Umeed Ki Kiran - Article No. 2303

Umeed Ki Kiran

امید کی کرن - تحریر نمبر 2303

ایف ایس سی کا زمانہ تھا... انتہائی دباؤ کی فضا... نمبروں کا پریشر، ڈاکٹر جو بننا تھا تب پتہ ہی نہیں تھا کہ زندگی میں میڈیکل اور انجینئر کے علاوہ بھی کچھ ہوتا ہے... فارغ وقت ہونا تو پی ٹی وی کا ڈرامہ دیکھ لینا

Asma tariq اسماء طارق پیر 6 اپریل 2020

ایف ایس سی کا زمانہ تھا... انتہائی دباؤ کی فضا... نمبروں کا پریشر، ڈاکٹر جو بننا تھا تب پتہ ہی نہیں تھا کہ زندگی میں میڈیکل اور انجینئر کے علاوہ بھی کچھ ہوتا ہے... فارغ وقت ہونا تو پی ٹی وی کا ڈرامہ دیکھ لینا یا کوئی ناول پڑھ لینا... مگر واصف علی واصف سے بھی تھوڑا اٹریکشن تھا وہ بھی اس طرح کہ نویں میں دوست اپنے بابا کی لائبریری سے ان کی ایک کتاب لائ..
تھوڑی پڑھی تو ایسے لگا جیسے یہ میری بات کر رہے ہیں.. بس پاس عید کا ہزار روپیہ تھا .. اگلے دن دکان دار کو بولا اس میں واصف علی واصف کی جو جو کتاب آتی ہے دیے دیں.... انہوں نے دو قطرہ قطرہ قلزم اور دل دریا سمندر تو دے دیں مگر دو بار پوچھا، خود پڑھوں گی...لینے سے پہلے سوچ لو واپس نہیں ہو نگی... مگر میرے لیے تو وہ دنیا ہی الگ تھی... بلکل میری سوچ جیسی....
خیر کیا بات کررہے تھے ہاں انٹری ٹیسٹ ہوا........ناکام رہی.... تب کوئی بھی دیکھتا تھا تو یوں لگتا تھا جیسے کہہ رہا ہو یہ تو ہے ہی فیل... کچھ نہیں کر سکتی زندگی میں... ڈپریشن کےلیے یہ کافی تھا..... ہر کسی سے الجھنا اب معمول تھا... اماں ابا تو دشمن لگتے تھے کہ یہی ہیں جن کی وجہ سے یہ سب ہوا ہے.... پھر ان کا دوبارہ رپیٹ کرنے پر اصرار... تب لگتا تھا زندگی میں کچھ نہیں اب ...
قاسم علی شاہ سر کی ایک ویڈیو مالٹوں والی پہلے دیکھی تھی.. نیٹ پیکج تھا یوٹیوب کھولی تو آپ کا کوئی انٹرویو چل رہا تھا.. اس میں آپ نے واصف علی واصف سے انسیت کا ذکر کیا تو مجھے بہت خوشی ہوئی تو بس پھر میں نے فالو کرنا شروع کردیا......میں نے سارے پرانے لیکچر سنے اور ان میں سے اہم پوائنٹ لکھا کرتی تھی. ابھی بھی وہ نوٹس پاس .. اس سے یہ فائدہ ہوا کہ میرا سوچنے کا نظریہ بدلا ....
اب میں پریشان ہونے پر رونے اور خود کو کمرے میں بند کرنے کی بجائے، کوئی راستہ ڈھونڈنے لگی... کچھ نیا سیکھنے لگی.. .. خود کو ایسی چیزوں میں مصروف رکھنے لگی جس سے کوئی مثبت فائدہ بھی ملے... قاسم علی شاہ سر کی وڈیوز وہ پہلا سٹارٹر تھا جو مجھے ملا اور میں کہتی ہوں کہ اللہ نے معجزاتی طور پر اس وقت ملوایا.. جب مجھے ان الفاظ کی ضرورت تھی... اور انہوں نے میری بنیاد بنائی...
میرے سوچنے کے زاویے کو بدلا اور اسے وسیع کیا... اس سے میری معلومات میں اضافہ ہوا.. مجھے تو دنیا کا کچھ پتہ ہی نہیں تھا... نئ نئ ٹرم اور ٹرمینالوجی سے متعارف ہوئی .... مجھے ایسی ایسی ہیرا کتابوں کے متعلق پتا چلا پھر pdf فارم پڑھنا اور سرچ کرنا سیکھا.... ٹونی رابن اور رابن شرما کو کون جانتا تھا پہلے... Hero, The Secrets اور جان برجز کی EtiquettesSeries تک رسائی کہاں تھی اور پھر کہاں سے کہاں کا سفر طے کیا....اب ماسٹر بھی مکمل ہونے والا..
ٹکریں مار کر ایک کتاب آس بھی لکھ لی، کچھ اور چھوٹی موٹی کامیابیاں بھی حاصل کر لیں جو کبھی خواب تھیں ... مگر ایسے میں بنیاد کو کون بھول سکتا....
سیانے کہتے ہیں نہ کہ برتن میں کچھ ہو گا تو کچھ دِکھے گا... اس جستجو کے پیدا کرنے میں سر کا بڑا ہاتھ ہے..... اور میں نہ صرف ڈپریشن سے نکلی بلکے میں نے زندگی میں نئ نئ سرگرمیوں کا آغاز کر دیا اور سیکھنے لگ گئی اور اس کا نتیجہ بھی دکھنے لگا...
کلاس میں خاموش بیٹھنے والی اب بولنے لگی.... خود مایوسی کی بات کرنے والی اب دوسروں کو امید دینے لگی.... پھر جب پریشانی میں سوچ آتی کہ آگے کیا ہو گا تو پھر سوچتی آج تک سب کون دیکھتا آیا ہے.. اللہ نہ تو پھر اسے کیا مشکل ہے اگے سنبھالنا... آپ کا کام ہے کوشش کرنا اور اسے جاری رکھنا... نتیجے کی پروا وہ خود کر لے گا..... اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قاسم علی شاہ سر نے بہت سوں کو امید کی روشنی تھمائی ہے اور اگے بڑھنے کا حوصلہ دیا ہے....اس سے بڑھ کر کوئی کسی کےلیے کیا کر سکتا ہے.
اپنی چاردیواری میں، میں بہت دکھی تھا یعنی کہ جیسے ساری دنیا کے پہاڑ مجھ پر ہی گرے ہوں ۔

(جاری ہے)

بس کہ بغاوت پر اتر آیا ۔ مگر جو چار دیواری سے نکل کر مخلوق کا حال پوچھا تو میرا دکھ تو کہیں ہوا ہو گیا ۔۔۔
ہماری سوچ ہے کہ دنیا کیسے کیسے حالات میں جی رہی ہے اور پھر بھی شکر ادا کرتی ہے ۔
جب حالات کی تلخی زیادہ تنگ کرے تو باہر نکلو، لوگوں سے بات چیت کرو ان کا حال پوچھو کسی ہسپتال کا دورہ کرو۔۔سب سمجھ جاؤ گے ۔ خودبخود شکر سیکھ جائو گے ۔

Browse More Urdu Literature Articles