Umeed Ka Sahara - Article No. 1815

Umeed Ka Sahara

اُمید کا سہارا - تحریر نمبر 1815

اولاد نرینہ کی خواہش میں وہ بیٹیوں کو اہمیت ہی نہ دیتے میں شادی کرلوں تو بوڑھا باپ موت آنے سے پہلے ہی مرجائے گا

بدھ 28 نومبر 2018

بلقیس ریاض
گذشتہ دنوں میں نے فیس بک پر ایک قصہ پڑھا‘پڑھ کر میں کافی دیر تک سوچ میں گم رہی اور دل ہمارے معاشرتی رویوں کے حوالے سے کافی افسردہ رہا۔ایک ٹیچر سے طالبات نے پوچھا کہ آپ کی شادی ابھی تک کیوں نہیں ہوئی تو اس نے جواب دیا۔پانچ بہنیں مجھ سے بڑی تھیں ،جب میری پیدائش ہوئی تو میرے والد نے رات کے اندھیرے میں مجھے سڑک کے کنارے پھینک دیا تھا ‘صرف اس لیے کہ انھیں نرینہ اولاد کی خواہش تھی ۔


لیکن سات دن تک مجھے کسی نے نہیں وہاں سے اٹھایا تو وہ مجھے واپس گھر لے آئے ۔پھر کچھ عرصہ بعد ہمارے گھر دوبارہ خوشی آئی ‘میری ماں نے اس مرتبہ ایک بیٹے کو جنم دیا لیکن اس کے کچھ روز بعد ہی میری سب سے بڑی بہن فوت ہو گئی۔پھر جب دوسرا بیٹا پیدا ہوا تو دوسری فوت ہو گئی ۔

(جاری ہے)

اس طرح پانچ بیٹے پیدا ہوئے اور پانچ بہنیں فوت ہو گئیں ۔میں چھوٹی تھی لہٰذا میں قدرت کی طرف سے زندہ رہی ۔

پانچ بیٹے زندہ سلامت تھے ‘بڑے ہوئے تو علیحدہ گھروں میں بس گئے۔
والد صاحب کا ہمیشہ جھکاؤ بیٹوں کی طرف رہا۔مجھے انھوں نے دل سے کبھی قبول نہیں کیا تھا۔اسی لیے میں اُن کے سامنے بھی کم ہی جاتی تھی ۔بھائیوں کو البتہ وہ اپنے قریب رکھتے اور ہر خوشی غم میں اُنھیں شریک کرتے ۔لیکن جب بھائی اپنے گھروں میں علیحدہ جاکر بس گئے تو آہستہ آہستہ انھوں نے گھر اور والدین کی ذمہ داریوں سے خود کو الگ کرنا شروع کر دیا۔
پھر وہ وقت بھی آیا کہ بھائی ہم سے بالکل لاتعلق ہو گئے ۔
پھر میری ماں کا انتقال ہو گیا تھا ۔اب گھر میں صرف میں ہوں اور میرا باپ ۔میرے بھائی مہینے میں ایک مرتبہ آتے ہیں باپ کا حال چال پوچھ کر چلتے بنتے ہیں ۔آہستہ آہستہ میرے والد کی صحت بگڑ تی گئی اور وہ معذ وری کی حالت میں بستر مرگ پر ہیں ۔مجھ سے ان کی حالت نہیں دیکھی جاتی ۔صبح کے وقت میں روزی کمانے کیلئے یہاں ٹیچنگ کرتی ہوں اور شام سے لیکر رات گئے تک ان کی خدمت کرتی ہوں۔
اب میرے والد صاحب بہت نادم ہیں بار بار مجھ سے معافی مانگتے ہیں اور کہتے ہیں ”میں نے تمہیں باہر پھینک دیا تھا اور اللہ نے تم سے ہی میری خدمت کرائی ہے ۔“وہ آبدیدہ ہو کر بولی۔
”اگر میں شادی کرلوں تو بوڑھا باپ موت آنے سے پہلے ہی مرجائے گا ۔جن بیٹوں کی خاطر ہر وقت میرا باپ جھگڑا کرتا تھا وہی بیٹے باپ کی خدمت کرنے کی بجائے اپنی اپنی زندگیوں میں مست ہیں ۔

ساری طالبات ٹیچر کی کہانی سُن کر آبدیدہ ہو گئیں اور انھیں ٹیچر سے ہمدردی ہو گئی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کچھ جاہل شخص یہ نہیں سوچتے کہ اللہ کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے وہ جسے چاہے بیٹے دے اور جسے چاہے بیٹی ۔اسے غیب کا علم ہوتا ہے ۔وہ لوگوں کی بھلائی کیلئے انھیں اولاد عطا کرتا ہے لیکن ہمارے بندوں کو اللہ کے علم غیب کا پتہ نہیں ہوتا ‘وہ اللہ کی حکمت نہیں سمجھتے ۔
شور مچاتے ہیں واویلا کرتے ہیں اور اللہ کی ناراضگی کا باعث بنتے ہیں ۔اگر اس ٹیچر کو کوئی شخص اٹھا کر لے جاتا یا کسی ادارے میں پھینک دیتا تو اس شخص کی تیمار داری کون کرتا۔
اس لڑکی کے دل میں رحم ہے اور وہ شادی بھی نہیں کرنا چاہتی صرف اس لیے کہ باپ کی خدمت کر سکے ۔اور پانچ بیٹے جن کو بڑے شوق سے ان کی پرورش کی وہی بات سے لاتعلق ہو گئے تھے ۔
اللہ اپنے ہونے کا ثبوت دیتا ہے ۔اس لئے ہر کام میں کوئی مصلحت ضرور ہوتی ہے ۔جو انسانوں کی سمجھ سے باہر ہوتی ہے ۔اسے اللہ ہی سمجھ سکتا ہے ۔
اب دیہی علاقے کو ہی کچھ دیکھ لیں ۔ابھی بھی اکثریت ایسے مردوں کی ہوتی ہے کہ وہ بیٹے کی خواہش کرتے ہیں ۔اگر لڑکیاں ہوتی ہیں تو دوسری شادی کرلیتے ہیں ۔دوسری بیوی سے بھی لڑکیاں پیدا ہوں تو تیسری شادی رچا لیتے ہیں ۔
یہ نہیں سوچتے کہ اولاد مرد کی قسمت سے ہوتی ہے اور روپیہ پیسہ عورت کی قسمت ہے ۔پھر نہ جانے جاہلیت کا ثبوت کیوں دیتے ہیں ۔لڑکیوں کی لائین لگا دیتے ہیں اور بیٹے کی خواہش کیلئے اپنے بال سفید کر لیتے ہیں ۔کچھ لوگ پڑھ لکھ کر بھی جاہل ہوتے ہیں ۔اس طرح کے مردوں کیلئے دینی تعلیم اور اسلام سے آگاہی ہونی ضروری ہے ۔اسلامی تعلیم سے ایمان مضبوط ہوتا ہے اور اللہ پر بھرپور بھروسہ کرنے والوں کو اللہ ضرورنواز دیتا ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles