Gojri Adab - Article No. 2039

Gojri Adab

گوجری ادب - تحریر نمبر 2039

گوجری ادب دنیا کے بہترین ادب کی فہرست میں شمار ہوتا ہے دنیا بھر میں پھیلے گجر نہ صرف قوم اور برادری رکھتے ہیں ان کی اپنی زبان بھی ہے

پیر 6 مئی 2019

افتخار چوہدری
بات کہیں سے چھیڑ لیں پہنچے گی وہیں جہاں سے محبت پیار کی لوری کا ذکر ہو گا۔ہچکچاتے روتے بچے ماں کی آغوش میں سکون پاتے ہیں تو کچھ لفظ اس کے کانوں میں ماں پھونکتی ہے یہ ماں جرمنی کی ہو کوریا یا پاکستان کی پنجابی ہو سندھی بلوچی پٹھان گجر ہو یا کوئی اور قوم۔دنیا کی سب مائیں اچھی ہوتی ہیں اور میں کہا کرتا ہوں اس میں اپنی ماں نمبر ون ہوتی ہے۔
ماؤں سے جڑی یادیں زندگی کی بہترین یادیں کہی جاتی ہیں اس دن عامر محبوب نے اپنی وال پر اماں جی کی ساتھ تصویر لگائی فٹ کر کے فون کیا اور حال احوال پوچھا اللہ انہیں صحت دے۔ماں کی طرح زبان بھی اپنی ہی اچھی لگتی ہے۔تاریخ میں درج ہے کہ جب لڑائیاں ہوتی تھیں تو عورتیں اپنی خالص زبان میں لشکر کو ہلہ شیری دیتی تھیں۔

(جاری ہے)

پشتون تاریخ میں تو اس ملالہ کا ذکر ہے جو شکست کھانے والے اپنے منگیتر کو گا کر کہتی ہے جنگ میں شہید ہو گئے تو تیرے نام کی مالا جپوں گی اور کسی سے شادی نہیں کروں گی اور اگر پشت پر زخم کھا کے مرے تو چہرہ بھی نہیں دیکھوں گی میں ملالہ یوسف زئی کی بات نہیں کر رہا یہ کوئی اور ملالہ کی بات ہے ملالہ سے ملالہ تک کالم کو مجید نظامی نے اتنا پسند کیا کہ مجھے فون کیا۔

اپنی مادری زبانوں میں لوریوں سے ان گیتوں تک کے کردار کو نکالا نہیں جا سکتا۔مدینہ کی بستی کی وہ بچیاں بھی تو گیت گاتی تھیں اور ہر کوئی جانتا ہے ہر روز بیر علی کی پہاڑی پر مدینہ کی خواتین ایک چاند کے طلوع ہونے کے گیت گاتی تھیں اور پھر ایک روز طلع البدر علینا گایا گیا دف پر اس گیت کو گانے والیوں نے دنیا کے ہر مسلمان کو سمجھا دیا کہ دیدار سوہنے کا ہو تو گنگنا لینا چاہئے ہر عید میلاد النبی ﷺ میری اس بات کی تصدیق کرتا ہے۔

گوجری ادب دنیا کے بہترین ادب کی فہرست میں شمار ہوتا ہے دنیا بھر میں پھیلے گجر نہ صرف قوم اور برادری رکھتے ہیں ان کی اپنی زبان بھی ہے جو غیر گجر بھی بولتے ہیں ادب کی اس خوبصورت دنیا میں گوجری زبان ایک خوبصورت اضافہ ہے ڈاکٹر جمیل جالبی پچھلے دنوں اس دنیا سے چلے گئے انہوں نے اس زبان کو اردو کی ماں زبان کہا ہے ڈاکٹر منور ہاشمی کو اللہ عمر خضر دے وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔
لوک ورثہ اس سلسلے میں مدتوں بعد جاگا ہے پچھلے دنوں گوجری ادب اور ثقافت کے حوالے سے وہاں بڑی اچھی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔منیر احمد زاہد اور صفورہ زاہد عصر حاضر کی ایک خوبصورت جوڑی ہے جنہوں نے اس بیٹھک کا اہتمام کیا۔ان سے چند ملاقاتیں پہلے سے ہیں پچھلے سال جب مجھے کسی غلط فہمی کی بنیاد پر جموں کشمیر نے بہترین کالم نویس کا اعزاز بخشا تو وہیں اس جوڑی سے ملاقات ہوئی۔
منیر نے فون پر بار بار کہا کہ آئیے میں اللہ کے فضل سے گجروں کے اس گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں جو اب بھی گوجری سے جڑے ہوئے ہیں۔جی بہت چاہتا تھا لیکن میرے ماموں زاد اس روز دنیا سے رخصت ہوئے جا نہیں سکا۔مزے کی بات ہے جس جگہ شکر پڑیاں میں تقریب منعقد ہوئی یہاں آس پاس میں گجر ہی رہا کرتے تھے۔پڑیاں گاؤں تھا۔اسلام آباد کے خوبصورت شہر میں بہت سے لوگ گوشہ ء خموشاں کی زینت بنے ہوئے ہیں سرینہ کے اندر خود کٹاریاں کے گجروں کا ٹھکانا ہے۔

بے جی جب اپنے میاں کے ساتھ گجرانوالہ چلی گئیں تو سال میں اس وقت نلہ گاؤں آتیں جب ہمیں گرمیوں کی چھٹیاں ہوتی تھیں۔ایک آٹھ دس سالہ بچے کے ساتھ جنگل میں نکل جاتیں کھلنڈرے لڑکے کو جب ننید آتی تو اپنی گود میں لے کر درود بردہ شریف گوجری لہجے میں سناتیں۔میں نے گجروں سے پیار کیا ہے لیکن مجھے اللہ نے ایک شعور دیا کہ میں نے گوجری اور گوجر کو اس حد کے اندر سمویا جو اللہ کے پیارے نبیﷺ کی دعوت کا دائرہ تھا۔
لوک جب کشک دور کی بات کرتے ہیں تو کرتے رہیں اس لئے کہ ہماری حد تو زیادہ سے زیادہ چودہ ساڑھے چودہ سو سال تک ہے۔اگر چودھری رحمت علی کی دعوت کو دیکھا جائے تو انہوں نے ہر اس ہندو سکھ اور دیگر سے دوری کی بات 1915میں کی جب کوئی بولتا نہ تھا۔
ڈھوکوں اور بہکوں میں گائے جانے والے چار بینتے اور گیت اللہ کے دین کی وحدانیت کے علمبر دار ہیں خود سیف الملوک پڑھیں تو کھڑی شریف کے با با محمد بخش گجر نے قران کا ترجمہ کر دیا ہے اسی لئے انہیں رومی ء کشمیر کا خطاب دیا گیا۔

میں اپنی ماں کی درد بھی آواز جو گنگنانے کی حد تک میرے کانوں میں پہنچی اور پھر شادی بیاہوں میں ابلی ہوئی گندم کو کھاتے ایک چار پائی پر بیٹھی اپنی پوپھیوں چاچیوں کو معراج کی تعریفیں کرتے سنا ہے۔نلے کے گجروں کا گوجرا گھمر جو آج بھی بڑے شوق سے کھیلا جاتا ہے ہاتھوں میں لکڑی کی چکلیاں اور ڈھول کی تھاپ پر ناچتے گھبرو آج بھی اسی شوق سے شادی بیاہوں میں رونقیں لگتی ہیں جوان تو جوان ہمارے بوڑھے بھی ناچتے ہیں اپنی مائیں بہنیں اپنے خاص رشتے داروں میں لوک گیتوں کی محفل سجاتی ہیں۔
دلہے کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا جاتا ہے۔پنجابی کلچر بھی کسی سے کم نہیں لیکن پنجاب میں سٹھنیاں دلہے کی ماں اور باپ کو گالیوں کے قریب تر لے جاتی ہیں لیکن یہاں معراج چرکا کیوں چڑھیا کج ماؤں ٹلاں پائیاں میں ایک نرم لہجے کا احتجاج ہوتا ہے۔ گجروں میں صرف بکروالی ثقافت نہیں نیزہ بازی گھڑ سواری میں یہ قوم کسی سے پیچھے نہیں۔اور جن کے گھوڑوں کے سموں سے شرارے نکلتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں۔
گوجری ادب کی ایک تاریخ ہے منیر زاہد نے جس ادب کی بات کی میں نے انہیں ایک رات قبل تفصیل سے بتایا کہ پاکستانی ادب کو آپ اس لئے منفرد مانتے ہیں کہ ملک خدادا اسلام کے نام پر بنا۔سچ پوچھئے ہمارے دشمن بڑے مختلف زاویوں سے حملہ کرتے ہیں ہندوستان گوجری ادب پر بہت خچ کرتا ہے ۔اس کی نیت میں فتور ہے ایک جانب وہ گجرات جیسے ظلم روا رکھتا ہے دوسری جانب خوبصورت گوجری کلچر کو پروان چڑھا کر لکیر کے اس پار اپنے ہمدردوں کی ایک بڑی تعداد پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
ہم ہیں کہ اس قسم کی کوشش کو کرنا گناہ سمجھتے ہیں اس جوڑی کو مبارک باد جس نے پہلا پتھر اٹھا کر اس قبیح سوچ کو نشانے پے رکھا ہے ۔ڈاکٹر زوبیہ ستائیش کے قابل اس خاتون کو سلام۔جس نے پاکستان کی اکثریتی قوم گوجر کو اپنے کلچر کو پیش کرنے کا موقع دیا۔میں وہاں تو نہ تھا لیکن برادر خورد پروفیسر سجاد قمر کی تحریر نظر سے گزری تو ایسا لگا میں بھی وہاں تھا۔
جس خوبصورت انداز سے پروفیسر صاحب نے لکھا دل عش عش کر اٹھا لیکن اس وقت دل دھک دھک کر گیا جب فکر مودودی کے اس شناسا نے یہ لکھا کہ خونی لکیر نے دلوں کو دور کیا۔ہو سکتا ہے ان کا مقصد کچھ اور ہو کیا ہی اچھا ہوتا وہ لکھ دیتے کہ بھارتی غصبوں نے دلون کو بانٹ دیا۔نیلم کے اس پار بھی ہم گجر اور اس پار بھی ہم۔ہم کبھی تقسیم نہ ہوں گے۔اس لئے کہ ہمیں یہ علم ہے کہ آج نہیں تو کل کشمیر ایک ہو گا۔
بہر حال شاباش۔
گوجری ادب کی بات کروں یا ثقافت کی تو جنگلوں پہاڑوں میں ان بکروالوں کا ذکر نہ کیا جائے تو بات نا مکمل ہوتی ہے۔بانسری کی سروں میں اپنی بکریوں کے ساتھ باتیں کرتے نوجوان گجر اس ثقافت کا حصہ ہیں۔سیف الملوک جھیل پر ملجگی مہندی لگی داڑھیوں والے گجر جو شہزادی کی فرضی کہانیاں سناتے ہیں وہ بھی ہماری تہذیب کا حصہ ہیں۔یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ہمیں اپنی تہذیب اور ثقافت کو زندہ رکھنے کے ساتھ انہیں تعلیم کے دائرے میں بھی لانے کی جد جہد کرنا ہو گی شفقت محمود وزیر تعلیم ہیں گشتی اسکول بنا سکتے ہیں انہیں اگر میری بات سمجھ آ جائے تو یہ تعلیم پاکستان کو مضبوط بنانے کے کام آئے گی۔
اچھے بھائی ہیں بصری طور پر فٹ ہیں اور پڑھ بھی سکتے ہیں ایک کامیاب بیرو کریٹ ہیں اس مطالبے پر عمل کریں
اس قسم کی تقریبات کا اہتمام کیا جائے میں تو اپنے بیٹوں کی شادی پر شام ہزارہ مناتا ہوں گوجری ماہئے اور گیتوں کا یہ پروگرام مہندی سے ہٹ کے ہوتا ہے طوطی ء ہزارہ شکیل اعوان سجاتے ہیں۔اپنی تہذیب اور ثقافت کو زندہ رکھئے میں نے گوجری کالم بھی لکھے ہیں اور تقریر بھی کرتا ہوں۔میری تحریروں میں ایک گجر کی جھلک ہوتی ہے چودھری رحمت علی ہوتے ہیں ۔میں منیر صفورہ اور ساری ٹیم کو سلام گوجر پیش کرتا ہوں۔اللہ نے چاہا تو پھر کسی اور محفل میں شریک ہوں گے آج رفیق شاہد بھی گوجری مشاعرہ کر رہے ہیں ان کی کاوش کو بھی سلام

Browse More Urdu Literature Articles