Homer - Article No. 2513

Homer

ہومر - تحریر نمبر 2513

ہرکارے نے ہشت ہشت کرکے اسے چپ کرایا اور جلدی سے سائیکل پر سوار ہو کر چل دیا

منگل 13 اپریل 2021

شفیق الرحمن
کچی سڑک دُھول سے اَٹی پڑی تھی لیکن اس کا بڑا بھائی ہومر بڑی مستعدی سے پرانی سائیکل چلا رہا تھا۔اس نے تار کے ہرکاروں کا کوٹ اور ٹوپی پہن رکھی تھی۔کوٹ بہت بڑا تھا اور ٹوپی چھوٹی۔سورج غروب ہونے کو تھا۔فضا میں سکون تھا اور غنودگی۔جو اتھیکا کے باشندوں کو بے حد عزیز ہے۔
چاروں طرف کیلیفورنیا کا پرانا علاقہ تھا اور خوشنما کُنج اور تاکستان۔
وہ بڑی تیزی سے جا رہا تھا۔تاہم گردونواح کے حسین نظاروں سے بے خبر نہ تھا۔کبھی وہ گھاس کے قطعوں پر پھیلی ہوئی دھوپ کو دیکھتا‘کبھی نیلے آسمان کے سفید بادلوں کو۔سیدھا جانے کی بجائے فرط مسرت سے وہ سائیکل کو لہریوں میں چلا رہا تھا۔پیڈل کی گردش کے ساتھ ساتھ وہ گانے لگتا۔یہ گیت بیک وقت سادہ‘غنائیہ‘مہمل سب کچھ تھے لیکن ان میں دلکشی تھی۔

(جاری ہے)

ان میں سے بیشتر گیت اس نے اوپیرا میں سُنے تھے۔آرکسٹرا کی دھنیں تھیں جنہیں اس نے بارہا اپنی بہن بیس کے پیانو پر اور ماں کے بربط پر گایا تھا۔بعد میں اس کا بڑا بھائی مارکس آرگن باجا لے آیا‘جس سے کبھی طربیہ نغمے نکلتے تھے‘کبھی مغموم۔اسے مارکس یاد آنے لگتا۔
یکا یک اسے شور سنائی دیا اور آسمان میں تین چیزیں تیزی سے اُڑتی ہوئی گزر گئیں۔
ہرکارے نے ان کی طرف دیکھا اور فوراً ایک کھائی میں جا گھسا۔
”یہ ہوائی جہاز تھے۔“اس نے زیر لب کہا۔
کسی زمیندار کا کتا غُل سُن کر بھاگا بھاگا آیا اور اس طمطراق سے بھونکنے لگا جیسے کوئی بات کہنا چاہتا ہے۔ہرکارے نے ہشت ہشت کرکے اسے چپ کرایا اور جلدی سے سائیکل پر سوار ہو کر چل دیا۔
ذرا سی دیر میں آبادی آگئی۔مکانوں کی قطار سے پہلے ایک بورڈ لگا ہوا تھا‘جس پر لکھا تھا:
اتھیکا‘کیلیفورنیا۔

مشرق ہو یا مغرب وطن پھر وطن ہے۔
اے اجنبی خوش آمدید!
سامنے سے فوجی لاریاں آرہی تھیں‘اس لئے وہ رُک گیا۔اس نے سپاہیوں کو ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا۔بالکل اسی طرح جیسے اس کے چھوٹے بھائی نے انجن ڈرائیور اور دوسروں کو سلام کیا تھا۔کئی سپاہیوں نے سلام کا جواب دیا۔

Browse More Urdu Literature Articles