Urdu Zuban Par Maghribi Asrat - Article No. 1862

Urdu Zuban Par Maghribi Asrat

اردو زبان پر مغربی اثرات - تحریر نمبر 1862

اردو زبان مغربی تہذیب و تمدن،زبان و ادب اور ثقافتی رنگ ڈھنگ کے ساتھ ساتھ مغربی ذخیرہ الفاظ سے بھی محفوظ نہ ر ہ سکی

Murad Ali Shahid مراد علی شاہد منگل 8 جنوری 2019

”اردو “لفظ زبانِ ترکی سے مستعار ہے۔جس کے معنی لشکر کے ہیں،تاریخ زبانِ اردو کے محققین کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ زبان لشکر میں موجود مختلف النوع زبانوں کے اختلاط کی پیداوار ہے اس لئے اردوز بان میں کئی زبانوں کی آمیزش ہے۔اردو بر صغیر پاک و ہند میں بولی جانے والی سب سے بڑی زبان ہے جبکہ کرہ ارض پر بولی جانے والی تیسری بڑی زبان کا درجہ رکھتی ہے۔
دیگر تہذیبوں،ادبی ذخائراور ثقافتی اقدار سے یہاں اردو زبان وادب کا دامن مالا مال ہے وہاں اردو زبان مغربی تہذیب و تمدن،زبان و ادب اور ثقافتی رنگ ڈھنگ کے ساتھ ساتھ مغربی ذخیرہ الفاظ سے بھی محفوظ نہ ر ہ سکی۔اگرچہ یہ سب اہل یورپ کی اپنی ضرورت تھی کہ جس کے تحت انگریزوں نے برصغیر میں خود فورٹ ولیم کالج کی بنیاد رکھی،تاکہ ترجمہ نگاری اور سلیس و سادہ نثر نگاری کا عمل ممکن ہو سکے ،اور اردو بولنے والوں کے خیالات سے انگریز حکمرانوں کو جاننے میں مدد مل سکے۔

(جاری ہے)

دوسرا اہم کام لغت اور قواعد کو مرتب کرنے کا تھا جواگرچہ اہل یورپ کی اپنی ضرورت تھی تاہم اردو زبان کا اس کو فائدہ یہ ہوا کہ وہ زبان جسے صرف ایک مخصوص علاقے کی زبان خیال کیاجاتاتھاانگریزوں کی وجہ سے جغرافیائی حدود سے نکل کر پوری دنیا میں جانی اور پہچانی جانے لگی۔یعنی پہلے انگلینڈ پھر یورپ اور بعد ازاں دیگر ممالک میں بھی بولی اور سمجھی جانے لگی۔
اس کے علاوہ ایک سب سے بڑی وجہ اردو زبان پر مغربی اثرات کی یہ بھی تھی کہ عیسائی مشنریوں کو عیسائیت کا پرچار کرنے کے لئے اسی زبان کا سہارا لینا تھا جو مقامی لوگ بولتے اور سمجھتے تھے،اسلئے عیسائی مشنریوں نے اردو کو سیکھا اور پھر اس زبان میں اپنے موقف کو مقامی لوگوں کے سامنے رکھا۔ ویسے تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ سب سے پہلے یہاں اہل پرتگال آئے،پرتگال کا ایک سیاح واسکوڈے گاما ہندوستان کے مغربی ساحل کالی کٹ میں لنگر انداز ہوا،اور اسکے بعد پرتگالی تاجروں نے وہاں ڈیرے ڈالنا شروع کر دیئے۔
پرتگالیوں کے مقامی لوگوں سے میل جول بڑھنے سے بہت سے پرتگالی الفاظ مقامی زبان میں مختلط ہونا شروع ہو گئے،بالکل ایسے ہی جیسے 712 ء میں جب محمد بن قاسم کے سندھ دیبل کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے اور مقامی لوگوں سے میل ملاپ سے عربی الفاظ مقامی زبان میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔جس کا ایک ثبوت کہ آج بھی سندھی زبان میں بہت سے عربی زبان کے الفاظ کا ذخیرہ موجود ہے۔
ویسے ہی پرتگالی زبان کے بہت سے الفاظ آج تک اردو میں موجود ہیں اور مستعمل ہیں،جیسے کہ صابن،تولیہ،الماری،بالٹی وغیرہ۔پرتگالیوں کے بعد ولندیزی(اہل ہالینڈ)،ان کے بعد فرانسیسی اور پھر انگریزوں نے اس سرزمین پر قدم رکھا۔انگریز تقریبا پرتگالیوں سے ایک صدی بعد ہندوستان وارد ہوئے یعنی پرتگالی 1498 میں جبکہ انگریز1608 میں اس وقت ہندوستان کی زمین پر قدم رکھتے ہیں جب پہلے انگریز کپتان ہاکنسن ،ہندوستان کی بندرگاہ ”سورت“میں آیا اور اس وقت کے مغل حکمران شہنشاہ جہانگیرکے دربار میں حاضر ہو کر تجارتی کوٹھی قائم کرنے کی اجازت طلب کی جسے بادشاہ نے انکار کر دیا،1615 میں سر ٹامس روشاہ نے بطور سفیرِانگلستان جہانگیر بادشاہ سے باقاعدہ تجارتی کوٹھی کے لئے اجازت لے لی۔
اس طرح انگریزی تہذیب و تمدن کا ہماری تہذیب اور زبان پر اثرات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔1661 دراصل وہ سال ہے جب انگریزوں کی حکومت کے قدم سر زمین ہندوستان پہ اور بھی مضبوط ہو گئے جب چارلس دوم کی شادی پرتگال کی شہزادی سے سر انجام پائی اور اس کے جہیز میں بمبئی انگلستان کو مل گیا۔چارلس دوم نے 1668 میں بمبئی کمپنی کو دے دیا اور یہیں سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کا آغاز ہوتا ہے۔
کہ جب ہندوستان پر انگریزوں کے قدم مضبوط سے مضبوط ہونا شروع ہو گئے اور تجارت سے سیاست تک ان کا عمل دخل روز افزوں بڑھنا شروع ہوگیاتو دیگر اقوام پرتگالی۔ولندیزی اور فرانسیسیوں نے اسی میں عافیت جانی کہ یہاں سے راہ فرار اختیار کیا جائے،اس طرح وہ خود ہی اپنے اپنے ممالک سدھار گئے۔آہستہ آہستہ مقامی حکومت کمزور سے کمزور تر جبکہ انگریز مضبوط سے مضبوط تر ہوتے گئے۔
اگر یورپ کے اردو زبان پر احسانات کی بات کی جائے تو یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری خیال کرتا ہوں کہ اردو زبان کے پہلے قواعد و لغت انہوں نے ہی مرتب کی۔یہ بات ہے 1855 کی جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے ایچ ایچ ولسن(ہوریس ہیمین ولسن)نے ایک ایسا کام سر انجام دیا جو ہمارے ثقافتی ورثہ کا امین بنا،انہوں نے دراصل مغلیہ دور میں موجود ذخیرہ الفاظ و اصلاحات کو ایک لغت کی صورت میں تحریر کیا جو انگریز سرکار کو روز مرہ معاملات،عدالتی ،قانونی اور انتظامی امور کو سر انجام دینے کے لئے استعمال کرنا پڑتے تھے۔
اس لغت کا نام ایچ ایچ ولسن نے A Glossory Of Judicial and Revnue terms رکھا۔اس لغت میں اردو،عربی،فارسی،سنسکرت،سندھی،پنجابی،پشتو،مرہٹی،گجراتی و دیگر مقامی بولی جانیوالی زبانوں کے الفاظ کا ذخیرہ موجود تھا جس کا انگریزی میں مفہوم بیان کیا گیا تھا۔قواعد و لغت مرتب کرنے کے علاوہ چند یورپی ماہر لسانیات نے بھی کچھ حصہ اردو زبان کے فروغ کے لئے ضرور ڈالا ہے ،ان میں یورپ کے ڈیوڈمل کا مختصر مجموعہ”منتخبیات“کیٹلر کی چند صفحات پر مشتمل ہندوستانی اور فارسی لغت،جان فرٹز کی کتاب جس میں مختلف زبانوں کی سو سے زائد ابجدیں درج ہیں۔
دو تین صفحات ہندوستانی ابجد اور فارسی،عربی حروف کے استعمال کے متعلق بھی ہیں،علاوہ ازیں اٹلی کے عیسائی پادری کیسیا نو بیلی گائی کا حروف تہجی پر ایک رسالہ”الفا بیٹم برہما نکم“ بھی ا سی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔اسی طرح جان گلکرسٹ کی ”مشرقی لسانیات“بھی اردو کو جامع زبان کا درجہ دینے میں ممد ومعاون ثابت ہوئی۔پرتگالی پروفیسر آرتھونی کی کتاب”ایشیائی زبانوں میں پرتگالی الفاظ“کا تذکرہ نہ کرنازیادتی ہوگی۔
کہ جس کتاب میں پروفیسر آرتھونی نے ہندوستانی زبانوں پر پرتگیزی زبان کے اثرات کو بیان کیا ہے۔ انگریزوں اور ان کی زبان نے اردو پر کیا اثر ڈالا ہے اس بارے میں حامد حسن قادری کا ایک بیان ہی کافی ہے کہ جس میں وہ لکھتے ہیں کہ”انگریزی زبان کا اردو پر بے حد اثر ہوا،صدہا انگریزی لفظ اردو میں شامل ہوگئے۔جن میں سے بعض کے تلفظ ہندوستانی لب و لہجہ کے مطابق کر لئے گئے،مثلا لالٹین،بوتل،رپٹ،سنتری وغیرہ انگریزی محاورے اور اسلوب بیان اردو میں ڈھال لئے گئے۔
انگریزی کہاوتوں،مثلوں کا اردو میں ترجمہ کر لیا گیا۔انگریزی رموزواوقاف کو اردو میں استعمال کرنے لگے۔اردو تحریروں میں پیراگراف قائم ہونے لگے۔اردو زبان میں بچوں کے قاعدے انگریزی کے اصول پر لکھے جانے لگے۔اخبارات و رسائل جاری ہوئے۔اردو شاعری پر انگریزی کا بہت بڑا اثر ہوا،جدید شاعری کی ایک مستقل صنف اردو میں پیدا ہو گئی جو قدیم اردو شاعری میں خال خال پائی جاتی تھی۔
غزل کی روش بدل گئی۔اردو زبان نے بھی انگریزی پر اثر ڈالا ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اردو دنیا بھر کے لسانیات دانوں کی توجہ کا مرکز بن گئی۔چنانچہ آسٹریلیا اور جاپان سے لے کر امریکا تک میں اردو تدریس ،تحقیق اور تنقید بلکہ ادبی تخلیق تک کے کام انجام دئے جارہے ہیں“ اردو ہے جسکا نام ہمیں جانتے ہیں داغ سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

Browse More Urdu Literature Articles