Udass Mosmoon Hijratoon Or Ishq K Benawa Musafir - Nasir Kazmi - Article No. 2471

Udass Mosmoon Hijratoon Or Ishq K Benawa Musafir - Nasir Kazmi

اُداس موسموں ،ہجرتوں اور عشق کا بے نوا مسافر ---ناصر کاظمی - تحریر نمبر 2471

ناصر کاظمی نے غزل کے علاوہ نظم بھی کہی ،نثر میں بھی طبع آزمائی کی،ڈرامے لکھے،فیچر تحریر کیے اور تراجم بھی کیے لیکن ناصر کی اصل پہچان ان کی غزل ہی ٹھہری

Luqman Asad لقمان اسد بدھ 9 دسمبر 2020

معروف اور ممتاز شاعر ناصر کاظمی ہندوستان کے شہر انبالہ میں 8دسمبر 1925ءء کو پیدا ہوئے۔ناصر کاظمی کا اصل نام سید ناصر رضا کاظمی تھا لیکن انہیں ناصر کاظمی ہی کے نام سے شہرت حاصل ہے۔ناصر کاظمی نے ابتدائی تعلیم مسلم ہائی اسکول انبالہ سے حاصل کی۔ ناصر کاظمی کے والد محمد سلطان بِن شریف الحسن فوج میں ملازمت کرتے تھے اور ان کے والد کو جب اپنی ملازمت کے سلسلہ میں پشاور آنا پڑا تو ناصر نے نیشنل ہائی اسکول پشاور میں داخلہ لے لیا۔
میٹرک کے بعد تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کیلئے ناصر کاظمی نے لاہور کا انتخاب کیااور اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیالاہور شہر سے ناصر کاظمی کو عجیب رغبت ہوئی اور وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مستقل طور پر لاہور میں ہی رہنے لگے اور لاہور کو ہی اپنا مسکن بنا لیالاہور کے حوالے سے ان کا یہ شہر زبان زدِ عام ہے :
شہرِ لاہور تیری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو
عملی زندگی کی ابتداء میں حصولِ روزگار کیلئے ناصر کاظمی نے فوج میں بھی شمولیت اختیار کی لیکن جلد نوکری سے ان کا دل اُکتا گیا اور انہوں نے یہ ملازمت چھوڑ دی۔

(جاری ہے)

1950 میں رسالہ "اوراقِ نو" کی ادارت سنبھالی جبکہ ا س کے کچھ عرصہ بعدوہ معروف رسالے " ہمایوں " کے مدیرِ اعلیٰ بن گئے اور پانچ سال تک مسلسل یہ ذمہ داری نبھاتے رہے 1957ء ء میں انہوں نے اپنا ایک ادبی رسالہ "خیال" کے نام سے بھی جاری کیا لیکن وسائل کی کمی کے باعث وہ اسے تسلسل کے ساتھ جاری نہ رکھ سکے انہوں نے کچھ عرصہ محکمہ بہبودِ آبادی میں بھی ملازمت کی یہاں سے پھر انہوں نے محکمہ ویلج ایڈ میں ملازمت اختیار کر لی اور محکمہ کے رسالہ " ہم لوگ"کی ادارت کی ذمہ داری بھی نبھائی یہ سلسلہ 1964ءء تک جاری رہا۔
یہ وہ وقت تھا جب ناصر کاظمی پاکستان کے نامور اور ممتاز شعراء میں شمار ہوتے تھے اور اسی زمانے میں ہی وہ ریڈیو پاکستان سے منسلک ہو گئے اور ان کی یہ وابستگی پھر ریڈیو پاکستان سے باقی ماندہ عمر تک قائم رہی ناصر کاظمی نے جب شاعری کا آغاز کیا تو اختر شیرانی کی قربت انہیں حاصل تھی لیکن اس کے بعد انہوں نے شاعری کے فن و رموز سے آگاہی حاصل کرنے کیلئے حفیظ ہوشیارپوری کی باقاعدہ شاگردی حاصل کر لی۔
کہا جاتا ہے کہ ان کے غزل کہنے کی ابتداء حفیظ ہوشیارپوری کی ہی شاگردی میں ہوئی ناصر کاظمی نے انتظار حسین کو ایک انٹر ویو دیا اور ناصر کاظمی نے اپنی زندگی کے اِس آخری انٹرویو میں شاعری کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ"شاعری مردہ لمحوں کو زندہ کر دیتی ہے ،وقت جو مرگیا اسے کوئی زندہ نہیں کر سکتا لیکن شاعر اسے زندہ کر دیتا ہے،شاعری محض مصرعے لکھنے کا نام نہیں شاعری تو ایک نقطہ نظر ہے زندگی کو دیکھنے کا ،چیزوں کو دیکھنے کا اور ان کو ایک موزوں طریقے سے بیان کرنے کا نام شاعری ہے"۔
انہوں نے کہا میری شاعری میں رات کو بہت اہمیت حاصل ہے،رات تخلیق کی علامت ہے ،دنیا کی ہر چیز رات میں ہی تخلیق ہوتی ہے۔پھولوں میں رس پڑتا ہے رات کو ،سمندر میں تموج ہوتا ہے رات کو،خوشبوئیں رات کو جنم لیتی ہیں حتیٰ کہ فجر تک فرشتے رات کو اُترتے ہیں ۔
ناصر کاظمی نے غزل کے علاوہ نظم بھی کہی ،نثر میں بھی طبع آزمائی کی،ڈرامے لکھے،فیچر تحریر کیے اور تراجم بھی کیے لیکن ناصر کی اصل پہچان ان کی غزل ہی ٹھہری۔
بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ناصر کی کہی ہوئی غزل جس قدر مقبولِ عام ہوئیں اس کی مثال بہت کم ملتی ہے ۔ناصر کاظمی کی غزلوں کا مجموعہ"برگِ نَے" کے عنوان سے پہل بار 1952ءء میں مکتبہ کارواں شائع کیاپھر اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے1972ءء میں " دیوانِ ناصر" کے نام سے دوسرا شعری مجموعہ شائع ہوا۔"پہلی بارش" 1975 ءء میں جبکہ "نشاط خواب" 1977ءء میں منظرِ عام پر آیا۔
ناصر کا منظوم ڈرامہ "سر کی چھایہ" 1981ءء میں منظرِ عامِ پر آیا تھااسی طرح ناصر کی نثری تحریروں پر مبنی کتاب "خشک چشمے کے کنارے" 1982ءء میں شائع ہوئی تھی۔
ناصر کاظمی نے چند کلاسیکی شعراء کے کلام کا انتخاب بھی کیا، جن میں " انتخابِ میر" 1989ءء ،"انتخابِ نظیر" 1990ءء ،"انتخابِ ولی" 1991ءء اور " انتخابِ انشاء" 1991 ءء میں اشاعت پذیر ہوئے۔
یہ مجموعے ناصرنے ہی مرتب کیے تھے جوان کی وفات کے بعد چھپے۔ فراق گورکھپوری کی غزلوں کے انتخاب کے علاہ " سر کی چھایہ " چودہ سو مصرعوں کی طویل نظم ادبی رسالے "سویرا" میں شائع ہوئی جبکہ ناصر کی ڈائری بھی کتابی شکل میں شائع ہو چکی ہے۔
ناصر کاظمی کی زندگی سے متعلق رئیس احمد صمدانی اپنے ایک مضمون میں رقمطراز ہیں "ناصر مجلسی آدمی تھے ،دوستوں کے درمیان رہنا ،قصہ سنانا اور شعر سنانا اس کا محبوب مشغلہ تھا ۔
کیفے ٹیریا ،کافی ہاؤس اس کے ٹھکانہ ہوا کرتے تھے ۔اپنی شاعری کے ابتدائی دنوں میں ناصر مشاعروں میں اپنا کلام ترنم سے پڑھا کرتے تھے۔کلام اور مضمون کے ساتھ ساتھ ان کا انداز سننے والوں کو مست کر دیتا تھا۔ ناصر کا انداز بھی اچھا تھا ۔مجھے ناصر کو مشاعروں میں سننے کا اتفاق ہوا۔ ناصر جب ہم سے جدا ہوئے تو میں جامعہ کراچی سے ماسٹر کر چکا تھا ۔
جامعہ میں رہتے ہوئے ناصر کو قریب سے دیکھنے اور سننے کا اتفاق ہوا۔ناصر کا کہنا تھا کہ" ایک روز اسے یہ احساس ہوا کہ اسے ترنم سے اپنا کلام سنانے کے سبب داد ملتی ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے مشاعرے کے بعد میں نے یہ عہد کیا کہ اب مشاعرے میں ترنم سے نہیں پڑھوں گا"۔ ایسا ہی ہوا اس کے بعد ناصر نے ترنم سے غزل نہیں پڑھی ۔وہ تحت اللفظ سے بھی اسی پسندیدگی اور چاہت سے سنا جانے لگا جیسے لوگ اسے ترنم کیساتھ سُنا کرتے تھے ۔

یہ بات ڈاکٹر توصیف تبسم نے نیشنل بُک فاؤنڈیشن کے شائع کردہ ناصر کے پاکٹ سائز انتخاب بعنوان " دل تو میرا اداس ہے ناصر" میں اپنے ابتدائیہ میں تحریر کی ہے۔
ناصر کاظمی کو ہم سے جدا ہوئے آج تقریباً نصف صدی کا عرصہ بیت جانے کو ہے لیکن اس کا کلام آج بھی ہمیں اس کی موجودگی کا احساس دِلاتا ہے ۔ناصر کاظی نے کہا تھا
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
ناصر کاظمی کو مختصر بحر میں غزل کہنے پر ملکہ حاصل تھاان کی یہ مشہورِ زمانہ غزل پاکستان کے مقبول قوال اور لیجنڈ نصرت فتح علی خان نے گائی :
غم ہے یا خوشی ہے تو
میری زندگی ہے تو
میں تو وہ نہیں رہا
ہاں مگر وہی ہے تُو
آفتوں کے دور میں
چین کی گھڑی ہے تو
میری ساری عمر میں
ایک ہی کمی ہے تو
میری رات کا چراغ
میری نیند بھی ہے تو
میں خزاں کی شام ہوں
رُت بہار کی ہیں تُو
دُوستوں کے درمیاں
وجہ دوستی ہے تو
ناصر اس دیار میں
کتنا اجنبی ہے تُو
ناصر کاظمی کا شمار ان شعراء میں ہوتا ہے کہ جن کا کلام گانے سے وہ فنکار یا گلوکار بھی شہرت کے بامِ عروج کو پہنچ جاتے ہیں جن کی شہرت پہلے کوئی خاص نہیں تھی۔
معروف گلوکار خلیل حیدر کی کہانی یہی ہے۔ جب 1990ءء میں انہوں نے ناصر کاظمی کی غزل گنگنائی تو یہ ان کی پہچان بن گئی۔
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کیلئے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کیلئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نمونہِ کلام:
ناصر آشوبِ زمانہ سے غافل نہ رہو
کچھ ہوتا ہے جب خلقِ خدا کچھ کہتی ہے
۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی
اے دوست ہم نے ترکِ محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
ناصر کاظمی کا ایک اک شعر پڑھنے اور سننے کے لائق ہے وہ ایک ایسا قادر الکلام شاعر تھا کہ جس کے اشعار میں ایسی فکری پختگی اور روحانی وجد ہے کہ جسے پڑھتے اور سنتے ہی سننے اور پڑھنے والا سر دھنتا رہ جاتا ہے۔
سقوطِ ڈھاکہ پر اپنے غم اور دُکھ کو ناصر نے اپنے شعری اظہاریہ میں یوں بیان کیا ہے:
وہ ساحلوں پر گانے والے کیا ہوئے
وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے
عمارتیں تو جل کر راکھ ہوئیں
عمارتیں بنانے والے کیا ہوئے
یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے
ناصر کاظمی کے ان خوبصورت اشعار کے ساتھ اختتام:
گئے دنوں کا سراغ لے کرکدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ
وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر
تیری گلی تک تو ہم نے دیکھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ

Browse More Urdu Literature Articles