Buhat Sa Piyar Pohanchey - Article No. 2549

Buhat Sa Piyar Pohanchey

بہت سا پیار پہنچے - تحریر نمبر 2549

محبت بھرے پیغام‘امید افزا سندیسے‘کربناک فقرے‘موت کی منحوس خبریں

ہفتہ 29 مئی 2021

شفیق الرحمن
اتھیکا عام قصبوں جیسا تھا۔شروع شروع میں زندگی بے معنی اور مہمل سی معلوم ہوتی لیکن جوں جوں مہینے اور سال گزرتے زندگی کے دھندلے خاکے میں نقوش ابھرنے لگتے۔اس رنگ آمیزی سے حسن نمایاں ہو جاتا‘جاذبیت عود کر آتی۔یہ حسن بدصورتی کو چھپا لیتا‘ ناشائستگی کو نستعلیق پن میں ڈھانپ دیتا اور برائی کو اچھائی میں۔
متضاد چیزوں کا یہ امتزاج انہیں ایک نئی دلآویزی بخشتا۔تار کی مشین بجتی رہی۔گروگن پیغام لکھ لکھ کر بھیجتا رہا۔محبت بھرے پیغام‘امید افزا سندیسے‘کربناک فقرے‘موت کی منحوس خبریں۔
”میں گھر آرہا ہوں“۔”سالگرہ مبارک ہو“۔”شعبہ جنگ کو افسوس ہے کہ آپ کا لڑکا“۔”بہت سا پیار پہنچے“۔

(جاری ہے)

”میں خیریت سے ہوں“۔

” خداتمہیں خوش رکھے۔“
تار آتے رہے اور ہومر انہیں تقسیم کرتا رہا۔
میکالے خاندان کے گھر سے بربط کے نغمے سنائی دیتے۔سپاہی متحرک تھے۔وطن سے محاذ تک۔خشکی پر‘تری اور ہوا میں‘یہ جنبش جاری رہی۔ نئی نئی جگہیں آباد ہوئیں۔نئے دنوں اور نئی راتوں کی تشکیل ہوئی۔طرح طرح کی مشکلات‘عجیب عجیب خطرے وجود میں آئے۔زندگی بظاہر ویسی ہی تھی۔
لیکن آہستہ آہستہ اس میں بتدریج تبدیلیاں آرہی تھیں۔ہر چیز بدل رہی تھی۔اس تغیر کی زد سے کوئی نہ بچ سکا۔مارکس‘ ٹوبی‘ہومر‘سپنگلر‘گروگن‘مسز میکالے‘یولی سیز‘ڈائنا‘آگی‘لائینل‘بیس‘میری‘مقدس کمروں والی لڑکی‘روزالی‘سمز پیباڈی‘مسٹر ایرا اور اس کا لڑکا جان‘موٹا کرس‘مس ہکس‘اور یہاں تک کہ مسٹر میکینو بھی۔

مال گاڑی جس میں حبشی گا رہا تھا چلتی رہی‘گلہریاں اپنے بلوں سے جھانکتی رہیں۔ہینڈرسن کی خوبانیاں پک کر سنہری ہو گئیں۔لڑکے کئی بار چرانے آئے۔صحن میں یولی سیز مرغیوں‘اور چوزوں کو غور سے دیکھتا گیا۔ہومر کی موچ ٹھیک ہو گئی۔قصبے میں ایسٹر کا تہوار منایا گیا۔ایک ہفتہ اور گزر گیا‘پھر ایک اور۔ہفتے اور مہینے گزرتے رہے۔
میکالے خاندان کے افراد میری کو لے کر گرجے میں دعا مانگنے آئے تھے۔
یولی سیز اپنی ماں کے ساتھ بنچ پر بیٹھا تھا۔اتفاق سے اس کے سامنے ایک ایسا معمر شخص تھا جو بالکل گنجا تھا۔یولی سیز کو یہ نظارہ بے حد دلفریب معلوم ہوا۔گنجے سر کی گولائی اور چمک دیکھ کر اسے انڈا یاد آگیا۔لیکن سر بالکل صاف نہیں تھا۔پانچ چھ بال بھی اُگے ہوئے تھے۔ایک لمبی سی سلوٹ نے سر کو دو حصوں میں یوں بانٹ دیا تھا جیسے خط استواء کرئہ ارض کو تقسیم کرتا ہے۔
یہ گنجا سر قدرت کی صناعی کی بہترین مثال تھی۔
پادری عبارت پڑھ رہا تھا۔پہلے وہ ایک فقرہ پڑھتا۔پھر سب مل کر اگلا فقرہ پڑھتے۔
”حضرت عیسیٰ نے ہجوم کو دیکھا تو آپ پہاڑ پر تشریف لے گئے۔آپ پتھر پر بیٹھے تو حواری حاضر ہوئے۔“پادری بولا۔
”لب مبارک کھلے اور آپ نے فرمایا۔“اور حاضرین نے جواب دیا۔
”مبارک ہیں وہ لوگ جو غریب ہیں‘انہیں بہشت عطا ہو گا۔

”مبارک ہیں وہ جو سوگوار ہیں‘وہ تسکین پائیں گے۔“
”مبارک ہیں وہ جو نیک کرداری کی راہ میں بھوک اور پیاس سہتے ہیں۔وہ بھوکے پیاسے نہیں رہیں گے۔“
”مبارک ہیں وہ جو رحمدل ہیں۔ان پر خاص مراعات ہوں گی۔“
”مبارک ہیں وہ جن کے دل پاکیزہ ہیں۔انہیں خدا کا دیدار نصیب ہو گا۔“
”مبارک ہیں وہ جو امن کے خواہاں ہیں۔
وہ خدا کے خاص بندے کہلائیں گے۔“
”مسرور ہو جاؤ‘خوشیاں مناؤ‘تم دنیا کی بہترین مخلوق ہو‘تم دنیا کا اُجالا ہو۔“
”یہ روشنی اتنی چمکے کہ دوسرے تمہاری نیکیوں سے متاثر ہو کر تمہارے مقدس باپ کی حمد و ثناء کریں۔باپ جو بہشت میں ہے۔“
صحیفوں کی تلاوت شروع ہوئی۔یولی سیز گنجے سر کے مطالعے میں محو تھا۔اس پر کہیں سے آکر مکھی بیٹھ گئی اور چہل قدمی کرنے لگی۔
یولی سیز مکھی کو دیکھتا رہا۔اس نے پکڑنے کے لئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ مسز میکالے نے چپکے سے ہاتھ پکڑ لیا۔
مکھی اور گنجے سر کو دیکھتے دیکھتے وہ خیالات کی دنیا میں کھو گیا۔پھر جیسے وہ چمکدار سر ایک صحرا میں تبدیل ہو گیا۔سلوٹ ندی نظر آنے لگی۔چھ سات بالوں نے کھجور کی شکل اختیار کر لی۔مکھی شیر بن گئی۔
اس نے دیکھا کہ وہ ندی کے کنارے پر کھڑا ہے۔
شیر دوسری طرف ہے‘اور وہ دونوں ایک دوسرے کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے۔
گرجے میں صحیفوں کی تلاوت جاری تھی۔
پھر دور ایک عرب دکھائی دیا‘جو لبادہ اوڑھے ریت پر لیٹا سو رہا تھا۔پاس طنبورہ اور پانی کی صراحی رکھی تھی۔
شیر ٹہلتا ٹہلتا عرب کے قریب پہنچا اور اسے سونگھنے لگا۔شیر کے چہرے پر ایسی معصومیت اور سکون تھا کہ یولی سیز کو یقین ہو گیا کہ وہ عرب کو کچھ نہیں کہے گا۔

تلاوت ختم ہوئی۔آرگن بجنے لگا۔بچے حمدیہ نغمہ”زمانے کی چٹان“ گانے لگے۔
یولی سیز چونک اٹھا۔سارا طلسم درہم برہم ہو گیا۔عرب اور شیر غائب ہو گئے لیکن اب سامنے سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا جس میں ایک چٹان اُبھری ہوئی تھی۔تیز و تند موجیں آآکر ٹکراتیں۔جان بچانے کا ذریعہ یہی ایک چٹان تھی۔یولی سیز نے اسے مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔
صرف اس کا سر اور بازو پانی سے باہر تھے۔اس نے صبر اور امید کا دامن نہیں چھوڑا۔
اتنے میں ایک عظیم شبیہ پانی پر چلتی ہوئی آئی اور اسے بازو سے پکڑ کر اٹھا لیا۔یہ موٹا کرس تھا۔
لیکن وہ پھر پانی میں گر گیا۔موٹے کرس نے دوبارہ اسے نکالا اور دونوں پانی پر چلنے لگے۔دور افق پر ایک خوشنما شہر نظر آرہا تھا۔سر سبز باغات تھے۔جن سے اُجلی اُجلی عمارتیں جھانک رہی تھیں۔

گیت ختم ہو گیا۔
کوئی یولی سیز کو جھنجھوڑنے لگا۔وہ ہڑبڑا کر اٹھا۔
یہ لائینل تھا جس کے ہاتھ میں چندہ جمع کرنے کی رکابی تھی۔یولی سیز نے جلدی سے ایک سکہ نکال کر رکابی میں ڈال دیا۔
لائینل نے یولی سیز کے کان میں آہستہ سے کہا۔”بخشش ہوئی یا نہیں؟“
”کیا؟“
”اسے پڑھو۔“لائینل نے ایک کتا بچہ دیا۔یولی سیز عبارت نہ پڑھ سکا۔
پہلے صفحے پر جلی حروف میں لکھا تھا۔
”آپ بخشش کے طالب ہیں؟۔“
”تو مزید دیر مت کیجیے۔“
لائینل نے یہی سوال ایک معمر شخص سے پوچھا۔
”آپ بخشش کے طالب ہیں؟“
بوڑھا خفا ہو گیا۔”چلو چلو۔آگے بڑھو۔“
لائینل حیران رہ گیا لیکن آگے بڑھنے سے پہلے اس نے بوڑھے کے ہاتھ میں کتا بچہ تھما دیا۔بوڑھے نے لائینل کو یوں گھورا جیسے اسے کچا ہی چبا جائے گا۔

”کیا ہوا؟“اس کی بیوی نے پوچھا۔
”ہونا کیا تھا۔یہ بدتمیز مجھ سے پوچھتا ہے بخشش ہوئی یا نہیں؟اور یہ کتا بچہ خواہ مخواہ دے گیا۔“
اس نے فرش پر پڑا ہوا کتا بچہ اٹھا کر عبارت پڑھی۔
بیوی نے اس کے بازو کو تھپتھپایا۔”بیچارے لڑکے کو کیا خبر کہ تم چین میں تیس سال پادری رہ چکے ہو۔“
آرگن بج رہا تھا۔لڑکے گا رہے تھے۔لائینل‘آگی اور اس کے ساتھی رکابیاں لیے کونے میں کھڑے تھے۔موسیقی ختم ہوئی تو لڑکوں نے جمع کیا ہوا چندہ میز پر رکھ دیا اور اپنے والدین کے پاس جا بیٹھے۔

Browse More Urdu Literature Articles