World Potohar Mela, Aman Aur Taraqqi O Khushhali Ki Janib Qadam - Article No. 2229

World Potohar Mela, Aman Aur Taraqqi O Khushhali Ki Janib Qadam

ورلڈ پوٹھو ہار میلہ، امن اور ترقی و خوشحالی کی جانب قدم - تحریر نمبر 2229

پنجاب کی دھرتی مختلف ثقافتی اکائیوں کی سرزمین ہے۔وفاقی دارلحکومت کے پہلو میں خطہ پوٹھوہار ہے۔جس کا اپنا پوٹھوہار ی کلچر ہے۔اپنے رسم و رواج ہیں۔گیت اپنے ہیں۔بولیاں اپنی ہیں۔کھیل اپنے ہیں کھلونے اپنے ہیں۔میلے اپنے ہیں اور ان میلوں کا رنگ اپنا ہے

Arshad Sulahri ارشد سلہری بدھ 25 دسمبر 2019

سرزمین پاکستان میں گزشتہ بیس سالوں میں بیرونی نظریات اور بیانیہ سے مقامی روایات اور ثقافت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔بالخصوص پنجاب کے علاقے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔سندھ اور دیگر علاقوں کو قوم پرست جماعتوں کے فعال ہونے کے باعث قدرے کم نقصان ہوا ہے۔مارکس ازم ہو۔مذہبی بیانیہ ہو۔جب نظریات دھرتی کی روایات اور ثقافت کے ہم آہنگ نہیں کیے جاتے ہیں۔
تب تک اجنبی ہی رہتے ہیں۔نظریات کے پرچارک کاروں نے نظریات کو ہم آہنگ کیا کرنا تھا۔کامریڈ،مارکس ازم کا مقامی زبانوں میں ترجمہ یا متبادل لفظ تک نہیں دے سکے ہیں۔تنگ نظری کا یہ عالم ہے کہ معاشی نظریات کو بھی مذہبی بیانیہ اور مذہب کے مقابل کھڑا کردیا گیا ہے۔حکمت عملی سے کام لینے کی بجائے جذبات اور عقیدت سے کام لینے کی کوشش کی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

نوجوانوں کو انقلاب کے نام پر ورغلایا جاتا ہے۔کوئی مذہب،کوئی نظریہ اور کوئی فلسفہ روایات اور تہذیب و تمدن کی کلنگ نہیں کرتا ہے۔کارل مارکس ہی کا قول ہے کہ انسان کے سرپر مسائل کا بوجھ ہے اور ہاتھ میں مذہب کی لاٹھی ہے۔جس کو ٹیک ٹیک کر انسان چل رہا ہے۔ہمارا فریضہ انسان کی لاٹھی چھیننا نہیں ہے بلکہ انسان کے سر سے مسائل کا بوجھ ا اتارنا ہے۔
کارل مارکس کی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔لال پیلے ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔خاص کر پنجاب میں اگر ضرور ہے کہ کارل مارکس کی بات کرنی ہے تو پھر بلھے شاہ اور فرید کی زبان میں کی جائے۔اظہار بھی اپنی رہتل بہتل میں کیا جائے گاتو نتائج سو فیصد آئیں گے۔آزمائش شرط ہے۔ پنجاب کی دھرتی مختلف ثقافتی اکائیوں کی سرزمین ہے۔وفاقی دارلحکومت کے پہلو میں خطہ پوٹھوہار ہے۔
جس کا اپنا پوٹھوہار ی کلچر ہے۔اپنے رسم و رواج ہیں۔گیت اپنے ہیں۔بولیاں اپنی ہیں۔کھیل اپنے ہیں کھلونے اپنے ہیں۔میلے اپنے ہیں اور ان میلوں کا رنگ اپنا ہے۔خطہ پوٹھوہار کو صوبہ بنانے کیلئے بھی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔راولپنڈی سے راجہ اعجاز نے تحریک صوبہ پوٹھوہار شروع کر رکھی ہے۔موصوف تحریک صوبہ پوٹھوہار کے چیئرمین ہیں۔خوبصورت اور دلچسپ بات ہے کہ راجہ اعجاز نے اپنی سیاست کی بنیاد ہی ثقافت پر رکھی ہے۔
ان کا نعرہ یہی ہے۔پوٹھوہار کی ثقافت،ہماری سیاست ہے۔خود بھی فنکارانہ صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ فوک کلچرل پر یقین رکھتے ہیں۔ورلڈ پوٹھوہار میلہ کا اعلان کر رکھا ہے۔جس میں خطہ پوٹھوہار کی روایات،تہذیب و تمدن اور کھیل و تماشوں کو اجاگر کرنے کا عزم ہے۔پوٹھوہار کی ثقافت ہی ہماری سیاست ہے۔خوبصورت تصور ہے۔سوالوں کے جواب دیتے ہوئے راجہ اعجا ز کا کہنا ہے کہ ثقافت کی ترقی سے خطہ میں نہ صرف سیاحت کو فروغ حاصل ہو گا بلکہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
سیاست جیسے پیچیدہ اور خطرناک کھیل بنادیا گیا ہے۔نئی نسل کی سیاست میں دلچسپی پیدا ہوگی۔سیاست پیسے کا کھیل بھی نہیں رہے اور چند لوگوں کی سیاست پر جو اجارہ داری ہے اس کا بھی خاتمہ ہوگا۔ بیل دوڑ ، نیزہ بازی،اونٹ ریس جیسے کھیلوں کی حوصلہ افزائی سے زراعت کے اور حیوانات کا شعبہ ترقی کرے گا۔راجہ اعجاز کا خیال ہے کہ سیاسی جماعتوں کا کام محض انتخابات میں حصہ لینا نہیں ہے بلکہ سماج کی تعمیر کرنا سیاسی جماعتوں کا اہم ترین فریضہ ہے۔
راجہ اعجاز عدم برداشت،تشدد،انتہا پسندی اور جنسی درندگی جیسے بڑھتے واقعات کا ذمہ دار بھی سیاسی جماعتوں کو قرار دیتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ سیاسی کارکن جتنے زیادہ فعال اور سیاسی نظریات سے لیس ہوں گے اور ان کی سیاسی تربیت ہوگی۔سماج اتنا زیادہ پرامن اور جرائم سے پاک ہوگا۔انہوں نے پیپلزپارٹی کو زیادہ مورد الزام ٹھہرایا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی نے قبلہ تبدیل کرلیا ہے اور اپنی اصل فریضہ بھول گئی ہے۔
قومیں اور جو طبقات اپنی اصل زبان،تہذیب،روایات اور ثقافت سے رشتہ توڑ دیتے ہیں۔وہ قوموں کی صف سے نکل جاتے ہیں۔زوال اور بربادی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔صد آفرین ہے تحریک صوبہ پوٹھوہار کے چیئرمین راجہ اعجاز،جس نے اپنے پوٹھوہار کی ثقافت کی ترقی اور فروغ کیلئے خودنہ صرف وقف کیا ہے بلکہ سرمایہ بھی لگا رہے ہیں۔قوموں کے زندہ رہنے اور عروج حاصل کرنے کا یہی چلن ہے۔ جاپان،چین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔راجہ اعجاز نے بھی ورلڈ پوٹھوہار میلے کا اعلان کر کے ترقی،خوشحالی اورعروج کی جانب سفر کی بنیاد رکھی ہے۔چلنے والے اپنی منزل پر پہنچ ہی جایا کرتے ہیں۔

Browse More Urdu Literature Articles