برابر تسبیح پر کلمے کا ورد جاری رکھے ہوئے تھی کیونکہ وہاں بیٹھی خواتین میں ایک وہی تھی جس کا دکھ بہت بڑا تھا یا پھر یوں کہہ لیں گے اسی کو دکھ تھا باقی سب تو کسی ماہر تجزیہ نگار کی طرح اپنے تجزیہ اور تبصرے پیش کر رہی تھی ایک اور نشتر بوڑھی ماں کے دل میں پیوست ہوا۔جب ایک عورت نے کہا کہ اب اس کی ماں کا کیا ہوگا اسے بھی تو وہی سنبھال رہی تھی اس کا خرچہ بھی تو وہی اٹھا رہی تھی اس کی ماں کا دل چاہ رہا تھا کہ موت اسے بھی اپنی لپیٹ میں لے لے۔
وہ لوگوں کی اس طرح کی باتیں کمزور دل پر کب تک سہہ سکے گی۔*مگر لوگ تو لوگ ہیں وہ سب سمجھتے ہیں مگر کسی کا دکھ نہ کسی کی بے بسی کسی کا درد نہیں سمجھتے۔*

یہ رویہ صرف ایک سمیع کے گھرانے میں نہیں ہوا یہ ہمارے معاشرے کا وہ عام رویہ ہے ہے جو تقریبا ہر مرگ والے گھر میں دیکھنے کو ملتا ہے ہر کسی کے لئے لوگوں کے پاس بہت سی کہانیاں موجود ہوتی ہیں جو وہ ایصال ثواب کے لئے پڑھی جانے والی تسبیح دانوں پر بہت شوق سے پڑھتے ہیں وہ مرنے والے کو ثواب تو نہیں مگر اس کے رشتہ داروں کو غم ضرور پہنچا رہے ہوتے ہیں بظاہر تو وہ دکھ درد میں شریک ہوکر غم بانٹنے جاتے ہیں مگر غموں میں اضافہ کرکے آتے ہیں۔
دلوں کو چھلنی کر دیتے ہیں اور ہرے زخموں کو مزید کھرچ دیتے ہیں ہمارے معاشرے کے لوگ اپنے بجائے دوسروں کی زندگیوں میں اتنی دلچسپی لیتے ہیں کہ اپنی زندگیوں کا مقصد کی فراموش کر دیتے ہیں یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ جب کسی فوتگی والے گھر میں مر جانے والے کے گھر پرسہ دینے کے لیے لوگ جمع ہوتے ہیں تو وہ جمع ہونے کا مقصد بھول جاتے ہیں ہر پڑھے جانے والے دانے پر کوئی بات ہوتی ہے ورد نہیں ہوتا اور وہ یہ دانے مسلسل اتنی تیزی سے پڑھے جانے والے دانوں میں شامل ہو رہے ہوتے ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے ان پڑھا ہوا ڈھیر پڑھے ہوئے ڈھیر کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور پھر اہل محفل کو خیال آتا ہے کہ اب دوبارہ شروع کرنا ہے ماشاءاللہ شکرالحمدللہ اتنے ہزار درود کلمے کا ثواب پہنچا دیا گیا جو کہ حقیقت میں ہزاروں باتیں ہوتی ہیں۔
باتوں کا سب سے اہم موضوع یہ بھی ہوتا ہے کہ کون رویا کون نہیں رویا کون آیا کون نہیں آیا یا کس نے دکھ کا اظہار کیسے کیا کس نے کیا آپ پے پہ نے کس وقت آیا وہ سب ایک میت والے گھر میں یہی دیکھنے آتے ہیں ہمارے کھوکھلے معاشرے کے کھوکھلے لوگوں کی یہ ایک کڑوی حقیقت ہے جس کے ساتھ ہم جی رہے ہیں ہمارے معاشرتی اور مذہبی اقدار تو کہیں کتابوں میں ہی رہ گئے ہیں ہماری زندگیوں کے کسی پہلو میں مذہبی اخلاقی عنصر نظر نہیں آتا۔
ہم نے اپنے مذہب کی تعلیمات کو فراموش کیا ہے یا وہ تعلیمات ہم تک صحیح طریقے سے پہنچائی ہی نہیں گئی یہ ایک سوال ہے۔
اور یہ ابھی کی بات نہیں یہ بالکل بھی آج کی بات نہیں یہ تو بہت پرانے وقتوں سے چلی آ رہی ہے ہمارے معاشرے کا انتہائی شرمناک پہلو ہے کہ وہ لوگوں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں وہ لوگوں کے دکھوں میں اضافہ کرتے ہیں اپنے الفاظ سے سے اپنے انداز۔
۔۔ *خدارا لوگوں کے احساسات کو اپنی سوچ کے ہار نہ پہنائیں ، لوگوں کے دل کے حال کو باتوں کی ترازو میں تولنا چھوڑ دیں۔ لوگوں کے دکھ کا مداوا کریں اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو کم از کم چپ رہیں اور زندہ لوگوں کو دکھ پر مزید دکھ دینے کے بجائے اس مرے ہوئے شخص کے لئے تسبیح کے دانے ثواب کے لئے پڑھیں نہ کہ صرف تسبیح کے دانوں پر باتیں پروتے رہیں*۔۔۔

Browse More Urdu Literature Articles