Tooti Hui Tasveer - Article No. 2465

Tooti Hui Tasveer

ٹوٹی ہوئی تصویر! - تحریر نمبر 2465

وہ آنکھیں موندیں بیڈ کے ساتھ سائیڈ ٹبیل پر رکھے اپنے چشمے کو ہاتھ سے اِدھر اُدھر تلاش کر رہی تھی۔ جس پہ ایک خوبصورت شیشے کا فریم بھی پڑا ہوا تھا

مقدس حبیبہ جمعرات 3 دسمبر 2020

نائٹ بلب کی مدھم سی روشنی پورے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی ، وہ آنکھیں موندیں بیڈ کے ساتھ سائیڈ ٹبیل پر رکھے اپنے چشمے کو ہاتھ سے اِدھر اُدھر تلاش کر رہی تھی۔ جس پہ ایک خوبصورت شیشے کا فریم بھی پڑا ہوا تھا، سائیڈ ٹبیل پہ عینک تلاش کرتے ا یک دم کچھ گرنے کی آواز آئی، وہ بیڈ کے ساتھ رکھی اسٹک سے سہارا لے کر اٹھی اور متلاشی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھنے لگی ، ا یک دم اسے پاوں میں کچھ چبھا، وہ درد سے کراہی ،پاوں پہ کچھ گھیلاپن محسوس ہوا،خود کو سنھبالتے ہوۓ اس نے آنکھوں پہ چشمہ لگایا،کچھ دیر غور سے دیکھنے کے بعد وہ زمین پہ بچوں کی طرح بیٹھ گئی،وہ ٹوٹے ششیے کے فریم میں لگی تصویر پہ خود کا عکس دیکھ رہی تھی ، آنسو اس کی آنکھ سے نکلتے، ٹھوڑی سے ہوتے ہوئے بارش کی بوندوں کی مانند ٹوٹے ہوۓ ششیے کے فریم پہ جا گرتے تھے ، احمر.........یہ احمر کی تصویر تھی،اس نے تصویر کو گلے لگایا اور وقت اسے ماضی میں لے گیا ۔

(جاری ہے)

ماضی کی ایک تصویر جس میں وہ دونوں سمندر کے کنارے نم مٹی پہ دونوں چل رہے تھے، بروان آئز پہ سمندر کی گہرائی کی مانند سیاہ گہرا کاجل ، سیاہ بالوں میں گولڈن اسڑیکنگ ، رٹ شاٹ شرٹ کے نیچے پنٹ اسٹال ٹروازر ، گلے میں سفید ڈوپٹا جس کے دونوں پلو ہوا سے جھول رہے تھے ، گھنی پلکوں کے اوپر آئی لائنر بڑی نفاست سے لگا ہوا ، گلاب کی پتیوں کی مانند سرخ لپ اسٹک سے بھرے ہوۓ ہونٹ ، اور جب وہ مسکراتی تو کانوں میں ڈالے ہوۓ ائررَنگز جھومنے لگتے ۔
احمر کا ہاتھ تھامے وہ چلتی جا رہی تھی، سمندر کی لہریں آتیں اس کے ملائم پاوں کو چھو کر گزر جاتیں۔ سورج ڈوب رہا تھا ، سمندر محبت کے فسانے سنا رہا تھا ، ہر چیز جیسے جامد تھی، ایک خوبصورت سی اونٹنی کی نکیل پکڑے ایک صاحب گزرے، احمر کو اونٹنی کی سواری کا بے حد شوق تھا لیکن کنول کبھی نہیں بیٹھی تھی، احمر نے انٹنی کی سواری کا خواہش ظاہر کی مگر وہ زیر لب مسکرائی "آپ جانتے ہیں نا مجھے اونچائی سے ڈر لگتا ہے"وہ خفگی بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگا کہ کنول نے اس کی خفگی کے ڈر سے فورااس کا ہاتھ پکڑ اورسوار ہوگئ، ٹوٹنے والی یہ تصویر اسی وقت لی گئ تھی۔

باہر دروازہ مسلسل بج رہا تھا اوروہ ابھی تک احمر کی یادوں میں کھوئی ہوئی تھی اور اسے اپنے ساتھ محسوس کر سکتی تھی، آخر وہ اس کا ہمسفر تھا اور آج اس کی شادی کی 25 سالگرہ تھی، احمر کو دنیا چھوڑے کئی برس ہو چکے تھے لیکن اس کی یاد ابھی بھی کنول کے دل میں زندہ تھی، دروازے پہ پھر دستک ہوئی اس نے آنکھیں کھو لیں ،تصویر تکیے کہ نیچے رکھی اور "کون " کی آوازلگائی، پروین اندر داخل ہوئی ،باجی کیا ہوا آپ کے پاوں سے خون کیوں بہہ رہا ہے ، وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اس کے پاوں کو دیکھ رہی تھی جو خون سے بھر چکا تھا اور خون کی بوندیں زمین پہ جا گرتی تھیں ، باجی نے ناشتے کی ٹرۓ ٹبیل پہ رکھی اور واپس چلی گئی ۔
کنول پاوں پہ پٹی باندھنے لگی لیکن وہ ٹوٹی ہوئی تصویر پکڑے ناجانے کب تک دیکھتی رہی کہ یہ اس کی زندگی کی کل متاع تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles