Homer Ko Marx Ka Khatt - Article No. 2548

Homer Ko Marx Ka Khatt

ہومر کو مارکس کا خط - تحریر نمبر 2548

مجھے یقین ہے کہ میرے وہ جذبات بھی تم تک پہنچ جائیں گے جنہیں میں الفاظ میں ادا نہ کر سکا

جمعہ 28 مئی 2021

شفیق الرحمن
ہومر کے لئے یہ سنیچر بہت اہم تھا۔معمولی سے واقعات نے کچھ ایسی صورت اختیار کی کہ زندگی میں سنجیدگی آگئی۔اسے رات کا بھیانک خواب یاد تھا کہ اس نے موت کے فرشتے کو قصبے سے دور رکھنے کی کوشش کی تھی۔یہ خواب حقیقت بن گیا۔مارکس کا خط اس کی جیب میں تھا۔وہ تھکا ہارا‘لنگڑاتا ہوا گھر پہنچا کاغذات دیکھے لیکن کوئی تار یا پیغام نہیں ملا۔
اب چھٹی تھی۔
”مسٹر گروگن‘میں باسی سموسے لے آؤں؟“
بوڑھا ساری شام پیتا رہا۔خمار سے اس کی آنکھیں بوجھل تھیں۔
”میں ساتھ دیتا لیکن اس وقت کھانے کو دل نہیں چاہتا۔“
”میرا بھی کچھ زیادہ جی نہیں چاہ رہا۔خیال تھا کہ آپ بھوکے ہوں گے۔آج دن بھر مصروفیت رہی۔لیکن معلوم نہیں کیوں اب تک بھوک نہیں لگی۔

(جاری ہے)

آپ سوچتے تو ہوں گے کہ یہ دن رات کام کرتا ہے پھر بھی اسے بھوک نہیں لگتی۔


”ٹانگ اب کیسی ہے؟“
”پہلے سے اچھی ہے‘با آسانی چل پھر سکتا ہوں۔ویسے مجھے تو موچ یاد ہی نہیں رہی۔“
وہ بوڑھے کو عجیب نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
”مسٹر گروگن آپ نشے میں ہیں؟“
یہ سوال ایسے بھولپن سے پوچھا گیا تھا کہ بوڑھا خفا نہیں ہوا۔
”ہاں میں نشے میں ہوں۔مخمور ہوں تو خوش رہتا ہوں۔“
بوڑھے نے بوتل نکال کر تین چار گھونٹ لیے”بیٹے میں ناصح نہیں ہوں کہ شراب کے خلاف تقریر شروع کر دوں۔
وہ احمق ہیں جو کہا کرتے ہیں کہ مجھ سے سبق سیکھو۔شراب نے میرا یہ حال کر دیا ہے۔دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو وغیرہ وغیرہ۔میں ایسی خرافات سے پرہیز کروں گا۔تم سمجھ دار ہو‘روز نئی نئی باتیں سیکھتے ہو۔ایک نصیحت کروں۔دوسروں کے متعلق کبھی زیادہ نہ سوچا کرو‘نہ ان کی باتوں اور حرکتوں پر توجہ دیا کرو۔اوروں کے بارے میں کبھی وثوق سے اظہار رائے نہیں کیا جا سکتا۔
بُرا نہ ماننا۔یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ تم مجھے عزیز ہو۔کسی کے قول یا فعل پر تنقید کرنا بُری بات ہے۔”مجھے لو‘میں تمہارے متعلق کچھ بی نہیں جانتا‘تم کون ہو‘کہاں رہتے ہو۔کیا حالات تھے جنہوں نے تمہیں ایسا بنا دیا۔میں کچھ نہیں جانتا سوائے اس کے کہ تم بڑے اچھے لڑکے ہو اور تمہارے خیالات مجھے بے حد پسند ہیں۔بڑھاپا آتا ہے تو انسان اچھوں کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔
خصوصاً اس بات سے کہ اس کی موت کے بعد بھی اچھائی دنیا میں باقی رہے گی۔یہی سوچو کہ میں نشے میں نہ ہوتا تو تم سے ایسی باتیں کرتا؟شاید میرا شرابی ہونا اتنی بُری بات نہیں۔کسی کو کیا معلوم کہ میرے حالات کیا ہیں۔مجھ پر کیا کچھ گزرتی ہے۔میں کیوں پیتا ہوں؟تمہیں کچھ اندازہ ہے؟“
“جی نہیں۔“
”یہ شراب ہی ہے جو مجھے اپنا دل کھول دینے پر مجبور کرتی ہے ‘تبھی تم سے ایسی گفتگو کیا کرتا ہوں۔
بیٹے خوش رہا کرو‘خدا کا شکر ادا کیا کرو جو جیسا بھی ہے‘جس حال میں ہے‘اسے ممنون ہونا چاہیے۔اگر وہ اچھا ہے تو اس کی بھلائی صرف اسی تک محدود نہیں۔مجھے بھی کچھ حصہ ملتا ہے‘اور دوسروں کو بھی۔اس کے ذمے یہ فرض ہے‘کہ اچھائی کو برقرار رکھے اور دوسروں میں پھیلائے۔تم میں خوبیاں ہیں‘خدا کا شکر بجا لاؤ کیونکہ جہاں تم جاؤ گے لوگ تمہیں پہچان لیں گے‘تمہیں ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔

نہ جانے کیوں ہومر کو وہ لڑکی یاد آگئی جس نے اس سے مقدس کمروں میں باتیں کی تھیں۔
”وہ فوراً بھانپ لیں گے کہ تم سچے ہو‘قابل اعتماد ہو‘بے ضرر ہو۔وہ سمجھ جائیں گے کہ دنیا انہیں ٹھکرا دے گی۔لیکن تمہیں ان سے نفرت نہیں ہو گی۔دنیا انہیں غلط سمجھتی رہے لیکن تم ان کو پہچان لو گے۔بیٹے تم کم سن ہونے کے باوجود بڑے عظیم انسان ہو۔
تمہیں یہ عظمت کہاں سے ملی؟کوئی نہیں بتا سکتا۔مجھ پر یقین کرو۔میں سچ کہتا ہوں۔اور عظمت کے ساتھ ساتھ طبیعت میں انکساری پیدا کرو۔اپنی خوبیوں کو برقرار رکھو۔“
”جی۔“
”میں نے تمہاری فطرت کا مطالعہ کیا ہے۔کبھی میں نشے میں ہوتا ہوں‘کبھی ہوش میں‘لیکن تم سے ہمیشہ متاثر ہوا ہوں۔میں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے۔دنیا کے ہر حصے میں رہا ہوں۔
جوانی میں طرح طرح کے لوگ دیکھے ہیں۔زندگی بھر مجھے اچھائی کی تلاش رہی۔اجنبی قصبوں میں‘اَن جانے لوگوں میں‘میں نے اچھائی کا قرب محسوس کیا۔یوں تو اس کی تھوڑی بہت جھلک ہر شخص میں دکھائی دی۔یہ کافی نہ تھی۔اور اب برسوں کے بعد اس چھوٹے سے قصبے میں اچھائی کو تمہارے روپ میں دیکھا ہے۔میں تمہارا ممنون ہوں۔یہ لفافہ کیسا ہے؟“
”بھائی مارکس کا خط آیا ہے۔
پڑھنے کا موقع نہ مل سکا۔“
”اب پڑھ لو۔“
”آپ سنیں گے۔“
”ضرور سنوں گا۔“بوڑھے نے چند گھونٹ اور لیے۔
ہومر نے بڑی حفاظت سے لفافہ کھول کر خط نکالا اور پڑھنے لگا:
عزیز ہومر!پیشتر اس کے کہ میں اور باتیں لکھوں‘یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ میری جتنی چیزیں گھر میں رکھی ہیں وہ اب تمہاری ہیں۔انہیں لے لو۔جب تمہیں ضرورت نہ رہے تو یولی سیز کو دے دینا۔
میری کتابیں‘گرامو فون‘ریکارڈ‘سائیکل‘خوردبین‘مچھلیاں پکڑنے کا سامان‘پیڈرا کی پہاڑیوں سے اکٹھے کیے ہوئے پتھر اور بقیہ سب چیزیں لے لو۔میرے کپڑے تمہیں ڈھیلے آئیں گے‘لیکن چند برس بعد تم بڑے ہو جاؤ گے‘تو انہیں بھی لے لینا۔بیس سے زیادہ تم حقدار ہو‘کیونکہ تم میکالے خاندان کے سرپرست ہو۔
جو کچھ میں نے پچھلے سال چھوٹے موٹے کام کرکے کمایا تھا وہ اماں کو دے دیا ہے۔
انہیں ضرورت ہو گی۔خرچ پورا نہ ہونے کی وجہ سے شاید اماں اور بیس ملازمت کرنا چاہیں۔میں گھر پر ہوتا تو انہیں کبھی نوکری نہ کرنے دیتا۔امید ہے کہ تم بھی انہیں زیادہ محنت مشقت سے محفوظ رکھو گے۔وہ اصرار کریں تب بھی انہیں منع کر دینا۔
میں سوچتا ہوں کہ تم گھر کس طرح چلاتے ہو گے جبکہ تمہیں سکول کا کام بھی رہتا ہے لیکن پھر اطمینان ہو جاتا ہے‘کیونکہ تم بڑے ہمت والے ہو۔

اپنی تنخواہ میں سے صرف چند ڈالر لے کر باقی اماں کو بھجوا دیتا ہوں‘لیکن یہ قلیل رقم گھر کے اخراجات کے لئے ناکافی ہے۔تمہارے کندھوں پر جو بوجھ آن پڑا ہے‘اس کا مجھے احساس ہے۔جب میں نوکر ہوا تو میری عمر انیس سال کی تھی۔تم اتنے چھوٹے ہو۔پھر بھی مجھے یقین ہے کہ خاندان کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچنے دو گے۔
تم بہت یاد آتے ہو۔
اکثر تمہارے متعلق سوچتا رہتا ہوں۔تمہیں تو علم ہو گا کہ مجھے جنگ سے ہمیشہ نفرت رہی ہے۔اس جنگ سے بھی جو مجبوراً لڑنی پڑے۔لیکن پھر یہ سوچتا ہوں کہ ملک کی خدمت کر رہا ہوں‘جس میں اتھیکا ہے‘ہمارا گھر ہے اور میکالے کنبہ ہے۔
جس شخص میں انسانیت کا مادہ ہے وہ کبھی میرا دشمن نہیں ہو سکتا۔دشمن سے مجھے ذاتی عناد نہیں۔عداوت ہے تو ان برائیوں سے جنہیں فنا کر دینا چاہیے‘جیسے میں خود اپنی برائیوں کو مٹا دینا چاہتا ہوں۔

میں اپنے آپ کو ہیرو نہیں سمجھتا‘نہ مجھ میں ہیرو بننے کی صلاحیت ہے۔مجھے کسی سے نفرت نہیں۔میں کٹر قسم کا وطن پرست بھی نہیں ہوں۔مجھے اپنے ملک اور اس کے قصبوں اور باشندوں سے ہمیشہ محبت رہی ہے۔لیکن میرا جی یہی چاہتا ہے کہ کاش میں فوج میں نہ ہوتا‘ کاش کہ جنگ نہ ہوتی!مگر چونکہ اب میں فوج میں ہوں اور ہم جنگ لڑ رہے ہیں‘اس لئے میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ اچھا سپاہی بن کر دکھاؤں گا۔
پتہ نہیں کل کیا ہونے والا ہے۔جو کچھ بھی ہوا اس کے لئے تیار ہوں۔میں خوفزدہ ہوں بے حد خوفزدہ۔لیکن وقت آنے پر ہر گز پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ فرائض میں کوتاہی کبھی نہ ہو گی۔حکم چلانے اور حکم بجا لانے سے مجھے نفرت ہے۔وہی کروں گا جو ضمیر کہے گا۔بطور سپاہی میری اہمیت کچھ اتنی زیادہ نہیں۔فوج میں مجھ جیسے لاکھوں لڑکے ہیں ۔ہو سکتا ہے کہ میں جنگ میں کام آجاؤں۔
لیکن میری سب سے بڑی خواہش یہی ہے کہ بچ کر واپس گھر آؤں۔اور بقیہ زندگی اماں‘بہن اور بھائیوں کے ساتھ گزار دوں اور میری اور میں اپنا گھر بسائیں۔
ہمیں بہت جلد محاذ پر بھیج دیا جائے گا۔خبر نہیں ہم کس جگہ لڑیں گے لیکن اب زیادہ دیر نہیں لگے گی۔اس لئے کہ اگر کچھ عرصے تک میرا خط نہ آئے تو گھبرانا مت!شاید یہ میرا آخری خط ہو۔اگر ایسا ہوا تو کنبے کا خیال رکھنا‘یہ نہ سمجھنا میں نے تمہارا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔
دوسروں کو بھی محسوس نہ ہونے دینا۔
میرا ایک دوست ہے‘جو یتیم اور بے گھر ہے۔عجب بات ہے کہ سب لڑکوں میں سے میں نے اسی کو منتخب کیا ہے۔اس کا نام ٹوبی جارج ہے۔میں اس سے گھر اور کنبے کا ذکر کرتا رہتا ہوں۔ہم دونوں اکٹھے اتھیکا آئیں گے۔خط پڑھ کر جی بُرا مت کرنا۔میں خوش ہوں کہ میکالے کنبے کا ایک لڑکا فوج میں ہے۔
مجھے یقین ہے کہ میرے وہ جذبات بھی تم تک پہنچ جائیں گے جنہیں میں الفاظ میں ادا نہ کر سکا۔
تم ضرور سمجھ جاؤ گے۔کیونکہ ہمارے کنبے میں تم سب سے اچھے ہو ہمیشہ اچھے رہنا۔تم کم سن ہو۔ابھی چودہ برس کے ہو۔خدا کرے ساٹھ برس تک جیو‘اس سے بھی زیادہ عمر پاؤ۔سدا جیو۔میری نگاہیں تم پر رہیں گی۔تمہارے ہی لئے تو ہم جنگ لڑ رہے ہیں۔میرے عزیز بھائی!تم دنیا کی سب سے بیش قیمت شے ہو۔اگر ہم اس وقت اکٹھے ہوتے تو یہ سب باتیں کیسے بتا سکتا تھا۔
تم ایک نہ سنتے‘مجھ سے کشتی لڑتے۔مجھے نیچے گرا کر قہقہے لگاتے۔
جو کچھ میں نے خط میں لکھا ہے وہ سب صحیح ہے‘بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ۔اب میں تمہارا نام لکھتا ہوں تم ہومر میکالے ہو۔تم بہت یاد آتے ہو۔تم سے ملنے کو جی چاہتا ہے۔اس دن کے لئے ایک ایک گھڑی گنتا رہتا ہوں۔جب خدا ملائے گا۔پھر تم بے شک مجھ سے کشتی لڑنا۔اماں بیس اور میری کے سامنے مجھے بچھاڑ دینا‘میں ہر گز بُرا نہیں مانوں گا۔
اس دن کا مجھے انتظار رہے گا۔
خدا تمہارا محافظ ہو۔تمہارا بھائی۔مارکس
خط پڑھتے ہوئے بار بار ہومر کی آواز بھرائی۔کئی دفعہ اس کی آنکھوں میں آنسو آئے۔دم گھٹنے لگا‘سامنے اندھیرا چھا گیا۔بالکل اسی طرح جیسے میکسیکن عورت کے گھر میں ہوا تھا۔ہومر کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔اس نے ہونٹ بھینچ لیے اور گروگن کی طرف دیکھا جو غم کی تصویر بنا ہوا تھا۔

”اگر اس بیہودہ جنگ میں میرا بھائی مارا گیا تو عمر بھر کے لئے مجھے دنیا سے نفرت ہو جائے گی۔نیکی‘ایمانداری‘سچائی ان سب سے نفرت کروں گا۔میں بَد بن کر دکھاؤں گا۔مجھ سے زیادہ برا کوئی نہ ہو گا۔“
اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔جلدی سے اس نے وردی کا سفید کوٹ اور ٹوپی اتار کر ایک طرف رکھی اور باہر بھاگ گیا۔بوڑھا خاموش بیٹھا تھا۔جب بہت دیر ہو گئی تو اٹھا‘بچی ہوئی شراب پی اور کاغذات سنبھالنے لگا۔

Browse More Urdu Literature Articles