Zameer Ki Awaz - Article No. 2416

Zameer Ki Awaz

ضمیر کی آواز - تحریر نمبر 2416

آج ضمیر کی عدالت تھی اور اس عدالت کی مجرم تھی میں وہ جو دوسروں کو آئینہ دکھاتی تھی آج اسے ہی ضمیر کی آواز خود سے نفرت پر مجبور کر رہی تھی

حفصہ انور پیر 24 اگست 2020

آج ضمیر کی عدالت تھی اور اس عدالت کی مجرم تھی میں وہ جو دوسروں کو آئینہ دکھاتی تھی آج اسے ہی ضمیر کی آواز خود سے نفرت پر مجبور کر رہی تھی ۔۔۔۔قہقہہ بے بسی اداسی ملال رنج خاموشی کیا نہیں تھا آج میرے مقدر میں ۔۔۔۔ کالی رات گھپ اندھیرا اور خاموشی میں ارتعاش تھی دبی دبی سی سسکییاں۔۔۔۔
محبت انسنیت آزمائش ملال ہجر اور خالی ہاتھ !!
ملال بے وفائی کا نہیں تھا ملال اپنے حصے میں آئے خالی ہاتھ کا نہیں تھا ملال تھا اس محبت کا جس کا حق صرف اور صرف اس خدا کا تھا جو واحد لا شریک ہے جس کو ہاتھ میں بادشاہی ہے ۔
۔بے انتہا محبت کا حق تو میرے رب کا تھا پھر کیسے یہ انسانوں میں بنٹ گئی ۔۔۔۔
محبت میں شراکت؟؟
یہ تھی میرے میرے ضمیر کی آواز۔

(جاری ہے)

۔۔۔ایک خوف تھا رب کو کھو دینےکا سن رکھا تھا شرک کی معافی نہیں ہوتی... ایسے لگ رہا تھا جیسے سب ختم ہوگیا میں میرا مقصد میری دنیا میری آخرت ۔۔۔سوچتے بھی ڈر لگ رہا تھا کیسے کروں گی رب کا سامنا ۔۔۔۔۔
پر کہتے ہیں نا جہاں ضمیر ملامت کرتا وہاں امید کی کرن بھی دکھادیتا اور مجھے مل گئی گھپ اندھیرے میں امید کی کرن روشنی کا ایک جگنو ۔

۔۔۔۔سب دروازہ بند ہونے پر ایک در اب بھی کھلا تھا وو تھا "معافی کا در"
فقط ایک سجدہ لمبی جستجو معافی کی طلب ایک موقع سسکییاں اور بے بسی کی انتہا اور پھر ملا سکون ۔۔۔۔روشنی نور اور دل کا سکون ۔۔۔۔ایک عجیب سی سرشاری خوشی اطمینان اور سکون ۔۔۔مانو جیسے دل پر اتارا جا رہا تھا وو سکون جو کہیں نہیں تھا وہ سکون نمازوں میں بھی نہیں ملا جو اس رات ملا ۔
۔۔۔۔بے قراری بڑھی تھی رب سے ملنے کی تڑپ تھی دل میں دعا تھی لب پر اسی سکون میں میں مر جانے کی چاہ تھی یہ تھی میری زندگی کی خوبصورت رات جس کے بعد امید کی نئی کرن تھی ایک نئی صبح تھی ایک نیا سفر تھا
یہاں ہوا آغاز ایک ایسے سفر کا جس میں محبت تھی سب کے لئے پر انداز بدلا تھا حق تلفی ختم ہوئی تھی اداسی کی جگہ سنجیدگی نے ضرور لے لی تھی پر میں نے پھر سے خوش رہنا سیکھ لیا تھا قدم ملانا سیکھ لیا تھا محبت کا نرم گوشہ بنا لیا تھا پر اسکی جنونیت دل میں دفن کرلی تھی ۔
۔۔اور عہد تھا خود سے عہد وفا کا۔ ۔۔۔
وقت گزرتا گیا اور آج ایک سال ہوگیا عہد نبھاتے نبھاتے ۔۔۔۔میری محبت نے مجھے رب سے ملا دیا تھا مجھے پارسا بنا دیا تھا رشتوں کی قدر خوب سمجھا دی تھی پر ڈر بڑھا دیا تھا حق تلفی کا ڈر کسی کے دکھ کی وجہ نا بن جاؤں اس بات کا ڈر
کسی کی آنکھ کے آنسو کا سبب تھا میرا ڈر
پھر اس دل میں خوش رہنے کی نہیں خوش رکھنے کی چاہ بڑھ گئی اور یہ میری کامیابی تھی۔
۔۔۔۔
پھر ایک رات پھر وہی عدالت پھر وہی مجرم پر جرم بدلا تھا حق تلفی کا جرم ۔۔۔۔۔پر اس رات معافی نہیں تھی سکون نہیں تھا موت کی چاہ نہیں تھی اس ڈر سے آنکھیں کھلی رکھیں تھیں کہیں سونے پر اٹھ نا پائی تو اس رات سکون نہیں تھا اندھیرا تھا نا جگنو نا کرن نا امید نا دلاسا ۔۔۔۔بس دبی دبی سی سسکییاں اور معافی ابھی ملنا باقی تھی۔ ۔۔۔۔

Browse More Urdu Literature Articles