Waba Main Marne Ka Dukh - Article No. 2292
وبا میں مرنے کا دکھ!! - تحریر نمبر 2292
ایڈم عمر کے اس حصے میں تھا جہاں انسان زندہ رہنے کی بجائے مرنا پسند کرتا ہے۔ اسی لئے جب شہر میں جان لیوا وبا پھیلی اور لوگ مرنے کے معاملے میں بھی ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے لگے
سید بدر سعید جمعرات 26 مارچ 2020
(جاری ہے)
شہر میں قاتل وبا پھیلی تو ہر سو سناٹا چھا گیا۔ لوگ مسلسل ہاتھ دھوتے رہتے لیکن اس کے باوجود خوف ان کے چہرے سے عیاں ہوتا تھا۔ ہر شخص کسی نہ کسی اپنے کو مرتا دیکھ چکا تھا۔ سائنس دان اور ڈاکٹرز اس اجنبی وبا سے چھٹکارہ پانے کے لئے مسلسل تجربات کر رہے تھے لیکن ابھی تک اس کی اینٹی ڈوز تیار نہ ہو سکی تھی۔ ایڈم نے زندگی بھر جذباتی رشتے قائم نہ کئے تھے۔ اس کا ہر تعلق بہت ناپ تول کر بنتا تھا لیکن اسے اس موذی وبا سے پہلی بار خوف تب محسوس ہوا جب اس کے دو میں سے ایک بیٹا وبا کا شکار ہو کر مر گیا۔ ایڈم نے سوچا اگر اس کا دوسرا بیٹا بھی مر گیا تو وبا کے خاتمے کے بعد اسے ایک بار پھر اپنے کاروبار کے معاملات کو دیکھنا ہوں گے۔ وہ عمر کے اس حصہ میں ایسی کسی ایکٹیویٹی کے بارے میں نہیں سوچنا چاہتا تھا۔ یہ درست تھا کہ طویل عمر نے اس کے دل سے موت کا خوف دور کر دیا تھا۔ وہ پہلے ہی اپنے اعضا کسی ضرورت مند مریضوں کو عطیہ کرنے کی وصیت لکھوا چکا تھا لیکن اس کے باوجود وہ چاہتا تھا کہ زندگی کے آخری دن وہ پورے ہوش و حواس میں ہو۔ وہ اس روز دنیا بنانے والے رب سے اپنے پچھلے سارے گناہوں کی معافی مانگ کر شراب کی پوری بوتل پینا چاہتا تھا تاکہ مرتے وقت اپنی دنیا میں مگن رہے اور کسی دوسرے کے لئے تکلیف کا باعث نہ بنے۔
ایڈم کی تشویش اپنی جگہ لیکن اس کا دوسرا بیٹا ابھی تک وبا سے محفوظ تھا۔ وہ بار بار ہاتھ دھونے کے علاوہ سینیٹائزر کا بھرپور استعمال کرتا تھا۔ ایڈم نے اسے پچھلے دو ہفتوں سے فیس ماسک اور گلوز کے بنا نہیں دیکھا تھا۔ یہ چیزیں ظاہر کرتی تھیں کہ وہ اپنے بھائی کی بجائے ایڈم کی پیروی کرنا چاہتا ہے اور اس کی طرح دیر تک زندہ رہے گا۔ ایڈم اپنی کار میں روز شہر کی ویران سڑکوں پر آوارہ گردی کرتا اور شہر کی ویرانی پر ہنستا رہتا۔ اسے یقین تھا کہ وہ کم از کم وبا کی وجہ سے نہیں مرے گا کیونکہ عمر کے اس حصہ میں اس کی موت کے لئے وبا کو بہانہ بنانا انتہائی نامعقول بات ہوتی۔ وہ کسی بھی وقت کسی بھی وجہ کے بغیر مر سکتا تھا جس کے لئے اتنا جواز کافی تھا کہ وہ بڑھاپے کا شکار ہو گیا تھا۔ جوں جوں شہر میں وبا پھیلتی گئی توں توں ایڈم کے ارد گرد بسنے والے لوگ خدا کے قریب ہوتے چلے گئے۔ کوئی مسلمان گھنٹوں سجدے میں پڑا رہتا تو کوئی صلیب کے سامنے کھڑا اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہا۔ ہندو گھر سے مسلسل گھنٹی بجنے کی آوازیں آتی رہتیں۔ ایڈم ان دنوں سوچنے لگا تھا کہ خدا کے وجود پر سوال اپنی جگہ لیکن خدا کا تصور کم از کم اتنا مضبوط ضرور ہے کہ ان سب کو اس کے نام پر سہارا ملنے لگا ہے۔ ایڈم کے پاس ایسا کوئی جذباتی سہارا نہیں تھا اس لئے اس نے ایک بار پھر اپنے آبائی مذہب کا انتخاب کر لیا ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لا تعداد لوگوں کو مرتا دیکھ کر اسیلگنے لگا تھا کہ جلد ہی اس کا بھی نمبر بھی لگ جائے گا۔ اسے وبا کے دنوں میں سبھی کے ساتھ مرنا پسند نہ تھا۔وہ تو وبا سے ڈرنے والوں کا مذاق اڑایا کرتا تھا لیکن اب حالات تیزی سے بدل رہے تھے۔ جس وبا نے پورا شہر اجاڑ دیا تھا ایک رات وہ ایڈم کے ساتھ بیٹھی شراب پی رہی تھی۔وہ رات بھر اس سے لپٹتا رہا۔ کم از کم ایڈم کو اگلی صبح یہی لگا تھا کہ اس نے رات اسی قاتل وبا کے ساتھ بسر کی ہے جس سے سب ڈرتے ہیں۔ اس نے اپنا ٹیسٹ کروایا تو معلوم ہوا کہ اس کا خیال درست تھا۔ ایڈم اس قاتل وبا کا شکار ہو چکا تھا۔ شہر میں اب تک ایک ہزار سے زائد لوگ اس وبا کی وجہ سے مر چکے تھے۔ بیماری کی تشخیص ہوتے ہی وہ ہسپتال داخل ہو گیا لیکن ڈاکٹروں نے اس کو مزید رکھنے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بیماری کی دوائی ابھی تک نہیں بنی اس لئے ایڈم کو کم از کم 14 دن کے لئے اپنے گھر میں قید تنہائی کاٹنی پڑے گی۔
وبائی مرض کی تصدیق ہونے کے بعد ایڈم گھر آ گیا لیکن موت کا خوف خونی رشتوں پر بھاری نکلا۔ اس کے بیٹے نے اس کے کمرے میں جھانکنا چھوڑ دیا۔ وہ مکمل طور پر ملازموں کے رحم و کرم پر تھا جو ناک پر کپڑا رکھ کر کمرے میں داخل ہوتے اور فوری طور پر کام نمٹا کر واپس چلے جاتے تھے ۔ ڈاکٹرز اس کے علاج کے لئے تیار نہ تھے کیونکہ اس طرح یہ جان لیوا بیماری ان کو بھی لگ سکتی ہے۔ وہ تنہا اپنے کمرے کی چھت کی جانب تکتا رہتا اور سوچتا کہ وبا کے دنوں میں مرنا جس قدر اذیت ناک عمل ہے۔ اس کے پاس کوئی ملازم لمحہ بھر کے لئے ٹھہرنے پر آمادہ نہ تھا۔ ٹی وی اس نے خود بند کر دیا تھا کیونکہ ان دنوں ہر چینل پر اس وبا سے مرنے والوں کی تعداد بتائی جاتی تھی۔ ڈاکٹروں نے اس کے اخبارات بھی بند کروا دیئے تھے کیونکہ اخبار کے کاغذ سے بھی وائرس پھیلنے کا خطرہ تھا۔ کھانا صرف پرہیزی بنتا تھا جو کہ کمرے کے باہر رکھ دیا جاتا تھا۔ ایڈم موت کے خون آشام چنگل میں پھنس چکا تھا۔ اسے لگنے لگا تھا کہ یہ سب اس کے خلاف کوئی بھیانک سازش ہے۔ وہ یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھا کہ جس ملک کی ترقی دیکھ کر وہ اللہ دتہ سے ایڈم ہوا اس ملک میں اسے ایک ایسی بیماری لاحق ہو گئی ہے جس کا کوئی علاج ابھی تک نہیں ہے۔ اسے لگتا تھا کہ اس کا بیٹا ساری جائیداد ہتھیانے کے لئے اس کی موت کی پلاننگ رچا رہا ہے اور معاملہ ایسے طے پایا ہے کہ اس پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ایک روز ملازم نے کمرے میں جھانکا تو اسے ایڈم کی اکڑی ہوئی لاش نظر آئی۔ اسے وبا سے زیادہ اس دکھ نے مار دیا تھا کہ اس کی عمر بھر کا حاصل یہ ملک بھی وبا کے علاج کا اہل نہیں ہے۔ ایڈم کی موت کا علم ہوتے ہی فوری طور پر ہسپتال کا عملہ منگوایا گیا جو اس کی لاش کو ایمبولینس میں رکھ کر ساتھ لے گئی۔
لوگ ہسپتال میں مرنے کے بعد گھر لائے جاتے ہیں۔ ایڈم گھر کے قرنطینہ میں مرنے کے بعد ہسپتال لیجایا گیا تھا۔ اس کی لاش سے لپٹ کر رونے کے لئے کوئی تیار نہ تھا۔ ہر شخص اس وبائی وائرس سے بچنا چاہتا تھا جو ایڈم کی موت کے بعد بھی اس کے جسم سے لپٹا ہوا تھا۔ا س کے بیٹے نے تدفین کے اخراجات ہسپتال کے بنک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر کے انہیں ہی ساری ذمہداری سونپ دی تھی۔ ایڈم کو کسی نے غسل نہیں دیا۔ اسے مومی شیٹ میں لپیٹ کر ایک تابوت میں بند کر دیا گیا تھا۔ اسکا تابوت جس سٹریچر پر رکھا گیا تھا اس کو رسی سے باندھ کر کھینچا گیا تاکہ وائرس زدہ مردے اور زندہ انسانوں کے درمیان فاصلہ برقرار رہے۔ اس کی وصیت کاغذ کے ایک ٹکرے سے زیادہ اہمیت نہ رکھتی تھی کیونکہ وبا سے مرنے والے کے اعضا کسی کو نہیں لگائے جا سکتے تھے، میڈیکل کالج کے طلبہ اس کی باڈی پر تجربات کے لئے تیار نہ تھے۔ ایڈم کو بھرپور زندگی اورمشکل موت ملی تھی۔ نہ توکسی رشتہ دار نے اس کا آخری دیدار کیا اور نہ ہی کسی نے اس کی آخری رسومات ادا کیں۔ شہر سے باہر ایک بڑے سے گڑھے میں دیگر کئی لاشوں کی طرح ایڈم کی لاش کو بھی پھینک دیا گیا اور پھر اس گڑھے میں تیزاب ملا کیمیکل ڈال دیا گیا تاکہ وبائی جراثیم تلف ہو جائیں۔
ایڈم نے اس شہر کو اپنی جوانی دی تھی لیکن یہ بڑا شہر اسے ایک قبر تک نہ دے سکا۔ اسکا جنازہ نہیں اٹھایا گیا، اس کی کوئی قبر نہ تھی۔ وہ ایک ایسے گڑھے میں موجود تیزاب میں تحلیل ہو رہا تھا جہاں اس جیسی کئی لاشیں گل سڑ رہی تھیں۔ ایڈم وبا میں نہیں مرنا چاہتا تھا لیکن وہ اسی شہر میں رہا۔ اسے اس شہر کی جدید ٹیکنالوجی اور ریسرچ پر مان تھا لیکن آخری لمحات میں وہ اس کے کسی کام نہ آ سکی۔ اس کے بیٹے نے ان ٹیکنالوجیز کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ جس وقت ایڈم کو گڑھے میں پھینکا جا رہا تھا اس وقت بھی اس کا بیٹا بہت دور بیٹھا اپنے سامنے سکرین پر یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ اس نے اسی سکرین پر اپنے باپ کی لاش کو تیزاب میں تحلیل ہوتے دیکھا تھا۔ وہ اس بڑے شہر کو چھوڑ کر ایڈم کے آبائی گاؤں چلا گیا کیونکہ ایڈم کی طرح وہ بھی وبا سے نہیں مرنا چاہتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ چھوٹا سا ملک اس قابل نہیں کہ اسے بڑھتی ہوئی وبا کے اثرات سے بچا سکے لیکن وہ یہ ضرور جان گیا تھا کہ اگر وہ یہاں وبا کا شکار ہو کر مر،ا تب بھی اس کے ساتھ وہ سلوک نہیں ہو گا جو وہ اپنے باپ کے ساتھ کر چکا ہے۔ وہ جان گیا تھا کہ اس پسماندہ ملک کے چھوٹے سے گاؤں میں بھی لوگ وبا سے مرتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ میت کے ساتھ قبر تک جاتے تھے۔ایڈم کا بیٹا مرنے سے نہیں ڈرتا تھا۔ اس کا سارا خاندان لقمہ اجل بن چکا تھا لیکن وہ وبا کے دنوں میں مرنے کی اذیت دیکھ چکا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ایڈم وبا سے زیادوبا کے دنوں میں مرنے کی اذیت کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوا تھا۔وہ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں بھانپ گیا تھا کہ وبا میں مرنے والوں کے لئے موت کے بعد روا رکھے گئے ممکنہ رویوں کی اذیت مرنے سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے.
Browse More Urdu Literature Articles
کتنے یگ بیت گئے
Kitne Yug Beet Gaye
پروین شاکر کی حادثاتی موت کی نامکمل تحقیقات
Parveen Shakir Ki Hadsati Maut Ki Namukammal Tehqiqat
جلتی ہوا کا گیت
Jalti Hawa Ka Geet
ماں اور پروین شاکر
Maan Aur Parveen Shakir
پروین شاکر کا رثائی شعور
Parveen Shakir Ka Rasai Shaoor
ریت
Rait
لا حاصل از خود
La Hasil Az Khud
فقیرن
Faqeeran
داستان عزم
Dastaan E Azm
محمد فاروق عزمی کا پرعزم اور پر تاثیر قلمی سفر
Mohammad Farooq Azmi Ka PurAzam Aur PurTaseer Qalmi Safar
حلیمہ خان کا تقسیم 1947 کے شہداء کو سلام
'Walking The Divide: A Tale Of A Journey Home'
جہیز
Jaheez