Aik Behtar Zindagi - Article No. 2531

Aik Behtar Zindagi

ایک بہتر زندگی - تحریر نمبر 2531

میرا جی بہت چاہتا ہے کہ کسی طرح ایک نئی دنیا تخلیق ہو۔ایک بہتر زندگی جنم لے۔ایک نئی نسل ظہور میں آئے

پیر 3 مئی 2021

شفیق الرحمن
ہومر تار دے کر واپس آیا تو بارش تھم چکی تھی۔چاند چمک رہا تھا اور اُجلے اُجلے بادلوں کے ٹکڑے آسمان پر تیر رہے تھے۔
”ٹانگ کو کیا ہوا‘دن بھر لنگڑاتے رہے ہو۔“گروگن بولا۔
”جی ٹھیک ہوں۔کوئی اور تار تو نہیں آیا؟“
”اب چھٹی ہے۔گھر جا کر مزے سے سو جاؤ۔تمہاری ٹانگ کو ضرور کچھ ہوا ہے۔

”موچ آگئی ہے۔سکول میں دوڑ تھی۔میں سب سے آگے تھا۔اتنے میں ڈرل ماسٹر جو مجھے پسند نہیں کرتا‘سامنے سے آگیا۔مجھ سے یہ غلطی ہوئی کہ میں رکا نہیں۔وہیں ٹھہر جاتا تو اچھا تھا۔یونہی جیتنے کی دھن میں دوڑتا چلا گیا۔ہم دونوں دھڑام سے گرے۔عجیب بات ہے کہ میرے ہم جماعت ہیوبرٹ اکیلے نے لڑکوں کو وہیں روک لیا۔

(جاری ہے)

یہ لڑکا مجھے اچھا نہیں لگتا۔

امیر گھرانے کا ہے اور تصنع کا عادی ہے۔جس لڑکی کو میں چاہتا ہوں وہ اسے پسند کرتی ہے۔جتنی زیادہ وہ اس کی جانب ملتفت ہوتی ہے اتنی ہی مجھے آگ لگتی ہے۔رشتے داروں کو چھوڑ کر یہ لڑکی مجھے سب سے عزیز ہے اور یہی میری پروا نہیں کرتی۔وہ جو ڈرل ماسٹر ہے بائی فیلڈ اسے مخل ہونے کا کوئی حق نہیں تھا۔بڑا شیطان ہے۔مس ہکس نے بتایا کہ وہ جھوٹا بھی ہے۔
مس ہکس ہماری استانی ہیں اور پینتیس سال سے تاریخ پڑھا رہی ہیں۔انہوں نے بھائی مارکس اور آپا بیس کو بھی پڑھایا ہے۔تو ڈرل ماسٹر سے ٹکر کھا کر میں گرا اور چوٹ لگ گئی۔لیکن اٹھتے ہی پھر بھاگنے لگا۔میں اس لئے جیتنا نہیں چاہتا تھا کہ واہ واہ ہو گی یا ہیوبرٹ کو ہرا دوں گا‘کیونکہ ہیوبرٹ نے تو میرے گرنے پر لڑکوں کو روک لیا تھا۔میں تو اس لئے کوشش کر رہا تھا کہ مسٹر سپنگلر نے سکول میں یہ دوڑ جیتی تھی اور استانی صاحبہ بھی چاہتی تھیں کہ میں جیت جاؤں۔
ہوا یوں کہ جماعت میں میری اور ہیوبرٹ کی بحث چھڑ گئی۔استانی صاحبہ نے سزا کے طور پر ہمیں وہیں بیٹھا لیا۔بائی فیلڈ آیا اور جھوٹ بول کر ہیوبرٹ کو ساتھ لے گیا۔استانی کہتی ہیں کہ جب وہ ان کا طالب علم تھا تب بھی جھوٹ بولا کرتا تھا۔وہ ملول ہو گئیں اور دیر تک مجھ سے باتیں کرتی رہیں۔اور مجھے دوڑنے کی اجازت بھی دے دی۔مسٹر سپنگلر تو علاقے کے چیمپیئن رہ چکے ہیں‘دیکھئے میں کیا کرتا ہوں۔
اس سال تو مشکل ہے۔اگلے سال شاید۔“
ہومر نے ٹانگ کو دو تین جھٹکے دیئے”اس پر کسی چیز کی مالش کروں گا۔“
”سائیکل چلانے میں تو دقت نہیں ہوتی؟“
”ہوتی تو ہے لیکن داہنے پاؤں سے پیڈل گھماتا ہوں۔بائیں ٹانگ پر زور نہیں پڑتا۔معمولی سی موچ معلوم ہوتی ہے‘مالش سے ٹھیک ہو جائے گی۔“
”ہومر‘صرف تین دن میں تم کتنے بدل گئے ہو؟“
”جی بدل تو گیا ہوں۔
یوں لگتا ہے جیسے عمر میں بڑا ہو گیا ہوں۔نوکری سے پہلے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔جو تھوڑی بہت معلومات تھیں وہ نہ ہونے کے برابر تھیں۔سب کہتے ہیں کہ میں سکول کا سب سے ہوشیار لڑکا ہوں۔یہاں تک کہ جو مجھے پسند نہیں کرتے وہ بھی یہی کہتے ہیں۔لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔مجھے کچھ نہیں آتا‘سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔“
”ہاں کوشش جا ری رکھنی چاہیے۔

”مسٹر گروگن پتا نہیں مجھے کہنا چاہیے یا نہیں‘مگر میں وہ نہیں جو نظر آتا ہوں۔باطن میں میں اس سے کہیں بہتر ہوں۔“
وہ بولتا چلا گیا۔شاید اس لئے کہ تھکا ہوا تھا‘موچ سے پریشان تھا‘ایک مسرور کنبے کو موت کی خبر پہنچا کر آیا تھا اور اسے یقین تھا کہ گروگن بھلا آدمی ہے۔
”میرا جی بہت چاہتا ہے کہ کسی طرح ایک نئی دنیا تخلیق ہو۔
ایک بہتر زندگی جنم لے۔ایک نئی نسل ظہور میں آئے۔یہ باتیں میں کسی اور سے بھی نہ کہتا۔مسٹر گروگن میں دن رات محنت کروں گا۔کچھ بن کر دکھاؤں گا۔پہلے میں ہوائی قلعے بنا بنا کر خوش ہو لیا کرتا تھا۔ہمارا کنبہ خوش باش انسانوں کا کنبہ ہے اور ہم ہمیشہ مسرور رہتے ہیں لیکن اب پتا چلا ہے کہ میں بالکل لاعلم تھا۔اب تک میں نے یہ سیکھا ہے کہ کچھ بھی نہیں سیکھا۔
لیکن اب میں آنکھیں کھلی رکھتا ہوں۔سوچتا رہتا ہوں۔اگرچہ اس طرح احساس تنہائی بڑھ جاتا ہے۔لیکن مجھے اس کی پروا نہیں۔ ہمارے کنبے میں سب خوش رہتے ہیں۔لیکن ہم میں سختی اور توانائی بھی ہے۔مجھے ان بیچاروں پر ترس آتا ہے جو مغموم و تنہا ہیں اور ان میں سختی اور برداشت بھی نہیں ہے۔ایسے لوگوں سے دنیا بھری پڑی ہے۔اب تو مجھے اس کی بھی پروا نہیں رہی کہ ہیلن مجھے پسند کرتی۔
کاش کہ یوں ہوتا کہ وہ مجھے پسند کرتی لیکن ایسا نہیں ہے۔تب بھی ٹھیک ہے۔اسے ہیوبرٹ عزیز ہے تو یونہی سہی۔ہیلن جیسی نفاست پسند لڑکی کو اگر ہیوبرٹ سا تصنع پسند بھا گیا تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔میں آداب محفل سے بے بہرہ ہوں‘جو دل میں ٹھان لوں‘کر گزرتا ہوں۔بعض اوقات کلاس میں اُلٹی سیدھی ہانک دیتا ہوں۔استادوں کو پریشان کرنے کیلئے نہیں بلکہ اس لئے کہ کچھ کہنے کو جی چاہتا ہے۔
“زندگی میں کیسے کیسے غم ہیں‘کتنی پیچیدگیاں ہیں۔یا تو کچھ ہوتا ہی نہیں‘اگر ہوتا ہے تو غلط ہوتا ہے۔اس لئے کبھی کبھی واہی تباہی بک لینے میں کوئی حرج نہیں۔میں نہیں چاہتا کہ یونہی خواہ مخواہ شستہ بن کر دکھاؤں۔تصنع سے مجھے نفرت ہے۔“
اس نے گھڑی کی طرف دیکھا۔”افوہ بارہ بج چکے ہیں۔کل سینچر ہے۔سینچر کا پہلے کتنا چاؤ ہوتا تھا۔مسٹر گروگن ایک سینڈوچ کھا لیجیے۔“
”دے دو برخوردار‘اب بھوک لگ آئی ہے۔“گروگن کھانے لگا۔
”اپنی والدہ کا شکریہ ادا کر دینا۔“
”جی نہیں معمولی سی بات ہے۔“
”نہیں معمولی نہیں ہے‘میں ان کا ممنون ہوں۔“
”بہت اچھا‘میں کہہ دوں گا۔“

Browse More Urdu Literature Articles